گزشتہ تحریروں میں یہ بات میں بیان کر چکا ہوں کہ میرا بچپن کراچی کے علاقے فیڈرل کیپیٹل ایریا جس کو اب عرفِ عام میں ایف سی ایریا بھی کہتے ہیں میں گزرا تھا۔
سرکاری ملازمین کی یہ بستی "الکرم اسکوائر" کے پیچھے کی جانب اُس وقت تین منزلہ فلیٹ کی عمارتوں پر مشتمل تھی۔ اس کے سامنے کی جانب جہاں اب "شہدائے اردو" کی قبریں، مسجد اور ٹین کے بکسوں کی دکانیں ہیں، وہاں پر اُس زمانے میں ایک وسیع و عریض کھلا میدان تھا۔ اس میدان میں سال میں کم از کم ایک دفعہ "جوبلی سرکس" لگا کرتا تھا۔
یہ سرکس "ٹرکوں" پر آباد ایک چلتا پھرتا پورا شہر ہوتا تھا جو سارا سال سفر میں رہتا تھا۔ اس میں ہنسانے والے "جوکر" بھی "دکھی" ہوتے ہیں اور "رلانے" والے گیت گانے والے "خوش" بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ ایک انتہائی مختلف دنیا ہوتی تھی جہاں "تار" پر سائیکل چلانے والی لڑکیاں، حساب کتاب جاننے والا کُتّا، شیروں کو آگ سے گزارنے والا ماسٹر، اپنی ہی "بیوی" پر خنجروں سے وار کرنے والا "بہادر شوہر"، اس سے بھی بڑھ کر اس بیوی کا یہ یقین کہ مجھے کوئی خنجر نہیں لگے گا اور حیرت انگیز طور پر ان میں سے کوئی بھی اُس خاتون کو نہیں لگتا تھا۔۔۔
پستہ قد جوکر اور اور ان کی مزاحیہ حرکتیں، خواجہ سراؤں کا "رقص" اور "موت کا کنواں" اس میں خطرے سے بھرپور "موٹر سائیکل" اور "کار سوار" موت کا گولا۔۔۔ اس میں موٹر سائیکل سوار خوفناک سانپوں سے کھیلنے والے بہادر، جمپ کرتے جھولے جھولتے تندرست لڑکے، لڑکیاں۔ سانپ کے دھڑھ والی عورت، عورت کے جسم والی لومڑی، دو منہ والا گائے کا بچہ، بڑے بڑے دیو قامت جھولے اور حیرت زدہ حاضرین و ناظرین سب اسی سرکس کا حصہ بن جاتے تھے۔
سرکس تو شام کو شروع ہوتا تھا لیکن ہم کبھی کبھی دن میں بھی سرکس والوں کی طرف چلے جاتے تھے۔ ہم بچوں کے لیے تو دن کا منظر بھی حیرتوں سے بھر پور ہوتا تھا کیونکہ وہاں تو پورا ایک شہر آباد تھا۔۔۔ ڈھیروں فنکار اور پھر ان کے رہنے کے الگ الگ ٹھکانے بھی بنے ہوتے تھے۔۔۔ یہاں پر خواجہ سرا رہتے ھیں، یہ موت کے کنویں میں کرتب دکھانے والوں کا ٹھکانہ ہے، اُس طرف ٹرکوں کے ڈرائیورز ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں ان سے کچھ فاصلے پر لڑکیوں کی رہائش ہے جو سرکس میں جمپ کرتی ہیں۔۔۔ غرض یہاں پر تو سب ماں، باپ اور مختلف بچے بالکل فیملی کی طرح رہ رہے ہیں۔
سرکس میں کام کرنے والے ان مختلف لوگوں کو آپس میں یوں نظم و ضبط میں رہتا دیکھ کر ہم حیرت میں مبتلا ہو جایا کرتے تھے۔ انہیں دیکھ کر فوری طور پر یہی خیال ہمارے ذہن میں آتا تھا کہ ان کی زندگیاں تیز رفتار چلتی ہوئی گاڑیوں کی طرح رواں دواں ہمہ وقت سفر میں ہیں اور وہ سب کے سب بےفکری سے ہر طرح کے خطروں سے نبرد آزما ان گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے اپنے اپنے حصے کا کام نہایت ہی خوش اسلوبی سے سرانجام دیے جا رہے ہیں۔
"جوبلی سرکس" کے حوالے سے یہ تھیں ہماری وہ یادیں جو ابھی تک میں بُھلا نہیں پایا۔ کیونکہ جب بھی یہ ہمارے علاقے میں سرکس لگاتے تھے تو ہم فوراً ہی انہیں دیکھنے کے لیے پہنچ جایا کرتے تھے۔ "جوبلی سرکس" کے علاوہ پاکستان میں ایک "لکی ایرانی سركس" بھی ہوا کرتا تھا۔ یہ بھی شہر شہر، گاؤں گاؤں جا کر دیکھنے والوں کو مسحور کر دیتے تھے۔ سرکس کی نسبت سے ایک فلم بھی میرے حافظے میں ابھی تک محفوظ ہے۔ یہ ہندوستان کی ایک مشہور فلم تھی جس کا مرکزی کردار "جوکر" دیکھنے والوں میں بہت مشہور ہوا تھا۔ دراصل سرکس میں ایک اہم اور لازمی کردار "جوکر" کا بھی ہوتا ہے، جو شائقین کو ہنساتا ہے۔ ہندوستان میں "راج کپور" نے "میرا نام جوکر " کے نام سے یہ فلم بنائی تھی، جو آدھی سے زیادہ روس کے ایک سركس "جیمنی سركس " پر فلمائی گئی تھی۔ یہ فلم 1970 میں ریلیز ہوئی تھی۔
اگر سرکس کی جدید تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا سركس ہاؤس "رنگنگ بروس اور برنم اینڈ بیلی سرکس" ایک روایتی سرکس تھا جو 1907 میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ دو ٹرینوں پر مشتمل تھا اور ہر ٹرین ایک میل لمبی ہوتی تھی جس کے ساتھ ہی ایک ٹرکوں کا قافلہ بھی ہوتا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ہم دنیا کا سب سے بڑا سرکس ہیں۔
دنیا کے اس سب سے بڑے سركس "رنگلنگ بروس اور برنم اینڈ بیلی" کے 2017 میں اختتام کے باوجود امریکہ سمیت پوری دنیا میں سرکس کی حیرت انگیز پرفارمینسس جاری ہیں۔ مقامی اور عالمی سطح پر روایتی سرکس ہاؤسز، ابھی بھی اپنے بڑے بڑے خیمے لاکر یا آپ کے قریب واقع شہروں یا چھوٹے قصبوں میں پنڈال سجاتے رہتے ہیں۔
"