ستی
برصغیر میں انگریزوں کے دور تک ہندوؤں میں رسم تھی کسی شخص کے مرنے کے پر اس کی بیویاں بھی اس کی چتا کے ساتھ جل جاتی تھیں یہ رسم ستی کہلاتی تھی ۔ یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ اس رسم کا کب رواج ہوا ۔ ویدوں میں اس رسم کے بارے میں کوئی ذکر نہیں ملتا ہے ۔ اگرچہ بعض ہندوؤں کا خیال ہے کہ رگ وید میں ستی کا جوالہ ہے ۔ منو نے بیواؤں کے چال چلن ان کی زندگی گزارنے کے طور و طریقہ لکھے ہیں لیکن ستی کی رسم کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ منو کے زمانے تک عورتیں ستی نہیں ہوتی تھیں ۔ یہ روایت کب سے جاری ہوئی اس کے بارے کچھ پتہ نہیں چلتا ہے ۔ یونانیوں نے بھی اس رسم کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ البتہ مسلمان سیاحوں نے اس رسم کا ذکر کیا ہے ۔ تاہم اندازہ ہے یہ رسم ساتویں صدی سے شروع ہوئی جب کہ راجپوتوں کا دور شروع ہوا ۔ جمیز ٹاڈ کا کہنا ہے یہی ہے یہ رسم راجپوت عورتوں میں اس لیے شروع ہوئی نہ انہیں فاتح کی لونڈیاں منظور نہیں تھا ۔
ایک روایت کے مطابق مہابھارت کی جنگ میں کوروں کو شکست ہوئی اور وہ قتل ہوئے اور ان کا اندھا باپ دہرتراشتر نے راج پانڈوؤں کے حوالے کیا اور خود اپنی بیوی کے ساتھ ہمالیہ چلاگیا اور وہاں آگ میں جل کر مرگیا ۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی ساتھ جل گئی تھی ۔ اس کے بعد عورتوں میں یہ رسم شروع ہوئی کہ شوہر کی موت کے بیوی یا بیویاں شوہر کی چتا میں ساتھ جلنے لگیں ۔ اس لیے ہندوؤں کے جن طبقات میں ستی کا دستور تھا وہاں عورتوں میں خیال پیدا ہوگیا تھا کہ ہمیں کسی قسم کی پوجا کی ضرورت نہیں ہے ۔ کیوں کہ اپنے شوہروں کی اطاعت کرنا اور اس کے ساتھ ہی چتا میں جل کر مر جانا ہماری نجات کے لیے کافی ہے ۔
کسی عورت کو ستی ہوتے ہوئے دیکھنا طبعیت پر سخت گراں گزرتا ہے اور دیکھنے والوں کے دل پر گہرا صدمہ کے ساتھ ستی ہونے والی عورت کی عظمت اور عورت کے استقلال اور تحمل پر حیرت ہوتی تھی ۔ ستی کے وقت عورت اپنی ذاتی اشیاء اپنے عزیزوں تقسیم کرنے اور آس پاس کے لوگوں سے الوداعی سلام و دعا اور لوگوں کا اس کی تعظم و احترام کرنے کا منظر ۔ اس وقت ستی ہونے والی عورت کی باتوں سن کر اس کا طرار پن دیکھ کر دیکھنے والوں کی عجیب حالت ہوجاتی تھی کہ ایک نرم مزاج عورت ایک فرسودہ رسم کی بدولت اپنی جان جس طرح دیتی ہے اس سے بڑے بڑے حب الوطن لڑائیوں میں مرنے والے بھی ہیچ ہیں ۔
انگریزوں کا کہنا ہے کہ شوہر کی موت کے بعد اس کی بیوہ کو جو ذلت کی زندگی گزانی پڑتی تھی اسی وجہ سے عورتیں ستی ہونا پسند کرتی تھیں ۔ اس کے علاوہ عورتوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھائی جاتی تھی کہ ان کے ستی ہونے سے شوہر کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور وہ سرگ میں شوہر کے ساتھ عیش و عشرت کی زندگی گزارے گی ۔ وہ اسی امید پر کہ اس کے ساتھ اس کے شوہر کو بھی سرگ کی لذتین عیش و آرام نصیب ہوں گے خوشی خوشی جل جاتی تھی ۔ بنگال میں ایک ستی کے موقعہ پر ایک عورت ڈر کر بھاگی تو لوگوں نے اسے پکڑ کر چتا میں ڈالنے لگے تو تماشہ دیکھنے والے ایک انگریز نے اسے دوبارہ چتا میں نہیں ڈالنے دیا یوں اس کی جان بچ گئی ۔ لیکن دوسرے دن اس عورت نے آکر اس انگریز سخت برا بھلا کہا کہ تم نے مجھے ذلیل کر دیا ۔ اگر جل جانے دیا ہوتا تو آج بیکٹھ (جنت) میں شوہر کے ساتھ عیش کر رہی ہوتی ۔ اب میرے لواحقین مجھے برا بھلا اور بدعائیں دیتے ہیں ۔ مشہور یہ بھی ہے کہ مرنے والے کے رشتہ دار س بیوی کو ستی ہونے کے لیے اس بھی مجبور کرتے تھے کہ اس کی مال اور دولت اس کے ہاتھ لگ جائے ۔ مگر ہندو مذہب میں عورت کو اس طرح کا استقاق نہیں حاصل ہوتا تھا کہ وہ مال و دولت اپنے پاس رکھے یا آزادانہ زندگی بسر کرے ۔ منو کے قانون کے مطابق اسے شادی سے پہلے باپ و بھائیوں اور شادی کے بعد شوہر اور بیٹوں کی محتاج ہوتی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے بہت سی عورتیں شوہر سے محبت کے اظہار میں جوش و جذبات ستی ہوتی تھیں ۔
اگر متوفی کی کئی بیویاں ہو تو ان میں میں جو عمر بڑی ہوتی اسے ستی ہونے کا پہلا حق ہوتا تھا ۔ اس طرح حاملہ عورت بچے کے پیدا ہونے کے بعد بھی ستی کرلیتی تھی ۔ بہت سی عورتیں ستی کے راضی نہیں بھی ہوتی ہیں اور انہیں زبردستی ستی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے کھرک سنگھ کی موت کے بعد اس کی بیوہ ایسر کور نے ستی ہونے سے انکار کر دیا تھا ۔ مگر راجہ دہیان سنگھ سے اسے زبردستی کھرک سنگھ کی چتا کے ساتھ جلا دیا ۔
ستی ہونے کے ہر جگہ مختلف طریقے رائج تھے ۔ مثلاً بنگال میں بیوہ کو مردے کے ساتھ چتا میں رسیوں اور بانسوں سے باندھ دیا جاتا تھا کہ عورت اٹھ کر بھاگ نہ سکے اور پھر چتا کو آگ لگا دی جاتی تھی ۔ اڑیسہ میں ایک گڈھا کھود کر اس میں مردے کو آگ دیکھاتے تھے اور جب شعلے بلند ہوتے تو اس کی بیوہ اس میں کود پڑتی تھی یا دھکا دے دیا جاتا تھا ۔ دکن میں ستی کا دستور اس طرح تھا کہ چتا میں عورت مردہ شوہر کا سر زانو پر لے بیٹھ جاتی تھی اور چتا کے چاروں طرف لکڑیاں لگا اوپر چھت بناکر اندر مردے اور عورت کے پاس لکڑیاں چن دی جاتی تھیں اور چتا کی چھت کو آگ لگا دی جاتی تھی ۔ عورت یا تو دھویں سے دم گھٹنے سے مرجاتی تھی یا چتا کی چھت اس پر گر جاتی تھی ۔
ستی ہونے والی عورتیں عموماً ستی کے لیے مختلف رسومات برد باری اور صبر و استقلال سے ادا کرتی تھیں کہ ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ وہ موت کو گلے لگا رہی ہیں ۔ اکثر یہ دیکھا گیا ستی ہونے والی عورت شعلوں کے درمیان سر کو جھکا کر دونوں ہاتھ جوڑ کر دعائیں مانگتی مانگی جل گئی ۔ یہ بھی ہوتا تھا کہ چتا کو آگ دیکھائی تو عورت ڈر کر بھاگی اور لوگوں نے اسے پکڑ کر دوبارہ چتا میں ڈلا اور اس کے اوپر لکڑی کے بھاری تنے دال دیے کہ وہ دوبارہ نکل نہیں سے ۔ بعض اوقات یا بعض مقامات پر ستی ہونے والی عورتوں کو نشہ آور دے دی جاتی تھی کہ وہ کہ انہیں ہوش نہ رہے ۔ مثلاً گجرات میں ستی ہونے والی عورتیں کو عموماً افین کھلادی جاتی تھی جس سے وہ مدہوش ہوجاتی تھیں ۔
ستی ہونے کا دستور پورے ہندوستان میں نہیں تھا جنوب میں دریائے کشنا کی جنوبی جانب عورتیں ستی نہیں ہوتی تھیں ۔ دکن ، گجرات ، بمبئی ، سندھ اور پنجاب میں ستی ہونے والوں کی تعداد کم ہوتی تھی ۔ مگر وسط ہند ، مشرقی ہند ، راجپوتانہ اور بنگال میں یہ رسم عام تھی اور انگریزوں نے اس کی سیکڑوں تعداد رپوٹ کیں ہیں ۔
مسلمان حکمرانوں نے اپنے دور حکومت میں اس رسم کو ختم کرنے کی کوشش کی تو ہندوؤں نے احتجاج کیا کہ یہ رسم وید کے حکم پر ہے اور اسے بند کرنا ہمارے مذہب میں دخل اندازی ہے ۔ اکبر نے اسے ختم کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا اور اس نے حکم دیا تھا کہ کسی عورت کو زبردستی ستی نہیں کیا جائے ۔
۱۸۱۹ء ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس رسم کے خلاف قانون کا اجزا کیا جس میں سختی سے اس رسم روکنے کا حکم دیا ۔ شروع میں لوگوں نے چھپ کر ستی کے کچھ واقعات ہوئے ۔ مگر برطانوی حکومت نے سختی سے اس رسم میں مددگاروں کو سخت اور کڑی پر سخت سزائیں دیں گئیں ۔ یہاں تک اس رسم کا صدباب ہوگیا ۔ لیکن انگریزی علاقوں میں یہ رسم ختم ہوگئی مگر دیسی ریاستوں میں بدستور جاری رہی ۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ۱۸۳۹ء میں ارٹھی پر اس کی ایک بیوی مہتاب دیوی اور تین لونڈیاں ستی ہوئیں تھیں ۔ مگر اس کے بعد انگریز حکومت نے دیسی ریاستوں میں بھی ستی کی رسم ختم کرنے کا حکم جاری کیا اور آخری ستی پنجاب میں ۱۸۴۵ء میں ہوئی تھی ۔ آج جب کہ ہندوؤں میں یہ رسم ختم ہوچکی ہے اور وہ اعتراف کرتے ہیں کہ یہ بہیمانہ اور وحشانہ رسم تھی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔