اگر کوئی خلائی مخلوق ہماری دنیا کا مشاہدہ اربوں برس سے کر رہی ہوتی تو پچھلے سو برس میں ہونے والی ایک تبدیلی سے خاصی حیران ہوتی۔ پہلے زمین کا ایک حصہ روشن اور ایک حصہ تاریک ہوا کرتا تھا لیکن پھر پچھلی صدی میں ایک عجیب سے تبدیلی ہوئی۔ اب رات کے وقت اس تاریک حصے میں بھی روشنیاں نظر آتی ہیں۔ یہ ہماری جلائی گئی مصنوعی روشنی ہے جو خلا میں دور تک نظر آتی ہے۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ دنیا کیسی ہے اور آبادی کے مراکز کہاں پر ہیں۔ اس حوالے سے تین دلچسپ تصاویر
پہلی تصویر پاکستان اور انڈیا کے بارڈر کی۔ اس میں لگی نارنجی لکیر پاکستان اور انڈیا کا بارڈر ہے جو ہاتھ سے نہیں بنایا گیا۔ یہ اس بارڈر پر رات کو کی جانے والی روشنی ہے۔
دوسری تصویر کوریا کے پیننسولا کی۔ 1953جاپان سے آزادی کے بعد اس کا بٹوارا ہوا اور پھر کوریا کی ڈھائی سال رہنے والی جنگ نے ان کو دو الگ ممالک میں تقسیم کر دیا۔ دونوں اطراف میں ایک ہی طرح کے لوگ، ایک ہی زبان بولنے والے، ایک ہی رہن سہن رکھنے والے، ایک ہی ثقافت، ایک جیسا معیارِ زندگی۔ اپنی تجارتی اور ٹیکنالوجی کی کمپنیوں کی وجہ سے مشہور جنوبی کوریا روشن ہے اور اپنے ہتھیاروں کی وجہ سے دنیا میں مشہور شمالی کوریا تاریک۔ صرف 65 سالوں کے بعد ان دونوں حصوں میں کس زیادہ قدر فرق ہے؟ یہ اس کا سیٹلائیٹ سے نظارہ ہے۔
تیسری تصویر مصر کی۔ اس صحرا میں تمام آبادی دریائے نیل کے کنارے ہیں۔ انسانی آبادیاں ہمیشہ سے پانی کے کناروں پر رہی
ہیں۔ یہ تصویر اس کی ایک مثال ہے۔ جہاں جہاں دریا چلتا ہے، اس کے دونوں اطراف روشنیاں ہیں اور صحرا میں پھر دور دور تک تاریکی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔