یہ تصویر دیکھ رہے ہیں؟ پرندے کی چونچ والا منہ۔ آئیے آپ کو انگلستان میں 17 ویں صدی سے ایک وبا کا مختصر حال سناتے ہیں جس کا اختتام بھی بڑے ہولناک طریقے سے ہوا۔ اور اِس دوران ایک اور واقعہ نے انسان کے مستقبل کو بدل دیا۔
ہوا کچھ یوں کہ 1660 کی دہائی کے دو برسوں میں انگلستان میں تین واقعات ہوئے تھے۔ دو واقعات لندن میں ہوئے۔ ہم پہلے واقعہ کا ذکر شروع کرتے ہیں۔
واقعہ نمبر 1:-
سَن 1665ء کے بہار اور گرما میں لندن کے ایک گرجاگھر سینٹ گائلز میں وبا پھوٹ پڑی۔ اُن دنوں لوگ بڑے ذوق و شوق سے گرجاؤں کی سروسز میں جاتے تھے۔ یوں گرجاگھروں کے ذریعے یہ وبا پھیلتی چلی گئی اور ہزاروں لوگ بڑی جلدی موت کے گھاٹ اُتر گئے۔ گلیوں شاہراہوں میں مرنے والوں کی لاشیں نظر آنے لگیں کیونکہ اُنہیں اُٹھانے والے خود بھی مرد رہے تھے۔ قبرستانوں میں اتنی جلدی کھدائی نہ ہو رہی تھی جتنی اموات ہو رہی تھیں۔ آخرکار اجتماعی قبریں بنانا پڑ گئیں۔ رفتار کچھ یوں تھی کہ مئی میں 43 اموات ہوئیں۔ جون میں 6 ہزار اموات ہوئیں۔ جولائی میں 17 ہزار۔ اگست میں 31 ہزار۔ نتیجتاً چند ماہ میں لندن کی آدھی آبادی لقمہء اجل بن گئی۔ مزید خوفناک بات یہ تھی کہ جس گھر میں مریض ہوتا، پورے گھر کو مکینوں سمیت بند کر دیا جاتا، یوں سب موت کے منہ میں چلے جاتے تھے۔
اُس وبا کو پہلے پہل Bubonic Plague کہا جاتا رہا بعد میں اُسے "کالی موت (بلیک ڈیتھ)" کا نام دے دیا گیا کیونکہ مریض کی جِلد سیاہ ہو جاتی تھی اور جسم پر بڑے بڑے زہریلے دانے ابھر آتے تھے یوں وہ جلد ہی موت کے منہ میں چلا جاتا تھا۔ وہ وبا چِین سے شروع ہو کر تجارتی راستوں کے ذریعے یورپ پہنچی تھی۔ جس قافلے میں طاعون زدہ چوہے تھے انہوں نے اہلِ قافلہ کو بھی بیمار کر دیا تھا۔ یوں انسانوں اور چوہوں کے ذریعے لندن کے انسانوں اور چوہوں میں وبا منتقل ہوتی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ زیادہ تر بڑی وبائیں چِین سے ہی شروع ہوتی تھیں۔ موجودہ دور میں وبائیں یا وائرس اب چِین کے علاوہ عرب اور افریقی ممالک میں بھی آغاز لیتے ہیں۔
کالی موت کے دوران لندن میں ڈاکٹر، نرسیں اور امراء ایک خاص قسم کا ماسک پہنتے تھے۔ یہ ماسک پرندوں کی چونچ سے مشابہ ہوتا تھا۔ اِس چونچ کے اندر گلاب کے پھول رکھے جاتے تھے کیونکہ مشہور ہو گیا تھا کہ گلاب کی خوشبو سے وبائیں دم توڑ دیتی ہیں۔ ممکن ہے آج بھی ہر مسئلے کا حل گلاب کا پھول ہو۔
کنگ چارلس دوم، شاہی خاندان، لندن سے فرار ہونے والے دوسرے امراء اور فرار ہو سکنے والے صحت مند لوگوں کے سامان میں موجود مکھیوں اور چوہوں کے ذریعے یہ وبا دوسرے شہروں میں بھی پہنچ گئی۔ بعض شہروں کی 80 فیصد آبادی موت کے منہ میں چلی گئی۔ اسی لیے وبا کے علاقوں سے لوگوں کا نکلنا باقی انسانیت کے لیے خطرناک ہوتا ہے۔ کالی موت نے مجموعی طور پر 2.5 کروڑ لوگوں کو نگل لیا تھا۔ اُس وقت یہ آبادی براعظم یورپ کی ایک تہائی آبادی تھی۔
واقعہ نمبر 2:-
لندن میں یہ ناگہانی کالی موت بے قابو ہو چکی تھی۔ اگلے برس ستمبر 1666ء میں دوسرا واقعہ شروع ہو گیا۔ اندرون شہر کی ایک بیکری میں آگ لگ گئی، یوں دیکھتے ہی دیکھتے زیادہ تر لندن کے گھر ایک ایک کر کے لپیٹ میں آنا شروع ہو گئے۔ اُس دور میں ایک تو یہ کہ گھر لکڑی کے ہوتے تھے اور پھر یہ کہ ساتھ ساتھ جُڑے ہوتے تھے۔ تیز ہواؤں سے آگ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ کر تباہی پھیلاتی رہی۔
البتہ اِس آگ سے زیادہ ہلاکتیں نہیں ہوئی۔ ہوا یوں کہ طاعون پھیلانے والے چوہے اور مکھیاں ہلاک ہو گئے اور بالآخر کالی موت خود موت کے منہ میں چلی گئی۔ لندن تباہ تو ہوا مگر اب شہر کو دوبارہ تعمیر کیا جا سکتا تھا۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ اگر گریٹ فائر اوف لندن نہ لگتی تو کالی موت پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی کیونکہ لندن سے ہی باقی دنیا کے روابط تھے۔ رفتہ رفتہ دوسرے قصبوں شہروں سے بھی وبا ختم ہو گئی۔
یہ دونوں واقعات کو بعد کے ماہرینِ فنون لطیفہ نے لکھا، مصوری کی، اور اِن پر شاعری کی۔ آج بھی رِنگ اوف روزِز نام کی ایک نظم انگلستان میں گائی جاتی ہے۔ یہ اُسی دور کے واقعات بتاتی ہے۔
واقعہ نمبر 3:-
اب ہم تیسرے واقعہ کا ذکر کرتے ہیں۔ کالی موت کے دوران ملک بھر کے سکول کالجوں اور یونیورسٹیوں میں چھٹیاں ہو گئیں اور طلباء و اساتذہ کو اُن کے گاؤں گھروں میں بھیج دیا گیا۔ کیمبرج یونیورسٹی کا ایک طالبِ علم اِسی دور میں اپنے گاؤں وولزتھورپ واپس آ گیا تاکہ اِس قرنطینہ میں حفاظت سے رہ سکے۔
وہی قرنطینہ کا زمانہ تھا جب ملک بھر میں اجتماعات اور ہجوم پر پابندی تھی اور لوگوں کو سمجھ نہ آتی تھی کہ وہ وقت کیسے گزاریں۔ وہ طالبِ علم بھی اپنی تنہائی سے سخت پریشان تھا۔ اُس کے بہن بھائی بھی نہ تھے۔ دوست یار بھی نہ ملتے تھے۔
تب اُس تنہائی کے زمانے میں ایک بارش بار دن وہ طالبِ علم اپنے گھر کے باغ میں سیب کے درخت کے نیچے بیٹھا تھا اور اُس کے سر پر یا دائیں بائیں ایک سیب گرا اور پھر اُس نے دنیا کو قوانینِ کششِ ثقل دیے۔ جی ہاں وہ آئزک نیوٹن تھا۔
اگر آئزک نیوٹن زمانہء قرنطینہ گزارنے کے لیے مری (یا میڈلاک پیک ڈسٹرکٹ) چلا جاتا تو ہم تابناک مستقبل سے محروم رہ جاتے۔ اگرچہ آئن سٹائن نے کششِ ثقل کو گہری تفصیل سے بتایا مگر آئن سٹائن ایکویشنز بھی نیوٹونیئن فزکس پر کھڑی ہیں۔ آج GPS سیٹلائٹس اگرچہ آئن سٹائن کے کلیات کے ذریعے آپ کی لوکیشن بتاتی ہیں مگر وہ سیٹلائٹس خود نیوٹن کے قوانین کے مطابق محوِ مدار ہیں۔ آج بھی زیادہ تر ٹیکنالوجی نیوٹن کے قرنطینہ کی تنہائیوں کی مرہونِ منت ہے۔ اگر آپ نے مریخ پر جانا ہے تو آپ کو نیوٹن کی فزکس چاہیے۔ صرف کمیونیکیشن کے سلسلے میں آئن سٹائن ہاتھ پکڑائے گا۔
لہذا.. حالیہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران آپ چاہیں تو گھر میں قرنطینوی تنہائی میں کوئی اہم خدمت سرانجام دے سکتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو کتب بینی یا فلم بینی کر سکتے ہیں۔ آجکل سوشل میڈیا کا دور ہے۔ میرے آرٹیکلز ہی پڑھ لیں۔ اللہ نے آپ کو موقع دیا ہے۔ اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ کوئی نہیں وقت ضائع ہوتا آپ کا۔ زندگی وقت سے زیادہ قیمتی ہے۔ کالی موت سے یقینی موت کے برعکس کرونا وائرس سے اموات زیادہ نہیں ہوں گی، تقریباً سبھی مریض خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے مگر پھر بھی احتیاط لازم ہے۔ اور ہاں، اپنے رشتے داروں کو سمجھائیں کہ آپ کو مت ملیں ورنہ اِس قرنطینہ کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔