ایک عذاب تھا جس سے یہ لوگ گزر رہے تھے۔
کچہری چوک سے ہارلے سٹریٹ جاتے ہوئے یہ مشہور اور تزک و احتشام والا تعلیمی ادارہ راستے میں پڑا۔ ایک زمانے میں وزیراعظم کی بیٹی یہاں پڑھتی تھی۔ بعد میں وہ خود بھی وزیراعظم بنی۔
ایک عذاب تھا جس سے لوگ گزر رہے تھے۔ گیٹ بند تھا۔ گیٹ کے سامنے لوگ ایک دوسرے کے یوں لگتا تھا اوپر چڑھے ہوئے تھے۔ سڑک پر ٹریفک معطل تھی۔ گاڑیاں اور موٹر سائیکل گیٹ کے اردگرد‘ نزدیک اور دور ہر طرف ہر جگہ کسی ترکیب کسی قاعدے کے بغیر پارک کیے گئے تھے۔ گیٹ کے سامنے ہجوم اس قدر تھا کہ ڈرائیور اور رشتہ دار ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے تھے کہ ان کا بچہ باہر نکلا ہے یا نہیں۔ سڑک اور گیٹ کے درمیان جو تنگ سی جگہ تھی‘ اس پر حشر برپا تھا۔ یہ حشر سڑک کے اوپر تک آ گیا تھا‘ جبھی تو ٹریفک رُک گئی تھی۔ اس عذاب میں دو فریق شامل تھے۔ ایک وہ جو گیٹ کے باہر تھا۔ اسے قاعدے قانون‘ قطار بندی‘ پارکنگ کے طور طریقے کی کچھ پروا نہ تھی۔ دوسرا فریق گیٹ کے اندر تھا۔ اُسے باہر سے کچھ غرض نہ تھی۔ پولیس یا انتظامیہ بھی ایک فریق تھی‘ لیکن غائب تھی۔ اس عذاب سے نمٹنے کے بلکہ چھٹکارا پانے کے کئی طریقے تھے اور سب آسان تھے‘ لیکن وہ طریقے سمجھانے کالم کی حدود سے فی الحال باہر ہیں۔
روحانی رہنما نے گھر میں خزانے کی اطلاع دی۔ نوجوان دو سال سے گھر میں سرنگیں کھود رہا تھا۔ اہل و عیال معاون تھے۔ ایک دن سرنگیں بیٹھ گئیں‘ طویل جدوجہد کے بعد پولیس اور اہلِ محلہ نے خزانے کے متلاشی کی لاش باہر نکالی۔
ایک اور منظرنامے میں پیر صاحب کے کہنے پر ایک نوجوان نے تین بھانجوں کو یوں ذبح کیا جیسے بکرے ذبح کیے جاتے ہیں۔ ایک بچہ بچ نکلا۔ نوجوان غائب ہو گیا ہے۔ سب کچھ تقدیر کے ذمے ڈال دیا گیا ہے۔
یہ ہے عوام کی ذہنی سطح جو اس ملک کے حکمرانوں کو راس آ رہی ہے۔ حکمران طبقے کی بقا اس میں ہے کہ یہ ذہنی سطح تبدیل نہ ہو۔ لوگ آپس میں لڑتے مرتے رہیں۔ شادیوں پر فائرنگ کر کے خوشی مناتے رہیں۔ کچہریوں میں پیشی کے موقع پر ایک دوسرے کو قتل کرتے رہیں۔ بسوں کی چھتوں پر سفر کر کے سالانہ عرسوں اور مذہبی اجتماعات میں مصروف رہیں ایسے اجتماعات جن میں حقوق کا تذکرہ ہو نہ زندگی گزارنے کے بنیادی لوازمات کا۔
عوام کی اس ذہنی سطح ہی کا کرشمہ ہے کہ کروڑوں روپے قومی خزانے کے اور اربوں روپے عوام کے کھانے والے آج بھی ڈیزائنر سوٹ پہن کر سرکاری خرچ پر ہونے والی دعوتوں میں ٹھاٹھ سے اور ٹھسے سے شریک ہیں اور قانون کسی کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ سپیکر صاحب سابق سپیکروں کا ’’گٹ ٹو گیدر‘‘ Get together منعقد کرتے ہیں اور حاجیوں کی جیبوں سے مال نکالنے والے اور ایم بی بی ایس (میاں بیوی بچے سب) کی شہرت رکھنے والے سابق حکمران یوں شریک ہوتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
عوام کی اس ذہنی سطح ہی کا شاخسانہ ہے کہ سسٹم ناپید ہے۔ نظام وجود ہی نہیں رکھتا۔ حوا کی بیٹی جہاں بھی درندگی کا شکار ہوتی ہے‘ حکمران وہاں پہنچ کر اعلان کرتے ہیں کہ ’’ظالموں اور بدمعاشوں کو ان کے انجام تک پہنچائیں گے‘‘، ’’ہمارے دور میں ایسا نہیں ہوگا‘‘، ’’اندھیرے ختم کردیں گے‘‘ اور ’’آئی جی صاحب! غریب کی عزت سے کھیلنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیں‘‘
کچھ عرصہ بعد ایک اور بیٹی جانوروں کے ہتھے چڑھتی ہے اور یہ سارے بیانات‘ یہ ساری بڑھکیں دہرائی جاتی ہیں!
تقریباً چالیس سال پہلے ایک سیاسی لیڈر نے دوسرے سے کہا تھا… ’’میرے ساتھ شامل ہو جائو‘ ہم ان لوگوں پر بیس سال حکومت کریں گے‘‘۔ چالیس سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے۔ وہ لیڈر نہ سہی‘ اس کی اولاد‘ اس کے طبقہ کے مراعات یافتہ ارکان‘ کیا لاڑکانہ سے اور کیا لاہور سے‘ کیا گجرات سے اور کیا پشاور سے اور کیا ملتان سے‘ عوام پر مسلسل حکومت کر رہے ہیں۔ سسکتے ہوئے‘ عوام۔ تار تار لباس والے عوام… لیکن حد درجہ سادہ لوح عوام اور حد سے گزری ہوئی پست ذہنی سطح رکھنے والے عوام!!
اس ذہنی سطح پر کس قسم کے لوگ حکومت کر رہے ہیں غور کیا جائے تو ہنسی آتی ہے اور رونا بھی! وزیر داخلہ کہتے ہیں فوج کے ساتھ تعلقات میں تنائو ہے‘ ختم کریں گے۔ ان کا یہ بیان پورے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر شہ سرخیوں سے نشر ہوا اور شائع کیا گیا۔ ٹھیک دو دن بعد‘ وزیر داخلہ ہی کی پارٹی کی ایک خاتون رہنما‘ الیکٹرانک میڈیا پر اعلان کرتی ہے کہ فوج اور حکومت میں کوئی تنائو نہیں‘ یہ تو صرف میڈیا نے ایشو بنایا ہے۔ میڈیا غریب کی جورو ہے۔ تھر میں کچھ نہیں ہوا‘ میڈیا نے بیکار میں شور برپا کیا۔ دہشت گردی بھی کہاں ہوئی‘ یہ تو سب میڈیا کا کیا دھرا ہے۔ مارنے والے خود اعلان کر رہے ہیں کہ بے گناہوں کو مارنا شریعت کے خلاف ہے تو میڈیا کیوں بے گناہوں کی موت کی خبریں شائع کرتا ہے؟
عوام کالانعام کی ذہنی سطح 67 سال سے یہی چلی آ رہی ہے۔ مصلحت اس میں ہے کہ یہی سطح برقرار رہے۔ اس ذہنی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے تعلیم اور صحت سے پرہیز لازم ہے۔ کالاباغ کا نواب ایک زمانے میں اپنے علاقے میں سکول نہیں بننے دیتا تھا۔ اب وہی رویہ ایک اور شکل میں موجود ہے۔ دانش سکولوں پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے لیکن لاکھوں سرکاری سکول چھتوں‘ دیواروں‘ ٹاٹوں یہاں تک کہ پڑھانے والوں کے بغیر ہیں۔ چار پانچ شہروں کی بات نہیں‘ اندرونِ ملک‘ جہاں اکثر و بیشتر مقامات پر حکمرانوں کے قدموں کے نشانات کبھی نہیں پائے جاتے‘ ہزاروں لاکھوں سکول‘ پتھر کے زمانے کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ یہی وہ فضا ہے جس میں چندوں پر چلنے والے مدرسے پھولتے پھلتے ہیں۔ رہا صحت کا شعبہ تو ملک میں ضلع اور تحصیل سطح کے ہسپتالوں کا کبھی سروے ہو تو معلوم ہو کہ یہ شفاخانے نہیں‘ مرگھٹ ہیں۔ یہ وہ مردہ خانے ہیں جہاں جراح ہیں نہ طبیب‘ جہاں روئی اور قینچی تک نہیں‘ جہاں مضروب کے زخم کی گہرائی ماپی نہیں‘ سکّوں سے تولی جاتی ہے‘ جہاں کبھی کوئی حکمران‘ کبھی کوئی سیاسی رہنما‘ کبھی کوئی پالیسی ساز علاج کے لیے نہیں جاتا نہ ہی اس کے متعلقین جاتے ہیں‘ زیادہ سے زیادہ ان ہسپتالوں میں تعینات ڈاکٹر سیاسی رہنمائوں اور حکمرانوں کے محلات میں سٹیتھو سکوپ سمیت طلب کیے جاتے ہیں۔
عباس تابش نے کہا تھا ع
سلسلہ چلتا رہے حُسن کی دلداری کا
یہ ذہنی سطح یوں ہی برقرار رہے۔ یہ وہ لاٹری ہے جو حکمرانوں کے لیے نکلتی رہے۔ بھائی‘ بیٹے‘ بیٹیاں‘ داماد‘ بھتیجے‘ سگے اور سوتیلے رشتہ دار فرماں روائی کرتے رہیں۔ یہی ذہنی سطح ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دبئی ہمارا دوسرا دارالحکومت ہے اور تیزی سے پہلے دارالحکومت کا روپ دھار رہا ہے۔ ابھی تو صرف سندھ حکومت کے عمائدین ہفتہ وار وہاں حاضر ہوتے ہیں‘ آگے آگے دیکھیے‘ کیا ہوتا ہے۔
جہاں عوام کی ذہنی سطح پست نہیں ہوتی وہاں دارالحکومت لندن ہی رہتا ہے‘ پیرس نہیں بنتا‘ اٹاوہ ہی رہتا ہے‘ نیویارک نہیں بنتا‘ کراچی ہی رہتا ہے‘ دبئی اور لندن نہیں بنتا۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔