اپنی زندگی کو انسانیت کے احترام اور بامقصد بنانے کا بھرپور عزم رکھنے والی شاعرہ ثروت مختار صاحبہ 29 اگست کو پنجاب کے ضلع بھکر میں پیدا ہوئیں۔ اصل اور قلمی نام ثروت مختار ہی ہے، اور ثروت ہی تخلص استعمال کرتی ہیں۔ آپ نے ہائی اسکول اسکندر آباد ضلع میانوالی سے میٹرک کیا۔ ائیر بیس کالج میانوالی سے ایف ایس سی کی۔ سرگودھا یونیورسٹی سے کیمسٹری میں ماسٹرز کیا اور بھکر میں درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ بھکر میں ہی رہائش پذیر ہیں۔ شاعری کا شوق آپ کو بچپن سے ہی تھا میٹرک میں پہلی نظم کہی لیکن باقاعدہ آغاز 2015 سے کیا۔ غزل اور نظم دونوں پسندیدہ اصناف ہیں۔ اور دونوں پہ عبور رکھتی ہیں۔ ابھی کوئی کتاب یا مجموعہ کلام شائع نہیں ہوا۔ البتہ کئی اخبارات اور رسائل میں آپ کا کلام چھپتا رہا ہے۔۔ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﺴﻮﺍﻧﯽ ﺍﺣﺴﺎﺳﺎﺕ ﻭ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﺟﺲ ﻓﻄﺮﯼ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻗﺎﺑﻞِ ﺩﺍﺩ ﮨﮯ۔ آپ ایک حساس اور درد مند دل رکھتی ہیں جس کا اظہار آپ کی شاعری میں بھی ہوتا ہے۔ پسندیدہ مشاغل میں شاعری کے علاوہ کتابیں پڑھنا، شاعری سننا، موسیقی اور کوکنگ میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ ان کا کہناہے کہ وہ زندگی سے ہمیشہ سچی خوشیاں اور سکون چاہتی ہیں اور زندگی کے مقاصد بہت سے ہیں جن میں سرفہرست ایک اچھا انسان بننا ہے، ایک دلی خواہش اور مقصد ہے کہ میں کچھ کام ایسے کر سکوں جو مجھے مرنے کے بعد بھی زندہ رکھیں۔
ثروت صاحبہ کے خوبصورت کلام سے کچھ انتخاب آپ کی نذر__________
مکمل سلام
سر بسجدہ جبین ، زندہ باد
کربلا کی زمین ، زندہ باد
دائم آباد خیبر و خندق
نہروان و صفین ، زندہ باد
ظلم کی انتہا پہ شکر کیا
سید الصابرین ، زندہ باد
آل_عمران ،عشق ، کرب و بلا
مالک_ یوم دین ، زندہ باد
کون دیتا ہے نوجواں بیٹا
اور وہ بھی حسین؟ زندہ باد!
کربلا کا طواف کرتے ہوئے
کہہ رہا ہے یہ دین، زندہ باد
زندہ رہتے ہوئے بھی مردہ ہیں
جو ہیں کہتے لعین ، زندہ باد
آپ، پر فخر ساری ماؤں کو
بی بی ام البنین ، زندہ باد
عشقِ شبیر ، عشقِ احمد ہے
جس کو بھی ہے یقین ، زندہ باد
ثروت مختار
________________
غزل
ہمنوائی کے دکھ ، بے نوائی کے دکھ
کیا بتائیں تمہیں دلربائی کے دکھ
خوف، ویرانیاں، تلخیاں، بے بسی
سب کے سب پیار کی ہیں کمائی کے دکھ
تم نہ جانو گے پھیکی ہتھیلی ہے کیا
تم نہ سمجھو گے سونی کلائی کے دکھ
یہ ستم ہے وہی بےوفائی کرے
جس نے جھیلے ہوں خود بے وفائی کے دکھ
گو زلیخا ہوں پھر بھی سمجھتی ہوں میں
مرے یوسف تری پارسائی کے دکھ
معجزہ ، معجزہ ، اے خدا معجزہ
مار ڈالیں گے ورنہ جدائی کے دکھ
دکھ سے ثروت ہے رشتہ مرا خون کا
لکھتی رہتی ہوں ساری خدائی کے دکھ
ثروت مختار
________________
غزل
یونہی بےکار میں ہم رو رہے ہیں
زمیں بنجر ہے فصلیں بو رہے ہیں
یقیں ہے دشت کی رونق بنیں گے
ہمارے ساتھ بھی جو جو رہے ہیں
اٹھا کر ہاتھ جس کو مانگتے تھے
اسے اپنے ہی ہاتھوں کھو رہے ہیں
ہماری آنکھ میں آنسو نہیں ہیں
مقدر کے لکھے کو دھو رہے ہیں
مری غزلیں اداسی سے بھری ہیں
مرے سب قافیے بھی رو رہے ہیں
ہم ایسے شاعروں کو کیا ملے گا ؟؟
پرایا بارررر ہے جو ڈھوو رہے ہیں
کوئی "ہونے " کی یہ تکلیف سمجھے
کسی کے ہیں ، کسی کے ہو رہے ہیں
ہے ثروت شرک ایسا سوچنا بھی
ازل سے ایک ہیں، کب "دو" رہے ہیں
ثروت مختار
________________
غزل
بہت سے لوگ فقط دیکھ بھال کرتے ہیں
ہم اپنی جان سے بڑھ کر خیال کرتے ہیں
ہے کہنا انکا کہ تم کچھ بھی تو نہیں کرتے
"جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں"
تو سوچ بھی نہیں سکتا تو سمجھے گا کیسے
اداسیوں میں جو ہم اپنا حال کرتے ہیں
ہم ایسے لوگ کہ مر جائیں خامشی سے کہیں
تم ایسے لوگ ، زمانے ملال کرتے ہیں
ہمیں زوال سے نسبت ہے اس لئے تو ہم
تمام کام ہی وقت ِ زوال کرتے ہیں
کوئی سلونی کی اب بھی صدائیں دیتا ہے
مگر یہ لوگ بھی " ویسے " سوال کرتے ہیں
ہم عشق وشق میں جاں دینے کے نہیں قائل
ہم اپنے آپکو زندہ مثال کرتے ہیں
کبھی کبھی تو ہیں انسان زندگی لگتے
کبھی کبھی تو یہ جینا محال کرتے ہیں