سارتر کا فلسفہ وجودیت
وجودیت پر لکھنے والوں کا خیال ہے کہ سارتر کے ہاں یہ اصطلاح یا فلسفہ ہیگل، ہیسرل اور ہائیڈیگر کے مطالعے سے آیا ہے۔ سارتر سے پہلے بھی یہ موجود تھا لیکن سارتر نے اسے باقاعدہ فلسفے کی شکل دی… سقراط سے پہلے تک اور سقراط کے بعد میں فلسفہ مخصوص لوگوں کی وراثت تھا۔ سقراط نے اسے بازاروں کا راستہ دکھایا لیکن فلسفہ رہا چند لوگوں کے پاس ہی۔ اسے عمومی درجہ نہ دیا گیا۔ وجودیت شاید فلسفے کی وہ پہلی اصطلاح ہے جسے گلی محلوں، ہوٹلوں اور ادب میں زیر بحث لایا گیا اور یہ سب کچھ سارتر کی بدولت ہوا۔ البرٹ کامیو سے سارتر کی دوستی تھی۔ سارتر نے 1938ء میں اپنا ناول نا سیا لکھا اور پھر کامیو سے مل کر وجودیت کے فلسفے کو ادب میں شامل کر دیا۔ ساری دنیا کے ادیب اپنے اپنے شاہکاروں میں وجودیت کی بانسری بجانے لگے، کہ انسان اس دنیا میں بیگانگی کے ماحول میں زندہ ہے۔ وہ اکیلا ہے نہ اس کا کوئی خدا ہے۔ نہ زمین اس کی دوست ہے۔ اسے اس غلاظت میں مرنے کے لیے پھینک دیا گیا ہے۔ دنیا سراسر لغو ہے۔ بے معنی ہے، لیکن اس کے باوجود انسان قطعی طور پر آزاد ہے۔ اس کا وجود اس کی ذات پر مقدم ہے۔ سارتر زندگی کو بے مقصد قرار دیتا ہے۔ اس کی نظر میں زندگی کے کوئی معنی نہیں۔ انسان اپنا خود خالق ہے اور پنے افعال اور اقدام کا خود ذمہ دار ہے۔ کسی کو اس کے کردار، اس کی منزل یا اس کی زندگی کی سمت متعین کرنے کا حق حاصل نہیں۔ سارتر کے نزدیک زندگی کا مقصد کا مل آزادی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ کرب سے آزادی حاصل کرے اور اس بات سے چھٹکارا حاصل کرے کہ وہ آزاد نہیں ہے۔ ڈاکٹر سی۔ اے۔ قادر وجودیت پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’یہ یورپ میں عالمی جنگوں سے پیدا ہوا۔ انسان درندوں اور وحشیوں کی طرح لڑا۔ ہر قدر کو ٹھکرا دیا۔ اخلاق کا پاس رہانہ مذہب کا ۔ جنگوں نے اخلاق اور مذہب دونوں کو تباہ کر دیا۔ نوجوانوں نے محسوس کیا کہ ماضی کا اخلاق ان کے مسائل کا حل نہیں اور مذہب کی طفل تسلیاں ان کی بے چینی دور نہیں کر سکتیں۔ اگر پرانی اقدار ختم ہو چکی ہیں، فلسفہ دور از قیاس باتوں کا مجموعہ بن گیا ہے تو انسانی دور کا مداوا کیا ہے؟ اس سوال کا جواب وجودیت نے دیا ہے…؟ سارتر انسان کو پرانے رواجوں او روایتوں کے بندھن سے آزاد کرانا چاہتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ وجودیت روایتی فکر کے خلاف ایک بغاوت ہے۔ سارتر نے اپنے ناول نوسیا میں ہیرو کے کردار سے اس کی وضاحت کی کوشش کی ہے، ہیرو بے معنی اور لغویت میں معنی تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اس بات پر خوش ہے کہ اس نے یہ کام خود منتخب کیا ہے اور آزادانہ طور پر کیا ہے، اس پر یہ کام تھوپا نہیں گیا۔ سارتر کے نزدیک انتخاب کرنا دراصل روایتی سوچ سے پیچھا چھڑانے کا مطلب ہے۔ سارتر اس کو کامل آزادی کا نام دیتا ہے۔ سارتر کہتا ہے: ’’مجھے دوسری جنگ عظیم کی شکست کا تجربہ جون 1940ء میں ہو گیا تھا۔ میں نے خود اس کا انتخاب کیا۔ میں یہ بات قبول کرتا ہوں کہ میں ہر بات پر عمل اور ہر شے کا جو مجھ سے وابستہ ہے اس کا میں خود ذمہ دار ہوں…‘‘
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔