(Last Updated On: )
::: قاضی عبد القادر یوں تو کئی کتابوں کے مصنف ہیں مگر ان کی انگریزی میں لکھی ھوئی کتاب “سارتر اور خدا” {SARTRE & GOD] قدرے کم معروف کتاب ھے۔ ایک سو چودہ /114 صفحات پر مشتمل یہ کتاب اصل میں فرانسیسی ادیب اور فلسفی ژان پال سارتر کی جمالیاتی وجودیت کا فکری مطالعہ ہے ۔ یہ کتاب ۱۹۷۵میں العلم ایجنسیز نے شائع کیا اور اس کے تقسیم کار لائبریری پرموشن بیورو، کراچی یونیورسٹی ہیں۔ ” سارتر اور خدا” کو نو/۹ ابواب میں تقسیم کیا گیا ھے:
۱۔ زندان میں انسان
۲۔ پہلی دیوار : آگہی
۳۔ دوسری دیوار: وجود
۴۔ تیسری دیوار: اخلاق
۵۔ سارتر اور خدا [۱]
۶۔ سارتر اور خدا [۲]
۷۔ آزادی کی قیمت
۸۔ سازشی دائرہ
۹۔ دائرے کی ٹوٹ
کتاب کے اختتام میں یادداشیتں [NOTES] اور حوالے جات بھی درج ہیں۔
۔-۔–۔–۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔
مرقع ذات : :: استاد، فلسفی، ماہر تعلیم ،محقق، نقاد، مصور، مجسمہ ساز، ڈاکٹر پروفیسر قاضی عبد القادر ( آمد: 26 اپریل 1933 ۔۔۔ رخصت 25 مئی 2016) قاضی عبد القادر مرحوم جونا گڑھ ( گجرات، بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی تعلق ہندوستان کی ریاست راجھستان کے چھوٹے سے گاؤں “کیکیڑی “سے تھا۔۔ انھوں نے کراچی اور لندن سے تعلیم حاصل کی اور جامعہ ڈھاکہ ( اب بنگلہ دیش)، جامعہ پشاور اور جامعہ کراچی (1967تا 1994) تک تدریس اور تحقیق سے منسلک رہے۔ وہ جامعہ کراچی کے شعبہ فلسفہ کے صدر نشین بھی رہے۔ وہ جامعہ کراچی کے رجسٹرار بھی رھے 1994 سے 1998 تک قاضی صاحب انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اور آرکیٹکیچر اور کراچی انسییٹیوٹ آف انفارمیشن ایند ٹیکنالوجی میں انتظامی عہدے پر فائز رھے۔ وہ 1968 میں فلاسیفکل کانفرس کے ” منطق اور مابعد ابطعیات” کے سیشن کے صدر رہے ۔ 1992 تک سائنٹفک سوسائٹی آف پاکستان کے صدر اور 1994 میں پاکستان فلاسیفکل کانگرس کے صدر بھی رہے۔ علمی، تحقیقی اور سائنسی جرائد مثلا ” جدید سائنس” ۔۔۔ ” سوسائٹی ریسرچ جرنل” ۔۔۔۔ ” پاکستان پولیٹیکل سائنس رویو” ۔۔۔ ” پاکستاں فلاسیفکل جرنل” ۔۔۔ اور ” اقبال رویو” کی ادارت میں بھی شامل رہے۔
قاضی عبد القادر نے کنگس کالج لندن سے تعلیم حاصل کی۔ “ژان پال سارتر کے اخلاقی نظریۓ” پر اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا۔ وہ لندن میں مشہور فلسفی بریڑنڈ رسل کے خطبات میں شامل رہے۔ان کی اردو ادب پر گہری نظر تھی۔ انگریزی اور فرانسیسی ادب و فلسفے کا مطالعہ بھی بہت عمیق تھا۔ وہ پائے کے مصور اور مجسمہ ساز بھی تھے۔مگر بعد میں انھوں نے مصوری اور مجسمہ سازی کو خیر باد کہ دیا تھا۔جمیل جالبی، ش۔ ضحی، ممتاز حسین، سلیم احمد، اسلم فرخی، ذہین شاہ تاجی ، فارغ بخاری، بنگلہ دیش کے انقلابی مصور زین العابدیں اور ماہرجمالیات ڈاکٹر دیوان کے قریبی دوستوں میں شامل تھے۔ (ڈاکٹر دیو کو 1971 میں پاکستانی فوجیوں نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔) قاضی صاحب کا آخری مضمون پونا ( بھارت) کے ادبی جریدے میں بعنوان ” جمالیات کی باتیں” شائع ہوا۔ ان کے کئی ادبی، تنقیدی، فنوں لطیفہ اور فلسفیانہ مقالات اردو اور انگریزی میں چھپ چکے ہیں۔ وہ سات (7) کتابوں کے مصنف ہیں۔
1۔ منطق جدید (1965)
2۔ تعلیم اورفلسفہ تعلیم (1973)
3۔ مونو گراف آف فلاسفی (1973)
4۔ سارتر اینڈ گاڈ (انگریزی ۔ 1975)
5۔ کشاف اصلاحات فلسفہ (1994)
6۔تصنیف و تحقیق کے اصول ( 1992)
7۔ وجودیت،( برگسان کی مابعد الطبیات کا تعارف ( ترجمہ۔ 1980)
انکے لکھے ہوئے مقالات ۔۔۔” تبدیل ہوتی ہوئی دنیا (انگریزی)۔ ۔۔۔”تاریخ فلسفہ” ۔۔۔ مظہریات۔۔۔۔۔ ” پاکستانیت” ۔۔۔ “ادب ، فلسفہ وجودیت”۔۔۔ ” فلسفہ ادب اور فنوں لطیفہ” ۔۔۔ “ہماری خارجی دنیا کی آگہی” ۔۔۔ بڑے معرکے کےمقالات ہیں ۔
[ احمد سہیل ]
[ احمد سہیل ]