صوبائی اسمبلی کے رکن کی کالے شیشے والی گاڑی بند کرنے پر پولیس افسر کا تبادلہ کر دیا گیا۔ سول سروس کے نوجوان اے ایس پی سید شہزاد ندیم بخاری نے اپنے تبادلے کی تصدیق کی اور بتایا کہ 27 جولائی جمعہ کے روز رکن صوبائی اسمبلی کی کرولا کار کو، جس کے شیشے کالے تھے، انہوں نے قانون کےمطابق بند کر دیا۔ اے ایس پی نے کہا کہ قانون سب کیلئے برابر ہے۔ ہمارا کام قانون پر بلاتخصیص عمل درآمد کرانا ہے اور اسی بات کا ہم نے حلف اٹھایا ہے۔ اگر کسی کو کوئی استثنیٰ دینا ہے تو اس کےلئے قانون میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اے ایس پی شہزاد کا تبادلہ آئی جی پولیس پنجاب نے پہلے نولکھا سرکل لاہور کیا اور بعد میں اسے منسوخ کر کے جنڈ سرکل ضلع اٹک میں تعینات کیا گیا۔
یہ خبر چار دن پہلے تقریباً تمام اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے سیاستدان، جن کی عمریں دشت سیاست میں سفر کرتے، خیمے گاڑتے اور طنابیں اکھاڑتے گزری ہیں، جب حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ عمران خان میں آخر نوجوانوں نے کیا دیکھا ہے تو ان کا مائنڈ سیٹ انہیں زمینی حقائق دیکھنے ہی نہیں دیتا۔ یہ صرف ایک خبر ہے لیکن اس سے اس سرطان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے جو ہر طرف پھیل چکا ہے اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اس سرطان کو ہرلمحہ زیادہ پھیلا رہی ہے۔
خدائے بزرگ و برتر کی قسم! اس کالم نگار نے عمران خان سے کچھ لینا ہے نہ مسلم لیگ سے اور نہ پیپلز پارٹی سے۔ ہم جیسے طالب علموں کو سوائے اسکے کہ دھوپ کھلی چھوڑ دیں، یہ بیچارے اور دے بھی کیا سکتے ہیں! طارق نعیم کا شعر یاد آ گیا ….
یوں ہی تو کنج قناعت میں نہیں بیٹھا ہوں
خسروی، شاہ جہانی، مِری دیکھی ہوئی ہے
عمران خان کی سینکڑوں کنال پر محیط رہائش گاہ کا مسئلہ سب سے پہلے اس کالم نگار ہی نے اٹھایا تھا۔ بخدا لوگ اس وقت پوچھتے تھے کہ یہ مکان کہاں ہے؟ آج بھی یہ کالم نگار برملا کہہ رہا ہے کہ شاہ محمود قریشی جیسے پشتینی جاگیردار اور آصف احمد علی، خورشید محمود قصوری اور سرور خان جیسے سیاسی خانہ بدوش عمران خان کیلئے گھاٹے کا سودا ہیں۔ پارٹیاں نووارد گلوکاروں کو عہدے دینے سے نہیں بلکہ ورکرز کو ان کا مقام دینے سے مضبوط ہوتی ہیں لیکن اس سب کچھ کے باوجود اس حقیقت کا کیا علاج کہ عمران خان کو ابھی تک حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا اور یہی حقیقت اسکی سب سے بڑی مددگار ہے۔ آخر اسے کیوں نہ آزما لیا جائے؟ کیا خبر وہ اس طبقے سے نجات دلا دے جو تعداد میں تین چار ہزار سے زیادہ نہیں لیکن سراسر سرطان ہے! آخر اسکے والد صاحب شوکت خانم ہسپتال میں دوسرے مریضوں کےساتھ قطار میں کھڑے رہے! بس یہی وہ حقیقت ہے جو مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے شاہانہ دماغوں کو نظر نہیں آ رہی! جہاں دیدہ ہونا اور شے ہے لیکن ضعف بصارت آخر تجربہ کار عقل مندوں ہی کو تو لاحق ہوتا ہے!
کیا کیا امیدیں تھیں متوسط طبقے کو مسلم لیگ ن سے! 2008ءکے الیکشن کے روز وہ لوگ بھی گھروں سے نکلے تھے جنہوں نے کبھی کسی کو ووٹ نہیں دیا تھا۔ انکی زبانوں پر ایک ہی فقرہ تھا ”مسلم لیگ نون…. وہی عدلیہ کو بچا سکتی ہے!“ پھر اس جماعت کو پنجاب کی حکومت ملی جو بہت بڑی کامیابی تھی اور کیوں نہ ہوتی‘ آخر پنجاب ساٹھ ستر فیصد پاکستان ہی تو ہے لیکن آج چار سال بعد۔۔۔ کوئے مانے نہ مانے۔۔۔۔ عام پاکستانی اس المیے سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا کہ مسلم لیگ نون مراعات یافتہ طبقے سے نہ صرف یہ کہ جان نہیں چھڑا سکی بلکہ مراعات یافتہ طبقے کا دست و بازو بن کر رہ گئی ہے۔
وسطی پنجاب کے چند علاقوں کو چھوڑ کر پنجاب مسلم لیگ (ن) سے مایوس نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ نون کا پنجاب فیصل آباد سے شروع ہوتا ہے۔ اور رائے ونڈ میں شان دکھاتا، لاہور سے گذرتا، گوجرانوالہ میں پڑائو کرتا سیالکوٹ پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے۔ حقیقت اس سے ایک ذرہ زیادہ ہے نہ کم! مانا کہ سردار دوست محمد کھوسہ نے جو کچھ کہا ہے، ذاتی وجوہات سے کہا ہے اور وہ تو خود اس بندوبست کا حصہ رہا ہے لیکن خدا کے بندو! اس نے جو کہا اس پر غور تو کر لو۔ عربی کا معروف مقولہ ہے ” اُنظر الیٰ ما قال ولا تَنظُر الیٰ من قال“۔ (یہ دیکھو کہ کہا کیا ہے۔ یہ نہ دیکھو کہ کہنے والا کون ہے؟)
کھوسہ جب کہتا ہے کہ بیس و زارتیں فردِواحد کے پاس اور یہ کہ بیورو کریسی نے حشر برپا کر رکھا ہے تو کیا یہ سچ ہے یا نہیں ؟ کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ صوبے کے سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ اس قبیل کے مشیر اگر مخلص ہوتے تو نواز شریف پرویز مشرف کو آرمی چیف بناتے نہ ضیا ءالدین بٹ کو اس کا جانشین مقرر کرتے۔ جیو کے معروف پروگرام "" جواب دہ"" میں صاف بتایا گیا ہے کہ نواز شریف نے برملا کہا تھا کہ "" میں نے پرویز مشرف کو فلاں کے کہنے پر ہٹایا ہے"۔ ایک عام پڑھے لکھے شخص کو بھی معلوم ہے کہ فوج کا سربراہ اُن شعبوں سے چُنا جاتا ہے جو جنگ کے براہ راست ذمہ دار ہوتے ہیں۔ جیسے توپ خانہ۔ انفینٹری۔ آرمرڈ کور اور ائر ڈیفنس۔ لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر کے سب سے بڑے افسر کو یہ معلوم نہ تھا۔
پھر یہ کہنا کہ جب ضیا ءالدین بٹ کو آرمی چیف بنایا گیا تو انہوں نے "" سارے کور مکانڈروں کو کال کیا ، میری موجودگی میں،اور وہ آگے سے مبارک بادیں دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ سر مبارک ہو ، ہم پھر کب آئیں مبارک باد دینے کو " تو آخر اس دعوے کا کیا ثبوت ہے؟ ٹیلی فون تو جنرل بٹ کے کان کے ساتھ لگا تھا۔ دوسرے شخص نے یہ بات کیسے سن لی؟ اور کیا جنرل بٹ نے کبھی خود بھی یہ بات بتائی ہے؟
مسلم لیگ نون نے صوبے کے دوسرے حصّوں کے ساتھ منصفانہ سلوک نہیں کیا۔ ۔ حکومت چلانا بلہے شاہ کی شاعری نہیں کہ ایک اور صرف ایک ہی شہر کے بوہے باریاں گنی جاتی رہیں ۔ پنجاب حکومت کا یہی وہ رویّہ ہے جس کی وجہ سے پنجاب میں صرف سرائیکی صوبہ نہیں اور بھی صوبے بنیں گے۔رہے مسلم لیگ نون سے وابستہ عوامی نمائندے تو وہ بیچارے تو اپنی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اٹک کے ایم این اے شیخ آفتاب احمد کو ضرور معلوم ہوتا کہ ان کے ضلع کے کس حصے میں کونسا منصوبہ چار سال کے دوران سورج کی روشنی نہ دیکھ سکا اور اس کی وجہ کیا ہے؟
شفیق الرحمن نے لکھا ہے کہ بچے نے ماں کو بتایا کہ میں نے صحن میں خرگوش دیکھا ہے۔ ماں نے کہا کہ ننھے! یہ تمہارا وہم ہے۔ ننھے نے پلٹ کر پوچھا کہ کیا وہم سفید رنگ کا ہوتا ہے اور کیا اسکے چار پاﺅں ہوتے ہیں؟ تو حضور نفاق وہم نہیں! نہ ایسا جانور ہے جس کے چار پاﺅں ہوتے ہیں۔ نفاق یہی تو ہے کہ باتیں رات دن خونی انقلاب کی کی جائیں لیکن مراعات یافتہ طبقے کی گرفت اتنی مضبوط کر دی جائے کہ قانون کی برتری کےلئے کام کرنےوالے پولیس افسر کو پہلے لاہور اور پھر فوراً دوسرا حکم جاری کر کے صوبے کے دور افتادہ ترین گوشے میں پھینک دیا جائے تاکہ منتخب نمائندوں پر قانون نافذ کرنے کا آئندہ کوئی سوچ بھی نہ سکے۔
اور صرف مسلم لیگ (ن) ہی کے عوامی نمائندوں کا کیوں ذکر ہو، عوامی نمائندے جس جماعت کے بھی ہیں، قانون شکنی کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہ عوام کے وہ نمائندے ہیں جو عوام میں سے نہیں! یہ پیران تسمہ پا کا وہ گروہ ہے جو قوم کی گردنوں پر سوار ہے! حدیقہ کیانی نے پشتو میں ایک دلآویز گیت گایا ہے جس کے بول ہیں جاناں جاناں جاناں۔ ایک مغنی بادلوں سے پرے بیٹھا ایک اور گیت گا رہا ہے جس کے بول ہیں سرطان، سرطان، سرطان!