سرمد صہبائی کے لیے ایک پرانا خط
(جو نعیم بخاری کے ذریعے بھیجا گیا تھا)
نوٹ:۶؍جولائی۲۰۱۷ء کو واٹس ایپ کے حلقہ علم و ادب میں محمدقاسم بگھیو صاحب چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ایک رپورٹ ریلیز ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ اکادمی نے سرمد صہبائی کے ساتھ ’’اہلِ قلم سے ملیے‘‘کے تحت ایک تقریب کا اہتمام کیاہے۔اس کی روداد پڑھ کر میں نے واٹس ایپ کے حلقہ پر ان الفاظ میں اپنے تاثرات لکھے۔
’’اکادمی ادبیات کی طرف سے سرمد صہبائی کے ساتھ ملاقات کا اہتمام کیا گیا ہے۔اس کا احوال پڑھ کرمجھے اپنا ۹؍نومبر۲۰۱۴ء کا لکھا ہوا ایک پرانا خط یاد آگیا۔یہ خط نعیم بخاری کے نام لکھا گیا تھا۔وہ تب ڈان نیوز میں پروگرام کیا کرتے تھے۔اس خط میں اس پروگرام کا ذکر ہے جس میں سرمد صہبائی مدعو تھے۔اس مکالمہ کے مندرجات کے حوالے سے خط میں بات کی گئی تھی۔میں نے ڈان نیوز کی معرفت نعیم بخاری کو میل بھیجی تھی۔علم نہیں کہ یہ خط ان تک پہنچا یا نہیں؟اور پھر سرمد صہبائی تک پہنچا یا نہیں؟
اب جو تقریب ہوئی ہے تو جی چاہا کہ وہی خط اس گروپ کے توسط سے سرمد صہبائی کے لیے بھیج دوں۔سو پی ڈی ایف فایل میں وہ پرانا خط بھیج رہا ہوں۔اللہ کا کوئی بندہ یا بندی ان تک پہنچا دے تو ۲۰۱۴ء کی لکھی ہوئی یہ ای میل ان کے علم میں آجائے گی۔یوں بھی یہ خط اس مکالمہ کے پس منظر میں لکھا گیا تھا اور اسے نعیم بخاری اور سرمد صہبائی زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔یا پھر وہ احباب جنہوں نے وہ پروگرام دیکھ رہا ہو۔تاہم دوسرے احباب بھی کسی نہ کسی سطح پر زیر گفتگو موضوعات پر مزید گفتگو کی راہ کھول سکتے ہیں۔بہر حال یہ میری طرف سے اکادمی کی مذکورہ تقریب میں بالواسطہ طور پر شرکت کا ایک بہانہ بھی ہے۔(حیدر قریشی)‘‘
اس پر چیئرمین اکادمی نے لکھا: ’’قریشی صاحب ! آپ کا خط سرمدتک پہنچایا گیا۔شکریہ۔‘‘
اب اس خط کو شائع کرنے لگا ہوں تو انٹرنیٹ پر اس انٹرویو کو ڈھونڈا ہے۔یہ دو لنک آسانی سے مل گئے ہیں۔دلچسپی رکھنے والے احباب اس انٹرویو کو سننا چاہیں تو سن سکتے ہیں۔اس طرح میرے خط کے مندرجات زیادہ بہتر طور پر سمجھے جا سکیں گے۔(ح۔ق)
https://www.youtube.com/watch?v=8VMHoUTOC5s
http://www.unewstv.com/30353/naeem-bokhari-ke-saath-sarmad-sehbai-1st-november-2014
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترمی نعیم بخاری صاحب
سلام مسنون
آپ کو ۲۵ ؍اکتوبر(۲۰۱۴ء) کو ایک ای میل کے ذریعے خط بھیجا تھا،معلوم نہیں آپ کو ملا بھی یا نہیں؟
تب سے آپ کا پروگرام دیکھ رہا ہوں۔مختلف النوع شخصیات کے ساتھ گپ شپ کا سلسلہ اچھا جا رہا ہے۔یکم نومبر کوسرمد صہبائی کے ساتھ آپ کا پروگرام بہت توجہ سے سنا تھا۔تب کچھ لکھنا چاہتا تھا لیکن بعض مصروفیات کے باعث تاخیر ہوتی گئی۔اب ذہن میں جو تاثررہ گیا ہے،اسی کی بنیاد پر چند باتیں شئیر کرنا چاہتا ہوں۔انہیں سرمد صہبائی تک بھی پہنچا سکیں تو خوشی ہو گی۔
سرمد صاحب میڈیاسے وابستگی کے باعث ادب اور شاعری کو براہ راست زیادہ ٹائم نہیں دے سکے،تاہم یہ بھی غنیمت ہے کہ وہ میڈیاکر شاعر نہیں بنے۔آپ نے ان کے تعارف میں ڈاکو اور ہلاکو والی نظم کے جو حبیب جالب اسٹائل کے شعر سنائے تھے، اس ابتدا اور پی ٹی وی میں ملازمت کے باعث زیادہ امکان تھا کہ وہ بھی ۳۰؍۳۵ مجموعوں کے شاعر بن جاتے۔ویسے ادب میں معیار کی اہمیت کے ساتھ مقدار کی اہمیت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔غالبؔ کے ہاں مقدار نہیں صرف معیارہے۔میر تقی کے ہاں معیار بھی ہے،مقدار بھی ہے،اور معیار سے قدرے کم ہوتی ہوئی شاعری بھی ہے۔سو اگر کوئی اچھا شاعر ایک مجموعہ کا خالق ہو یا ۳۰ مجموعوں کااگر وہ اچھا شاعر ہے تو اچھا ہے۔اسی طرح اگر کوئی میڈیاکر شاعر صرف ایک مجموعے کا خالق ہو تووہ ایک مجموعہ بھی کم تر درجہ کا رہے گا۔سو کم مجموعوں اور زیادہ مجموعوں کو معیار کی بنیاد بنانے کا تاثر نہ دیا جائے تو اچھا ہے۔
آمد اور آورد کے فرق کو بیان کرتے ہوئے سر مد صاحب نے عمدہ خیالات کا اظہار کیا ہے۔وہیں سے قادرالکلامی اور عبدالکلامی تک کی دلچسپ مثالیں دی ہیں،نادرالکلامی کا نکتہ بھی عمدگی سے ابھارا ہے،سب اچھا لگا۔تاہم اس سے پہلے شاعری کے تخلیقی عمل کی وضاحت میں غالب اور میر کی مثالیں دینے کے باوجودوہ اپنے شعری تجربے کے حوالے سے کچھ بتا سکتے تو دلچسپی کا باعث ہوتا۔تخلیقی عمل میں مطمئن ہوجانا یقیناََ امکانات کے ختم ہوجانے کی نشانی ہے لیکن محض Rest less رہنا بھی اچھا نہیں لگتا۔تخلیقی عمل کا اضطراب تو ہوتا ہے لیکن تخلیقی عمل مکمل ہونے کے بعد آسودگی کا ایک احساس ضرور ہوتا ہے،بالکل ویسے ہی جیسے بچے کی پیدائش کے بعد،بچے کا ’’چاند سا چہرہ‘‘دیکھ کر ہر ماں سکھ کا سانس لیتی ہے۔
سرمد صاحب کا بیان کردہ فن اور خود کلامی کا نکتہ بہت عمدہ لگا ۔فن کی سماجی حوالے سے اہمیت کو بھی انہوں نے عمدگی سے رد کیا ہے۔مجھے ایک مثال ہمیشہ یاد آتی ہے کہ ہوا میں آکسیجن موجود ہے۔یہ زندگی کے لیے ناگزیرہے۔اب ہوا کی یہ ڈیوٹی نہیں ہے کہ وہ انسانوں کو آکسیجن فراہم کرے۔تاہم اگر از خود یہ کام بھی ہوا جا رہا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔سو اچھا اور سچا تخلیق کار اپنے تخلیقی کام میں مگن ہے۔اگر سماج بھی اس سے کچھ استفادہ کر لیتا ہے تو اچھی بات ہے۔
ناستلجیائی مسئلہ پر ان کی بنیادی باتیں اچھی لگیں،اپنے طور پر آسان لفظوں میں یوں سمجھا ہوں کہ ماضی کی یادوں سے ایک حد تک وابستگی انسانی فطرت کا حصہ ہے،تاہم ماضی سے چمٹ کر حال اور مستقبل سے بے تعلق ہوجانا بھی مثبت رویہ نہیں ہے۔اس سلسلہ میں ان کا یہ نکتہ اہم ہے کہ جو لوگ نئی تبدیلیوں سے بے خبریا بے تعلق ہیں،وہ بھی ماضی میں پناہ لیے رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔انہوں نے تازہ ترین فکری رویے پوسٹ ماڈرن ازم کا ذکر بھی کیا ہے۔لیکن اب تو مغرب سے پوسٹ کالونئیل تحریک اردو میں رواں دواں ہے۔پوسٹ ماڈرن ازم بھی آؤٹ آف ڈیٹ ہو گئی ہے۔جس طرح نئی ایجادات اور نئے ڈیزائنز سال دو سال میں سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیتے ہیں،ویسے مغربی یونیورسٹیوں سے نئے افکار بھی پانچ سے دس سال کے وقفہ کے ساتھ آنے لگے ہیں۔پوسٹ ماڈرن ازم کااردو میں تو اچھا خاصا پوسٹ مارٹم ہو گیا ہے۔اس موضوع پر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کا سارا کام سرقہ کے مستند الزام کے نیچے آیا ہوا ہے۔
http://my27books.blogspot.de/2014/04/blog-post_78.html
مغربی دنیا کی حالیہ ترقیات اور حیرت انگیز ترقیات سے انکار کرنا ممکن نہیں،لیکن فکری ارتقاء کا عمل صدیوں کے سفرپر محیط ہے اور دائرہ در دائرہ ہے۔اس معاملہ میں دانشِ مشرق(محض مسلم اسکالرزکی فکر نہیں بلکہ سارے مشرقی معاشروں کی فکر)کا بھی اپنا ایک کردار ہے۔مجھے تودانشِ مغرب کا پوسٹ ماڈرن ازم بھی دانشِ مشرق میں حسن بن صباح کی فکری توسیع دکھائی دیتا ہے۔اس حوالے سے اپنا ایک اداریہ آپ کے لیے اس خط کے آخر میں دے دوں گا،خط پڑھنے کے بعد ہمت رہ گئی تو اسے ایک نظر دیکھ لیجیے گا،ورنہ اداریہ کی قسمت!
لاہوری تھیٹر اورسیٹلائٹ بھانڈدوں کے ذکر میں آپ نے ان کی بے پناہ مقبولیت کا ذکر کیا ہے جو بالکل بجا ہے لیکن ان کے منفی اثرات پر توجہ نہیں دی۔تھیٹر سے سیٹلائٹ تک یہ سارا تماشا ہمارے تہذیبی زوال کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے۔اس حوالے سے زیادہ بات کیے بغیر رونالڈ ناکس کے ایک جملہ پر اکتفا کرتا ہوں۔
’’مزاح نگار خرگوش کے ساتھ بھاگتا ہے لیکن طنز نگار کتوں کے ساتھ شکار کھیلتا ہے‘‘
اب آپ تھیٹر سے سیٹلائٹ تک پروگراموں میں مزاح اور طنز کی مقداراور معیار کا خود ہی اندازہ کریں اور پھر غور کریں کہ ہم تہذیبی زوال کے کس مقام تک پہنچ گئے ہیں۔
آپ کے باقی پروگراموں پر رائے لکھنے بیٹھا تو مزید اتنے طویل خطوط لکھے جائیں گے،آپ مفت میں انہیں پڑھنے کی اذیت سے گزریں گے(لیکن پہلے کنفرم تو ہو کہ آپ اس اذیت سے گزر بھی رہے ہیں یا نہیں؟)سو ایک پروگرام پر ہی بات ختم کرتا ہوں۔
والسلام
آپ کا مخلص
حیدر قریشی
۹؍نومبر ۲۰۱۴ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانش ِمشرق و مغرب
فی زمانہ اہل ِمغرب کی علمی و سائنسی ترقیات میں مسلسل پیش رفت بلاشبہ ہم اہلِ مشرق کے علمی و سائنسی افلاس کی نشاندہی کرتی ہے۔اس فکری افلاس کے اثرات کو ہمارے ہر شعبہ ہائے حیات میں دیکھا جا سکتا ہے۔تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دانشِ مشرق کا ماضی کا سرمایہ اتنا قیمتی ہے کہ اہلِ مغرب آج بھی اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ادب کی تازہ ترین مابعد جدیدیت کی بحث کے سرخیل Jacques Derrida کے بنیادی فکری ماخذ تک رسائی کے لیے تھوڑی سی کاوش پیش خدمت ہے۔
دریدا کی پیدائش۱۵جولائی ۱۹۳۰ء کو فرانسیسی مقبوضہ الجیریا کے شہر’’ ال بیار‘‘ میں ہوئی تھی۔وہ وہیں پلا بڑھا۔اپنے بچپن میں اسے اس وقت سخت ذہنی صدمہ پہنچا جب فرانسیسی حکومت کے ایک یہودی مخالف قانون کے مطابق اسے سیکنڈری ایجوکیشن کے دوران اسکول سے خارج کر دیا گیا۔مذکورہ قانون کے مطابق ایک خاص تعداد سے زیادہ یہودی بچوں کو داخلہ نہیں دیا جاتا تھا۔دریدا اس قانون کا شکار ہوااور یہ نفرت انگیز سانحہ اس کے ذہن میں بیٹھ گیا جو آگے چل کر اس کی فکر ی اساس بنا۔الجیریا کے ماحول میں اسے حسن بن صباح کی فکر سے شناسائی ہوئی اور وہی کسی نہ کسی طور مابعد جدید فکر کی بنیاد بن گئی۔حسن بن صباح کے بارے میں افسانوی طور پر بھی اور تاریخی طور بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔حسن بن صباح سے پہلے فاطمی عقائد میں یہ بات موجود تھی کہ وحی کا حقیقی مفہوم اور تاویل صرف امام جانتا ہے۔یہ لایمسہ الاالمطہرون کی ایک انداز میں تفسیر تھی۔حسن بن صباح نے اسی لطیف نکتہ کو ارزاں کر دیا۔ان کے نزدیک تنزیل سے زیادہ تاویل کی اہمیت ہے(مابعد جدیدیت متن اورمصنف کے مقابلہ میں قاری کی قرات اور تفہیم کو ساری اہمیت دے کر اسی نکتہ کو اجاگر کر رہی ہے)۔حسن بن صباح نے شراب ،زنا اور دیگر مناہیات وغیرہا کومقامات اور صورت حال کے مطابق کہیں حلال اور کہیں حرام قرار دیا (مابعد جدیدیت نے اسی نکتہ کو معنی ہمہ وقت ملتوی ہوتے رہنے سے تعبیر کیا ہے)۔
اگر حسن بن صباح کی ’’المتونت‘‘ کا متن کہیں سے دستیاب ہو جائے تو دانشِ مشرق سے استفادہ کرنے والے دریدا جیسے مغربی مفکرین کے فکری ماخذ کو مزید بہتر طور پر اجاگر کیا جا سکتا ہے۔میں نے یہاں حسن بن صباح کے معتقدات کو موضوع نہیں بنایا،بلکہ صرف اتنا احساس دلانا مقصود تھا کہ علمی و فکری لہروں کا سفرمشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق کی طرف صدیوں سے جاری وساری ہے اور صدیوں کی بے شمار لہروں میں سے یہ صرف ایک لہر کی نشاندہی تھی۔ مغرب سے اندھادھند(بلا حوالہ و با حوالہ)استفادہ کرنے والے ہمارے اردو دانشوروں کے لیے اس نشاندہی میں غور کا بہت ساسامان موجود ہے جو ہمیں درآمد کی گئی مشرقی شعریات کی بجائے ہماری اصل مشرقی شعریات کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے۔
’’گفتگو‘‘(اداریہ)جدید ادب۔جرمنی ۔شمارہ نمبر ۱۴۔جنوری تا جون ۲۰۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“