سرما کی بارش بڑی وضع دار ہوا کرتی ہے۔ اس کی اداؤں میں کبھی سبک خرام دوشیزہ کی جھلک دکھائی دیتی ہے تو کبھی دھیرے دھیرے قدم بڑھانے والے ضعیف العمر بزرگ کی۔سردیوں کی بارش کا اصل حسن رات کے وقت نکھرتا ہے۔ بارش کی جلترنگ سرد رات کے اسرار میں ڈوب کر ایک عجب خاموش لے میں ایسی لوری گنگناتی ہے کہ دنیا آن کی آن میں نیند کی گہری وادیوں میں اُتر جاتی ہے۔ اس طلسماتی موسم میں دس دس گھنٹے نیند کرنے کے بعد بھی بستر سے نکلنے کو دل نہیں کرتا۔
سرما کی بارش کا منظر ہر جا منفرد ہوتا ہے۔ بازاروں میں عمومی طور پر رش کم ہو جاتا ہے۔ معمول کی رونق ماند پڑ جاتی ہے۔ کاروبار مندے کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ مندہ بہتر فصلوں کی آس دکھا کر سب کی ڈھارس بندھاتا ہے۔ کچھ دوکانوں کا مال تو اس جاڑے میں خوب بکتا ہے۔ یہ دوکاندار تو شاید سال بھر اس ٹھنڈی بارش کا انتظار ہی کرتے رہتے ہیں۔ ان دوکانداروں میں سر فہرست خشک پھل اور پکوڑوں سموسوں کی فروخت کرنے والے ہوتے ہیں۔ چکن،مچھلی، حلوے مٹھائی، گرم لباس اور کوئلے بیچنے والے پورا دن نوٹ چھاپتے رہتے ہیں۔ پینجوں پر روئی کپاس کی دھنائی اور بنائی کرنے والوں کا کام بھی تیز ہو جاتاہے۔ چائے کی دوکانوں اور کنٹینوں پر بھی دن بھر اور رات گئے تک خوشبوؤں کا کاروبار چلتا رہتاہے۔
کچھ لوگ یہ دن سو کر گزارنے کے خواہاں ہوتے ہیں تو کچھ کتب بینی کرکے۔ کچھ برستی بارشوں کے دوران کوئلوں کی انگیٹھی تاپنا پسند کرتے ہیں اور تو کچھ موٹے موٹے کھیس اوڑھے دن بھر اکڑوں بیٹھ کر الوؤں کی طرح اِدھر اُدھر دیدے گھماتے رہتے ہیں۔ ہر گھرانہ مقدور بھر اس رومانوی موسم سے محظوظ ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ پکی سڑکوں والے شہروں کے کھاتے پیتے لوگ لانگ ڈرائیو کے مزے لیتے ہیں۔نامراد عاشق اور دل جلے ٹھرکی رم جھم پڑتی برفیلی بارش کے دوران تصورِ جاناں میں کھو جاتے ہیں۔ایسے موسم میں ایسے شعر اکثر گنگناتے رہنا ان لوگوں کو بہت بھاتا ہے
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے۔۔۔۔۔
جھڑیوں میں گھروں میں پکنے والے کھانے بھی کافی حد تک تبدیل ہو جاتے ہیں۔چائے کے لیئے تو یہ موسم انتہائی سہانا گردانا جاتا ہے۔ پورا دن دہکتی ہوئی آگ پر اکثر گھروں میں حلوے، پکوڑے، کباب اور گرما گرم بھاپ اُڑاتے پراٹھوں سے اس گیلے موسم کا لطف دوبالا کیا جاتا ہے۔ شبانہ محفلیں چاہے گاؤں کے کچے لیکن کشادہ باورچی خوانوں کی ہوں یا شہروں کے ہیٹروں سے گرم چھوٹے چھوٹے کمروں کی ان میں مونگ پھلی ایک جزوِ لانیفک سمجھی جاتی ہے۔
مفلس اور غریب لوگوں کے لیئے سرما کی بارش بھی دوسرے موسموں کی طرح بھاری ہوتی ہے۔مرزا غالب نے کہا تھا کہ بارش ایک گھنٹہ برسے تو میری چھت دس گھنٹے برستی ہے۔ یہ قول دیہاتوں میں آج کے ترقی یافتہ زمانے میں بھی سچ معلوم ہوتا ہے جہاں گاؤں کےغریب غربا اپنا مال مویشی بارش سے بچانے کے لیئے برستی بارشوں میں چھتوں کو ڈھانپتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان لوگوں کی گلیاں، کچے صحن اور واش روم ناقابلِ استعمال ہو جاتے ہیں۔ تازہ روزی کمانے والے صبح اٹھتے ہی پہلی نگاہ آسمان پر ڈالتے ہیں۔ بادلوں میں چھپا آسمان اور گیلا موسم ان کی امیدوں کو ایک دن کے لیئے اور ٹھنڈا کر دیتا ہے۔