سڑیل لوگوں کی نشانیاں
سڑیل کون ہوتا ہے؟ وہی جو قہقہوں بھری محفل میں بھی اچانک اٹھ کر کہہ دیتاہے’’معاف کیجئے! زیادہ ہنسنا منافقت کی نشانی ہے‘‘ یقیناًاس جملے کے بعد نہ ہنسنے کا جواز باقی رہتا ہے نہ محفل کا۔ سڑیل لوگ خداداد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں ‘ یہ وہ ہینڈ گرنیڈ ہوتے ہیں جو کھلی پن کے ساتھ جہاں جاتے ہیں بربادی پھیلاآتے ہیں۔ایسے مہلک لوگوں کی پہچان کے لیے نشانیاں حاضر ہیں‘ آپ اسے ایک پبلک سروس میسج سمجھ لیجئے۔۔۔!!
سڑیل لوگوں سے سلام لیا جائے تو آگے سے گھور کر دیکھتے ہیں۔ حال چال پوچھا جائے تو صرف’ہوں‘ میں جواب دیتے ہیں۔یہ گاڑی چلا رہے ہوں تو اِردگر د کی ٹریفک پر مسلسل تبرا کرتے رہتے ہیں۔ان کے آگے سے کوئی موٹر سائیکل والا گذر جائے تو ڈیڑھ دو سو گالیوں سے سواگت کرتے ہیں۔یہ جنازے میں بھی شریک ہوں تووہاں بھی جھگڑے کا کوئی موقع نکال لیتے ہیں۔شادی کی تقریب میں یہ سب سے الگ تھلگ منہ پھلائے بیٹھے رہتے ہیں۔یہ اپنے آپ کو خود ہی بے باک اور دو ٹوک کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ان کا دعویٰ ہوتاہے کہ ان سے کبھی کوئی غلط بات برداشت نہیں ہوتی حالانکہ اکثر غلط بات کا آغاز ہی انہی سے ہوتاہے۔اِن سے کبھی کسی کی خوشی برداشت نہیں ہوتی۔ یہ بیگم سے لڑنے کے موڈ میں ہوں اور کوئی وجہ نہ مل رہی ہو تو اکثر اس بات پر فساد کھڑا کرلیتے ہیں کہ بارشیں کیوں نہیں ہورہیں؟ یہ شاپنگ بھی کر رہے ہوں تو لگتا ہے جنگ لڑ رہے ہیں۔ دوکانداروں سے بلاوجہ الجھنا بھی ان پر ختم ہے ‘ کئی دفعہ تو اس بات پر طوفان اُٹھا لیتے ہیں کہ مالٹے پر ایکسپائری ڈیٹ کیوں نہیں لکھی ہوئی؟
ان کے سڑیل پن کا سب سے زیادہ نشانہ اِن کے سسرال والے بنتے ہیں‘ وہاں اگر اِنہیں یہ خوشخبری سننے کو ملے کہ سالے نے نئی موٹر سائیکل خریدی ہے تو اِن کا غصہ دیکھنے والا ہوتاہے‘ موٹرسائیکل کی خطرناکی پر لیکچر دیتے ہوئے اعلان کردیتے ہیں کہ بس اب کچھ دنوں میں لاش آیا ہی چاہتی ہے۔یہ کسی خاتون سے بات کر رہے ہوں تو سب سے پہلے اُسے باور کراتے ہیں کہ اِن کے علاوہ سارے مرد بھیڑیے ہیں۔محبت کے معاملے میں بھی ان کی طبیعت جلالی رہتی ہے‘ محبوبہ دن میں دو دفعہ فون کرے تو چیخنے لگتے ہیں کہ تیسری دفعہ کیوں نہیں کیا‘ اور اگرتین دفعہ فون آنے لگے تو دانت پیستے ہیں کہ ایسی کیا مصیت آگئی ہے ۔بیوی کو دیکھتے ہی ان کی بیزاری بڑھ جاتی ہے۔ بیوی کے ہر کام میں کیڑے نکالتے ہیں اور اگر نہ نکال سکیں تو کیڑے ڈال دیتے ہیں۔بچے بھی اِن سے سہمے سہمے رہتے ہیں‘ کوئی بچہ اگر پیار سے کہہ بیٹھے کہ ’’پاپا آج میں نے سکول ٹیسٹ میں 100 میں سے 80 نمبر لیے‘‘ تو اِن کی رگیں تن جاتی ہیں’’پورے سو کیوں نہیں لیے۔۔۔‘‘
سڑیل لوگ عموماً چار چار دن شیو نہیں کرتے۔گھر کے یو پی ایس کی خرابی کا ذمہ دار بھی بیوی کو قرار دیتے ہیں۔اِنہیں اپنے سے زیادہ کامیاب ہر شخص زہر لگتاہے۔سوشل میڈیا پر کسی مخالف کے خلاف کوئی پوسٹ لگائیں تو اوپر لکھ دیتے ہیں’لعنت بھیج کرآگے شیئر کریں‘۔جس دلیل کا ان کے پاس جواب نہیں ہوتا اُس کے فیڈ بیک میں موٹی تازی گالی نکال دیتے ہیں۔یہ ہر وقت اتنے تپے رہتے ہیں کہ ایک بادام بھی کڑوا نکل آئے تو ڈرائی فروٹ والے پر کیس کردیتے ہیں۔مسجد سے جوتی چوری ہوجائے تو جوتوں والی دوکان پر رسید لے کر پہنچ جاتے ہیں کہ جوتی تو ابھی انڈر وارنٹی تھی۔یہ شناختی کارڈبنوانے جائیں‘ ڈرائیونگ لائسنس بنوانے جائیں‘ بچوں کے سکول جائیں‘ گاڑی کے ٹوکن لگوانے جائیں‘ ڈاکخانے جائیں ‘ بینک جائیں یا ہسپتال جائیں ۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے کسی نہ کسی بات پر بھڑک اٹھتے ہیں۔یہ دماغ کے اتنے گرم ہوتے ہیں کہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے اگر کوئی راہگیر آواز لگا دے کہ ’بھائی سٹینڈ اوپر کرلو‘ تو اُسے بھی گھوری ڈالتے ہوئے جاتے ہیں۔عموماً سڑیل لوگوں کے دوست نہیں ہوتے۔۔۔اور دشمن کی اِنہیں ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
اِن کے نزدیک اِن کی ناکامیوں کی سب سے بڑی وجہ ان کی بے خوفی ہوتی ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ یہ سب کو جوتے کی نوک پر لکھتے ہیں لہذا ناکام ہیں حالانکہ اکثر معاملہ الٹ ہوتاہے۔ان کے اندر خودساختہ غیرت بھی کوٹ کوٹ کے بھری ہوتی ہے۔ یہ عورت کی تعلیم کے بھی خلاف ہوتے ہیں اور بیگم کے لیے گائنی کی لیڈی ڈاکٹر بھی تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔اِن کے دماغ میں ہر وقت ایک بھونچال سا آیا رہتاہے۔ ریلوے پھاٹک بھی چند سیکنڈ زیادہ بند رہے تو یہ پھاٹک والے سے’ رجسٹر شکایات ‘طلب کرنے پہنچ جاتے ہیں ۔اللہ نہ کرے ان کی کہی ہوئی ہزار باتوں میں سے ایک بھی صحیح نکل آئے تو ساری زندگی اُسی کو حوالہ بناتے ہیں کہ ’’میں نے کہاتھا ناں۔۔۔‘‘
ان کے سامنے اگر کوئی خوشگوار موڈ میں پھر رہا ہو تو یہ بلاوجہ ’کچیچیاں وٹنے‘ لگتے ہیں۔اِن کو بے شک ’آپ جناب‘ کہہ کر بلایا جائے یہ آگے سے ’’توں‘ ‘ ہی کہتے ہیں۔اِن کی طبیعت دیکھ کر یوں لگتاہے جیسے یہ ابھی لڑ پڑیں گے لیکن ایسی نوبت کبھی نہیں آتی۔ اِن کا تمام تر غیض و غضب زبانی کلامی ہوتاہے‘ اور اگر اگلا آستینیں چڑھا کر لڑائی پر اُتر آئے تو اِن کا سارا غصہ ڈاؤن لوڈ ہوجاتاہے۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ سڑیل لوگ ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوتے ہیں لیکن ایسی کوئی بات نہیں ‘ نارمل کیفیت میں بھی یہ فریضہ بخوبی سرانجام دیا جاسکتا ہے۔ایسے لوگ جان بوجھ کر ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں کہ بات بگڑ جائے۔ یہ جان بوجھ کے سموکنگ ایریا میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر وہاں تماشا کھڑا کرلیتے ہیں کہ تمباکو نوشی کیوں ہورہی ہے۔سڑیل مزاجی صرف مردوں میں ہی نہیں خواتین میں بھی پائی جاتی ہے لیکن وہاں اس کی نوعیت تھوڑی مختلف ہے۔ سڑیل مزاج خواتین شوہر کی طرف سے گفٹ کیے ہوئے سوٹ پر بھی پہلا جملہ یہی کہتی ہیں’’تینوں ایہو جیا ای رنگ پسند آندا اے‘‘۔فیس بک پر سڑیل خواتین کی کثیر تعداد موجود ہے جو اپنی پوسٹ لائک نہ کرنے والوں کو ان فرینڈ کردیتی ہیں لیکن خود کسی کی پوسٹ پر لائک یا کمنٹ کرنا گناہ سمجھتی ہیں۔
مرد ہوں یا خواتین۔۔۔دونوں میں سڑیل موجود ہیں۔ تاہم میری آج کی تحقیق کا زیادہ تر حصہ سڑیل مردوں پر مشتمل ہے۔یہ سڑیل لوگ بھی چونکہ معاشرے کا حصہ ہیں لہذا ان سے الگ تھلگ ہونا آسان کام نہیں البتہ ان کی پہچان ضرورہونی چاہیے۔ سڑیل بندے کی اگر شادی ہوجائے اور ایک سال بعد اُس کی بیوی سے رشتے دار خواتین پوچھیں کہ ’’سناؤ شکیلہ کچھ ہوا؟‘‘۔ تو آگے سے جواب یہی ملتا ہے’’جی ہاں۔۔۔جھگڑا!!!‘‘۔
اگر آپ نے کافی سارے لوگو ں کی موجودگی میں چیک کرنا ہو کہ کون سڑیل ہے تو اس کا بڑا آسان سا طریقہ ہے۔بلند آواز کہیں کہ بھئی آج کا کھانا توبہت اچھا تھا۔ یہ سنتے ہی کسی نہ کسی کونے سے پھنکار سنائی دے گی’’بکواس‘‘۔۔۔فوراًسمجھ جائیں کہ آپکامطلوبہ سڑیل آپ کے سامنے ہے۔۔۔!!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“