فدوی سیاسی تاریخ سےزیادہ ثقافتی تاريخ پڑھنے سیکھنےکاقائل ہے یہی تاریخ ہمیں اس مٹی سےجوڑتی ہے آپکاتعلق جس سرزمین سےہے اسکی ہرایک شے لباس کھانے موسم روایات کا علم رکھنا ہی ہمیں دھرتی کااصل مالک بناتی ہے مگرافسوس تہذیب پر مذھب کاآھنی خودچڑھا کر نسلوں کوبربادکیاگیا
دراوڑی قوم کی زبان تھی پراکھرت اس میں عورتوں کے ایک لباس کیلئے لفظ استعمال ہوا ستیکا مختصر طور پراسے ستھی کہاگیا جب آريان آئے تویہی لفظ ساڑھی بن گیا ساڑھی شاید دنیاکاقدیم ترین لباس ہے جس کےآثار عراقی تہذیب سے دريائےسندھ کی تہذیب تک میں ملتےہیں
ہڑپہ موہنجودڑوسے ملنے والے مورتیوں نے ساڑھی جیسی لباس زیب تن کررکھا ہے اسکےعلاوہ دنیاکاقدیم ترین فن مصوری کانمونہ اجنتاکےغار پر بنےدیوی کی تصویر میں انکالباس بھی ساڑھی دکھایاگیا ہے مصری تہذیب کےمیں بھی عورتوں نے یہی لباس زیب تن کیا سوجہاں کپاس تھی وہاں ساڑھی
ساڑھی کالفظ قدیم بدھ ادب مہا بھارت رامائن میں آیا ہے اس کے ہر حصے کازکر کہیں نہ کہیں موجود ہے کدم بھری اور نتیاشاسترمیں اس کازکر باکثریت موجود ہے اس کے اجزاء کازکر ہندی مذھبی شاعری میں موجودہے جیسےپلو کا چولی کا ذکر سنت دیانشور نے کیاہے سویہ پہناواایک تاریخ ہے
ساڑھی کاکپڑامیں تین چيزوں کاخیال ضروری ہے ساڑھی کی لمبائی پلوکی لمبائی اورچوڑائی ساڑھی کاکپڑا کم سےکم 3.5میٹر زیادہ سےزیادہ9میٹرہوتاہے چوڑائی 2-4فٹ ہوتی ہے پلوکالمبائی3میٹرسےزیادہ نہیں ہونی چاھیے چولی کاسائز 2میٹرہوناچاھیے معیاری سائز6میٹرہوتاہے جوہرجگہ ایک ہے
ساڑھی کےسائزمختلف تقریبات کےساتھ جڑےہیں جیسے9میٹرکی ساڑھی مذھبی تقریبات کیلئے مخصوص ہے 3.5میٹر کی ساڑھی رھس یا کسی تقریب میں رقص کیلئے اور 6میٹر کی ساڑھی گھریلو اور کام کاج پر عام حالات میں پہنی جاتی ہے سو اس لباس سے ایک تہذیب جڑی ہے جو شاید ہم نے نہیں دیکھی
ہندی تہذیب میں پکوان لباس وقت سےجڑےہیں بےوقت نہ پہنےجاتےہیں نہ پکائےجاتےہيں جیسےمنگل کو سرخ رنگ کی ساڑھی پہنی جاتی ہے بدھ کوسبز رنگ کی جمعرات کو پیلی ہفتےکو کالی رنگ کی یہ دن ان رنگوں سےجڑے ہیں اور اس موقع پر ان رنگوں کا پہنناخواتین کیلئے نیک شگون سمجھا جاتا ہے
ساڑھی کےرنگ مختلف تقریبات سےجڑےہیں جیسےخوشی کےموقع پر سرخ رنگ کی ساڑھی پہنی جاتی ہے نیلی ساڑھی وقارکیلئے بڑی عمرکی خواتین کیلئےمخصوص ہے پیلی ساڑھی دن کےوقت اورصرف گرمیوں میں شام کی تقریبات کیلئے کالی رنگ کی ساڑھی گلابی رنگ شادی ملاپ سےپہلےپہناجاتاہے بعدمیں نہیں
مغل شاہوں کی آمدسےپہلے ساڑھی ایک لباس تھی مگرمغلوں کی آمداس میں جدت لائی ہیرےجواھرت جڑی ساڑھيوں کاآغاز اسی دورمیں ہوا یہ فن بنیادی طور پرفارس سے ہندمیں آیاتھا مگرمغلوں کو اس جدت کابانی کہاجاسکتاہے اس دورمیں طوائفوں کنیزوں اور شہزادیوں کی الگ الگ اقسام مخصوص تھیں
ساڑھیوں کی نماياں اقسام بنگالی گجراتی ہیں باقی تمام اقسام انہی سےنکلی ہیں جیسےبنارسی ساڑھی اڑیسہ کی بوم کائی سنبل پوری آسام کی موگا لکھنوکی کنچن کاری پنجاب کی پھول کری حیدرآباد کی پوچمپالی یہ سب انہی اقسام سےجڑی ہیں آج کل عام نظرآنے والی ساڑھی گجراتی ہی ہے