زیا دہ تہمید باندھنے کا وقت نہیں اسلئے مدعہ پر آجاتے ہیں ۔ سماجی ذراءع ابلاغ کے مطابق کروونا وائرس ایک سو تیہتر ممالک تک پہنچ چکاہے اور متاثرہ افراد کی تعداد دولاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے ۔ مختلف ممالک نے مختلف اقدامات کئے ہیں لیکن سب سے اہم چین کے اقدامات ہےں جن کی بدولت (مورخہ ۸۱ مارچ ۰۲۰۲)کو کروونا کا کوئی مریض نہیں آیا، یقینا یہ چین کے باشندوں کیلئے کسی چشن سے کم نہیں ہوگا اور حقیقت میں وہ تمام لوگ جنہوں نے اس وباء سے نمٹنے کیلئے اپنی خدمات پیش کیں اور اسے شکست فاش دی ۔۔ دیگر ملکوں کے حالات کا اندازہ وہاں کئے گئے اقدامات کے نتیجے میں مریضوں کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے ۔ غالب گمان یہ بھی ہے کہ متاثرہ لوگوں میں اکثر عمر رسیدہ اور بڑھتی ہوئی عمر کے افراد شامل ہیں ، اٹلی جیسے ملک میں اموات کی سب سے بڑی اہم وجہ بڑی عمر کے افراد کا زیادہ ہونا بتایا جا رہا ہے ۔ جبکہ کرونا سے اموات کی شرح ۳ فیصد بتائی جا رہی ہے ۔ دنیا جہان کی بڑی نامی گرامی شخصیات کروونا کے وار سے محفوظ نہیں رہ سکیں ، جن میں ایران کے اعلی سرکاری عہدیدارا ن بھی شامل ہیں ، اسی طرح بلغاریا کے صدر، کنیڈہ کے وزیراعظم کی اہلیہ اور امریکہ کے بھی سرکاری اہلکار کروونا سے محفوظ نہیں رہ پائے ۔ دنیا نے اس وقت سیاست ،معیشت اور ہر طرح کے معاملات سے دھیان ہٹا کرساری توجہ کروونا سے نمٹننے پر مرکوز کر رکھی ہے اور اس میں مبتلا ہونے کے بعد کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے کام شروع کر رکھا ہے ۔ کنیڈہ ، امریکہ اور دیگر کئی ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں نے اپنے شہریوں کی اگلے تین ماہ کی تمام تر ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے ۔ تین ماہ کی حد رکھنے کی جو وجہ دیکھائی دے رہے ہیں وہ سب سے زیادہ متاثر ہونے وال ملک چین ہے،، چین نے تقریباً تین ماہ میں تمام تر صورتحال پر قابوپالیا ہے ۔ جیساکہ مندرجہ بالا سطور میں تحریر کیا گیا ہے کہ چین میں نئے مریضوں کی شرح صفر ہوچکی ہے ۔
ایک روز قبل پاکستان کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب نے آخبار والوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کی نا اہلی ہے کہ کروونا وائرئرس پاکستان میں موجود ہے (اس سے ملتی جلتی ہوئی بات کی )، اور گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر الزمان قائرہ صاحب نے بھی حکومت کے اقدامات پر تنقید کیلئے خ خصوصی گفتگو کی پھر کل ہی پاکستان مسلم لیگ (ن ) کے صدر میاں شہباز شریف صاحب نے بھی پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت کو کروونا وائرس کیلئے کئے جانے والے اقداامات پر شدید تنقید کی، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے بھی حکومت کو کورونا کی پاکستان میں موجودگی کی وجہ حکومت کے گلے باندھ دی ۔ مذکورہ حضرات پاکستان کے معززین ہیں سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن انکی ملک حیثیت دوسری شخصیات سے مختلف ہے جسکی وجہ انکی ان اہم عہدوں سے وابستگی ہے جن پر یہ فائز رہے یا ہیں ۔ صرف یاد دہانی کیلئے ۵۰۰۲ کا زلزلہ ، ۰۱۰۲ کا سیلاب کو لے لیجئے اور دیکھ لیجئے حکومت نے کیا اور کیسے اقدامات کتنے وقت میں کئے ۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ حکومتی طرز اقداقدامات نئے نہیں ہیں ، فرق اتنا ہے جب حکومتی کرسیوں پر تھے اور آج کل کرسی دیکھائی نہیں دے رہی ۔ کیونکہ ہم پاکستاننی سیاست کو ہر معاملے میں گھسیٹ کر لے آتے ہیں ۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے ملک کے سیاست دان اپنی واہ واہ کرانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جیسا کہ کیا گیا ۔ ملک کو اسوقت مکمل یکجہتی کی ضرورت ہے، افراد کو قوم بنانا ہے نا کہ کسی سیاسی جماعت کا رکن ۔ وقت کا خطرناک ترین وائرس ہماری سرحدوں میں داخل ہو چکا ہے اب ہ میں اس سے نمٹنے کیلئے ایک صف میں کھڑے ہوجانا چاہئے اور اس وقت تک کیلئے بھلا دینا چاہئے کہ جب تک کروونا کو ملک سے نکال نہیں دیتے ہم ایک دوسرے کہ ساتھ ہیں ۔
اختلافات ہی جمہوری سیاست کا حسن ہیں ، تقریباً دنیا کا ہر ملک سیاسی اختلافات کی زد میں ہے اور آئے دن طرح طرح کی بیان بازیاں چلتی رہتی ہےں یہی وہ چیزیں ہے جو ذذراءع ابلاغ کی رونق بنتی ہیں اور عوام کیلئے کچھ وقت گزاری کا سامان بنتی ہیں ۔ لیکن حالات و واقعات اور ملکی و قومی سالمیت کے مسلئے پر سب ایک ہوجاتے ہیں اور بحران کو مل جل کر شکست دیتے ہیں ۔ بھلا کوئی ایسے بدترین حالات میں اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کو چھوڑ کر ، حکومت وقت کا ہاتھ بٹانے کی بجائے، عوام کا حوصلہ بڑھانے کی بجائے عوام کویہ بتا کر کہ حکومت سے کچھ نہیں ہورہا ذہنی اذیت کا شکار کرنے کی ٹھان رکھی ہے ۔ مضمون کا اختتام کی جانب گامزن تھا کہ ایک ذراءع ابلاغ کے توسط سے ایک دل دہلانے والا پیغام موصصول ہواہے کہ جس میں یہ لکھا ہے کہ شامی بچے نے مرتے وقت یاد ہے کیا کہا تھا کہ میں اوپر جا کر اللہ میاں کو سب بتادونگا، کہیں اس بچے نے واقعی ایسا تو نہیں کردیا ۔ گردوپیش سے خوف آرہا ہے ،کثرت سے توبہ تائب کیجئے ۔
کروونا وائرس کے حوالے سے موصول ہونے والی اچھی اطلاعت بھی آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتے چلیں ، سب سے پہلی بات یہ ہے کہ چین نے ہنگامی بنیادوں پربنائے گئے ہسپتالوں کو مکمل طور پر بند کردیا ہے یعنی اب چین میں کوئی نیا مریض کروونا میں مبتلا نہیں پایا گیا،چین میں ہی ایک سو تین سالا خاتون جنہیں کروونا لاحق ہوا تھا روبصحت ہوگئی ہیں ، کچھ ممالک نے کروونا کے مریضوں کا صحیح سمت میں علاج کر لیا ہے جن میں بھارت نے دعوی کیا ہے کہ مختلف اادویات کی آمیزش سے انہوں نے کروونا کے مریضوں کا علاج کر لیا ہے ، ایپل کمپنی نے چین میں اپنے اسٹور کھول لئے ہیں ، اٹلی میں زیادہ ہلاکتوں کی وجہ عمررسیدہ لوگوں کی اکثریت بتائی گئی ہے، اسرائیل نے دعوی کیا ہے کہ وہ کچھ دنوں میں کروونا کی ویکسین تیار کرلیگا اسی قسم کی کامیاب تحقیق کے انکشافات کنیڈا کے سائنسدانوں نے بھی کئے ہیں ،ایک اور امریکی محقق کا کہنا ہے کہ کروونا کا زور ٹوٹ چکا ہے ۔ یہ تما م وہ موضوعات ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ناکہ ایسے حالات میں اپنی سیاسی بساط بچھائے رکھنے کی ہے ۔
پاکستانی سیاست دانو ں سے خصوصی درخواست ہے کہ خدارا ملک میں انارکی پھیلانے سے بچیں ہم پہلے ہی بہت زخم خودرہ ہیں ، وقت ہم سے تکازہ کررہا ہے کہ ناصرف خلق خدخدا کی زندگیوں کو آسان بنانے میں اپنا کردار ادا کریں بلکہ اپنے رب کے حضور بھی توبہ کیلئے سربسجود ہوجائیں ۔ ہ میں یقین ہے ہم نے دہشت گردی کیخلاف جیسے جنگ جیتی ہے اسی طرح سے ہم کروونا کو بھی بہت جلد شکست فاش دینگے بس عوام احتیاطی تدبیروں پر بھرپور طریقے سے کاربند ہوجائیں ۔ اپنے آس پاس خیال رکھیں کہیں کوئی ایسے حالات میں بھوکا نا سوجائے ۔ اللہ تعالی اسانیاں تقسی کریں اور یہی اپنے لئے طلب کریں ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...