زمین پر پائی جانے والی اولین زندگی کی تلاش ۔
3.42 بلین سال پرانے فوسل تھریڈز قدیم ترین معروف آثار قدیمہ کے جرثومے ہو سکتے ہیں
سوت کے دھاگوں نمااسٹرکچر جیسے یہ جانداروں کی ساخت اور انکی کیمسٹری اشارہ کرتی ہے کہ یہ قدیم زندہ خلیات ہو سکتے ہیں۔
ایک قدیمی چٹان میں دبے ہوئے دھاگے کی طرح فلامنٹ جیسے اسٹرکچر ان آثار قدیمہ حیات کی باقیات ہو سکتی ہیں جنہوں نے 3.42 بلین سال پہلے ہائیڈرو تھرمل وینٹوں کے قریب میتھین (Methane CH₄) گیس کو جذب کیا تھا۔ اگر ایسا ہے تو، تقریباً ایک دہائی قبل جنوبی افریقہ میں کھدائی کی گئی چٹان کی یہ تاریں، میتھین پر مبنی میٹابولزم کے ابتدائی براہ راست ثبوت فراہم کریں گی، محققین نے 14 جولائی 2021 کو سائنس ایڈوانسز میں یہ ریسرچ رپورٹ کی۔
اس طرح کے قدیم فوسل فلامینٹس میں زمین کی ابتدائی حیات کے بارے میں سراغ مل سکتا ہے اور یہ اشارہ مل سکتاہے کہ ہے کہ ماورائے زمین زندگی کو کہاں تلاش کیا جائے۔ سائنسدانوں کو شک ہے کہ ہمارے سیارے پر زندگی ایسے ماحول میں پیدا ہوئی تھی۔
اٹلی کی بولوگنا یونیورسٹی کی ماہر ارضیات باربرا کاوالازی Barbara Cavalazzi کہتی ہیں کہ ماہرینِ حیاتیات نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ میتھین کو ہضم کرنا یا اسکو اپنے جسم سے ڈکار کی مانند خارج کرنے پر مبنی میٹابولزم اور اسکا میکانزم ابتدائی طور پر زندہ جانداروں میں تیار ہوئے، لیکن یہ نہیں جانتے کہ کب ایسا ہوا۔ شائد زمین بننےکے ایک ارب سال بعد یہ ہوا ہوگا۔
پچھلی تحقیق میں تقریباً 3.5 بلین سال پہلے کی قدیم چٹانوں کی دراڑوں میں موجود سیال کی کیمسٹری میں میتھین سائیکلنگ جرثوموں کے بالواسطہ ثبوت ملے ہیں۔ لیکن اس کام میں کوئی اصل قدیم ترین جرثومے نہیں ملے۔اس قدیمی فاسل کے تجزیے کے ساتھ، “جو کچھ ہمیں ملتا ہے، بنیادی طور پر، تقریباً اسی عمر کا ثبوت ہے۔ لیکن اسکی یہ سیلولر باقیات ہے – اور یہ ایک زندہ جاندار کا ہے، “کیوالازی کہتی ہیں۔
ان نئے شناخت شدہ فوسل تھریڈز میں کاربن پر مبنی خول ہوتا ہے۔ سائنس ایڈوانس میں چھپنےوالےاس تحقیقی مضمون کےمصنفین لکھتے ہیں کہ یہ خول ساختی طور پر محفوظ شدہ اندرونی حصے سے مختلف ہے، جو کہ خلیات کے اندرونی حصے کو بند کرنے والے سیل کو لفافے کی طرح لپیٹنے کا بتاتا ہے۔اور ٹیم نےان فلیمینٹس میں نکل Nickel دھات کا نسبتاً زیادہ ارتکاز پایا۔ یہ ارتکاز جدید میتھین بنانے والوں میں پائی جانے والی سطحوں سے ملتا جلتا تھا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فوسلز کی دھات جرثوموں میں نکل پر مشتمل انزائمز سے آ سکتی ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن کے ایک پری کیمبرین بایو جیو کیمسٹ ڈومینک پاپیناؤ Dominic Papineau ، جو اس مطالعے کا حصہ نہیں تھے اور اسے “شاندار کام” کہتے ہیں ، وہ کہتے ہیں، “ایسے قدیم فلامنٹ ان ابتدائی مائکرو آرگنائزم میں ایک مخصوص میٹابولک طرز زندگی کو منسوب کر سکتے ہیں،” ۔
اس کے باوجود ابتدائی زندگی کی شکلوں کی تلاش میں غلط علامات اس تحقیق کا ایک بڑا حصہ رہا ہے، اور کچھ محققین اس بات پر قائل نہیں ہیں کہ یہ فوسلز ہی اصل کھوج ہیں جو سلیکا سے بھرپور ہائیڈرو تھرمل ماحول میں،اس قدیمی ساخت کے اجزاء جو خلیات کی نقل کرتے ہیں اور کیمسٹری کے ذریعے زندگی کی نئی شکل بنا سکتے ہیں،
آکسفورڈ یونیورسٹی میں ماہر ارضیات جولی کوسمیڈس Julie Cosmidis کہتی ہیں۔ “وہ اصل زندہ خلیوں سے کہیں بہتر فاسل بناتے ہیں، لہذا میرے خیال میں یہ بہت اچھی طرح سے سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ چیزیں کیا ہیں،” وہ کہتی ہیں کہ نکل، جو ابتدائی قدیم زمین میں عام پائی جاتی تھی، آسانی سے نامیاتی مادے سے چمٹ جاتی ہے، چاہے وہ زندہ ہو یا نہ ہو۔ Cosmidis، جن کی لیب اس طرح کے سوالات کا مطالعہ کرتی ہے، کا کہنا ہے کہ “ہم ان عملوں یعنی نکل کے استعمال کو اس بارے میں کافی نہیں سمجھتے ہیں جو ممکنہ طور پر غلط بائیو نشانیاں بنا سکتے ہیں۔”
لیکن کیوالازی Cavalazzi اور اس کے ساتھیوں کا کہنا ہے کے ملنے والے حالیہ شواہد کی مختلف لائنیں مل کر ان مائیکرو فوسلز کی زندہ اصلیت ہونے کی تائید کرتی ہیں۔ Papineau یہ بھی نوٹ کرتا ہے کہ “ثبوت بہت اچھے ہیں،” لیکن انہوں نے مزید کہا کہ یہ “ضروری نہیں کہ یہ بالکل ٹھوس ثبوت ہوں۔” وہ کہتے ہیں کہ دیگر ٹیسٹ، ان میتھین گیس کو استعمال کرنے والے ابتدائی جرثوموں کے معاملے کو مضبوط بنا سکتے ہیں، اور زمین کی بالکل ابتدائی حیات کے بارے میں بھرپور روشنی ڈال سکتےہیں۔
اب اگر یہ تار نما جاندار قدیم آثار قدیمہ ہیں، تو وہ زندگی کے اس ڈومین کے لیے قدیم ترین فوسل ثبوت بن جائیں گے، جو 500 ملین سال سے بھی کم وقت کے نمونوں کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ اور اگر اس طرح کے جرثومے زمین پر اتنی تیزی سے تیار ہوئے، سیارے کی ابتدا کے تقریباً 1 بلین سالوں کے اندر، میتھین سائیکلرز دوسرے سیاروں پر محسوس کیے جانے سے کہیں زیادہ عام ہو سکتے ہیں جہاں مائع پانی تھوڑی دیر سے موجود ہے، پاپینو کا کہنا ہے۔مطلب یہ کہ بالکل اسی طرح کی حیات ہمیں ان سیاروںپر بھی مل سکتی ہے جہاں پانی کےملنے کے واضح امکانات ہیں۔
یہ فوسل اس وقت سے زمین پر ظہور ہوا ہے جب زمین کا سیاروی ماحولیاتی نظام ممکنہ طور پر اب کے مقابلے میں بہت مختلف تھا، یہ بات ٹمپے Tempe میں ایریزونا یونیورسٹی امریکہ کے ماہر حیاتیات بورس سوٹری Boris Sauterey کہتے ہیں، جو اس تحقیق میں شامل نہیں تھے۔ان کا کہنا ہے کہ اس وقت، زمین نے ممکنہ طور پر کچھ ماورائے دنیا کے ساتھ ایسی مماثلتیں شیئر کیں جنہیں آج ہم ممکنہ طور پرحیات کے لیے قابل رہائش تصور کرسکتے ہیں۔
کیوالازی کا کہنا ہے کہ زمین پر ابتدائی زندگی کے آثار تلاش کرنے والے محققین نے ہائیڈرو تھرمل نظاموں سے زیادہ سطح کے پانیوں کی تلچھٹ کی تلاش کی ہے، جہاں یہ فوسلز پائے گئے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ حالیہ موجودہ دریافت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہاں اور دوسرے سیاروں پر محققین کواسکی سطح کے نیچے کھرچتے رہنا چاہیے،کہ شائد قدیم حیات زیر زمین ہی موجود ہو اور ہم اسکو ایک غلط جگہ تلاش کررہے ہوں۔ اس لیے حالیہ جو مریخ پر پرزرونس نامی خلائی جہازبھیجا گیا ہے، وہ مریخی قدیم جھیلوں ، تالابوں اور دریاؤں کی تہہ کھدائی کرکے وہاں پر موجود قدیم حیات کےبارےمیں چھان بین کررہاہے۔ جو اگر مل گئی تو یہ انسان کےاپنے وجود کی تلاش کی سب سے بڑی دریافت مانی جائے گی۔
اوریجنل آرٹیکل لنک
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...