کبھی ڈائری لکھی جاتی تھی، گزرے ایام کی جھلک دیکھی جا سکتی تھی، سائبر ورلڈ نے روزنامچے محفوظ کرنا شروع کیے تو گاہے بگاہے گزرے دنوں کی جھلک سامنے آتی رہتی ہے۔ فیس بک نے یاد دلایا کہ استاد من ظفر عمران سے دوستی کیے دو سال ہوگئے ہیں۔ یہ دوستی کیسے ہوئی اس کے پیچھے ایک داستان ہے۔ ذکر ان دنوں کا ہے، جب میں ای ٹی وی اردو میں کام کرتا تھا اور میری نائٹ ڈیوٹی تھی۔ رات کو کام کم ہوتا ہے تو وقت گذارنا بھی پہاڑ کاٹنے جیسا لگتا ہے۔ وقت گذاری کے لیے کبھی فلمیں، ٹی وی سیریلز وغیرہ دیکھتا یا انٹرنیٹ کی خاک چھانتا۔ ایک دن یو ٹیوب پر ایک فلم دیکھ رہا تھا، کوئی ٹیلی فلم تھی اس وقت نام یاد نہیں آ رہا ہے۔ اس میں اسکرپٹ رائٹر کا نام ظفر عمران لکھا تھا، فلم مجھے بہت اچھی لگی، اس کے مکالمات، زبان، بیان، کہانی کا اسٹائل سب کچھ اچھا تھا۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب میں کوئی اچھی چیز دیکھتا ہوں یا پڑھتا ہوں تو اس کے خالق سے ملنے کو دل بے قرار ہو جاتا ہے۔ کسی فنکار کی کوئی اچھی چیز دیکھی تو اس کی انگلیاں چوم لینے کو جی چاہتا ہے۔ جامعہ میں بھی اسی وجہ سے مالی، بڑھئی آرٹسٹ سبھی سے دوستی ہو گئی ہے۔ میں حتی الامکان فنکار کو کم از کم ہمت افزائی کے دو کلمات ہی کہہ دوں، اس بات کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ مذکورہ فلم کو دیکھنے کے بعد یہ تجسس پیدا ہوا کہ اس شخص سے ملاقات کی جائے۔ آخر یہ کون ہے اور کیسے اتنا اچھا لکھتا ہے۔
چھان بین شروع کی، آنٹی گوگل سے فریاد کی، ڈارلنگ فیس بک کو زحمت دی، تو معلوم ہوا کہ جس شخص کو ہم اپنا عزیز بنائے ہوئے ہیں وہ تو ’دشمن ملک‘ یعنی پاکستان کا ہے، ہم پڑوسی ملک کے بارے میں اپنے طور پر یہ فرض کر لیتے ہیں، کہ وہاں کے سب لوگ برے ہی ہوں گے، اسٹیریو ٹائپ کے طور پر جب سر حد کے اس پار کی بات آتی ہے تو کسی سے ملنا تو بہت دور کی بات رہی، مبارکباد دینے پر بھی شک کے دائرے میں نہ آ جائیں اس کا ڈر لگا رہتا ہے۔ پھر ہم بظاہر جس کو فیس بک میں دیکھ رہے ہیں یہ وہی ہے یا کوئی دوسرا ان کے نام سے چلا رہا ہے، اس کی تصدیق کرنا بھی مشکل کام ہوتا ہے۔
بسیار تلاش کے بعد مجھے کہیں سے ظفر عمران صاحب کی ای میل آئی ڈی حاصل کرنے میں کامیابی ہوگئی، اور میں نے ڈرتے ڈرتے اس آئی ڈی پر فلم کو لے کر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے کچھ ناقدانہ کمنٹس بھی اس میں ڈال دیے۔ دوسرے دن خوشگوار حیرت کی انتہا نہیں تھی کہ فنکار نے مجھے جواب لکھا تھا اور میری معروضات پر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں نے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہے، یقیناً یہ بھی ایک معرکہ ہی تھا، جس پر خوش ہونا میرا حق بنتا تھا۔ میں نے ان کو فورا جواب لکھا اور یوں یہ میل ایک خوبصورت منزل کا رستہ ثابت ہوا۔ یہ آدھی ملاقات ہماری پوری ملاقات بن گئی۔ اس درمیان ہماری کبھی نہ ویڈیو کالنگ ہوئی اور نہ آڈیو لنک لیکن شاید ہی ایسا کوئی دن گزرا ہوگا جب کسی نا کسی موضوع پر ہمارے اور عمران صاحب کے درمیان تبادلہ خیال نہ ہوا ہو۔ اس درمیان ایک مشفق مہربان مربی استاد کی طرح وہ مجھے کسی اچھے مضمون یا فلم کا لنک بھیجتے اور میں اس کو پڑھنے اور دیکھنے میں منہمک ہو جاتا۔
اس درمیان ظفر عمران صاحب نے لکھنے پڑھنے کی جانب جہاں میری رہنمائی کی وہیں اپنی کئی فلموں اور سیریلز کی نشاندہی کی جسے میں نے دیکھا اور اس سے کافی کچھ سیکھنے کو ملا۔ عموما ً دیکھا یہ گیا ہے کہ فلم انڈسٹری یا اس قسم کے پیشے سے وابستہ افراد خود کو بہت بڑا سمجھتے ہیں، ان میں رعونت بہت ہوتی ہے، وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے ہیں اور خاص کر اگر وہ تخلیق کار ہے تو اس کی انا کا پندار بہت جلد ٹوٹتا ہے، لیکن میں نے دیکھا کہ ظفر عمران صاحب کے یہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ بلکہ ان کی تحریروں میں جس طرح سے خوش مذاقی، خوش مزاجی، خوش سلیقگی، خوش خلقی، خوش نستعلیقی جھلکتی ہے۔ ان کی طبیعت میں بھی وہ چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔ نفسیات کا ذرا بھی علم رکھنے والا شخص کسی کی بھی تحریر پڑھ کر اندازہ لگاسکتا ہے، کہ وہ شخص کس قسم کا ہوگا۔ میں یہاں پر ظفر عمران کی تحریروں کا نفسیاتی جائزہ لینے نہیں بیٹھا ہوں، لیکن ان کی تحریر پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نستعلیق اور نفیس انسان ہیں سلیقہ مندی ان کی طبیعت کا حصہ ہے اور مجھے ان کے یہ اطوار بہت پسند ہیں، میں بھی ایسی خوبیوں کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، مگر ایسا ہو کہاں پاتا ہے۔
جب ہماری ظفر عمران صاحب سے شناسائی ہوئی تو انھی دنوں ہمارے ای ٹی وی کے کچھ احباب نے ایک مختصر فلم بنانے کا منصوبہ بنایا اور اسکرپٹ لکھنے کی ذمہ داری میرے سپرد کر دی۔ اس سے قبل گرچہ میں ’ریتو مہرا‘ اور ’اجئے شاہ‘ کے ساتھ ’دوردرشن‘ کے سیریلز میں ’کو رائٹر‘ کے طور پر کام کر چکا تھا، لیکن پھر بھی اسکرپٹ رائٹنگ کو لے کر پس و پیش کی کیفیت میں تھا اور سوچ رہا تھا کہ ایک آئیڈیل اسکرپٹ کیسا ہوتا ہوگا۔ ریتو مہرا کے ساتھ تو خوبی یہ تھی کہ وہ سڑیل سے سڑیل اسکرپٹ کو بھی اپنے جاندار انداز میں شوٹ کر کے کامیاب بنا لیتی تھی، مگر یہاں مسئلہ اپنی اہمیت کو ثابت کرانا تھا۔ میں نے لکھنے سے قبل ظفر عمران صاحب سے مشورہ چاہا اور ان سے کچھ نمونے کے اسکرپٹ مانگے تو انھوں نے ایک دو نہیں درجنوں اسکرپٹ بھیج دیے، ساتھ میں فلموں اور سیر یلز کی بھی نشاندہی کر دی، ان کا یہ رویہ مجھے بہت بھایا۔
مجھے اندازہ نہیں تھا کہ محض ایک ای میل ہم دونوں کے درمیان اس قدر قربت کا باعث بنے گا، میں نے ظفر عمران صاحب کو ایک چھوٹا سا اسکرپٹ لکھ کر بھیجا، جسے انھوں نے خاصا پسند کیا اور زبان و بیان کی اصلاح کرکے مجھے واپس بھیج دیا، یہ الگ بات ہے کہ اسے شوٹ کرنے کی ابھی تک نوبت نہیں آئی، لیکن ان کی ہمت افزائی اور سراہنے نے مجھے کافی حوصلہ دیا۔ اس محبت میرے اندر بھی ہمت آئی اور اس کے بعد ہم دونوں کی اس فلم، ٹیلی ویژن اور صحافت پر خوب باتیں ہونے لگیں، وہ مجھے دنیا جہان کی فلمیں بتاتے، میں اسے دیکھتا اور ان سے اس پر دیر گئے رات تک گفتگو کرتا۔ یہ گفتگو رات کے بارہ ایک بجے سے شروع ہو کر کبھی کبھی صبح کے چھ بجے تک جاری رہتی۔ میں ایشیاء کے ایک بڑے ادارے سے دو سالہ باضابطہ فلم اور جرنلزم کا کورس کرنے کے دوران اساتذہ سے جو سوال نہیں کر سکا تھا، وہ سب موصوف سے پوچھتا۔ پھر جس سمے انسان کلاس میں کوئی چیز پڑھ رہا ہوتا ہے، اس وقت یہ ضروری نہیں کہ ساری چیزیں سمجھ میں بھی آجائیں، میری نا سمجھی ہوئی باتوں کا روز ایک پٹارا ہوتا، جسے میں کھولتا جاتا اور ظفر عمران صاحب ایک اچھے اور مخلص استاد کی طرح اس کو حل کرتے جاتے۔ مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ ان سے اس درمیان میں نے بہت کچھ سیکھا، خصوصاً فلم اور تیکنیک کے حوالے سے۔ ان سے جو کچھ بھی باتیں ہوئیں وہ میری زندگی کا بہترین سرمایہ ہیں۔
اسی دوران انھوں نے مجھے پاکستان کے آن لائن ویب پورٹل ”ہم سب“ پر لکھنے کے لئے مجبور کیا۔ میرے جھجھکنے پر بار بار مجھے لکھنے کے لیے اکساتے، کچوکے لگاتے، سمجھاتے بجھاتے۔ اس طرح انھوں نے ”ہم سب“ پر ایک مضمون ’بدلتے ہندوستان میں کتابوں کی واپسی‘ کے عنوان سے لکھوانے میں کامیابی حاصل کر ہی لی، اس مضمون پر انھوں نے اصلاح دی۔ نوک پلک سنواری اور ”ہم سب“ پر وہ شائع ہو گیا۔ ”ہم سب“ پر اس مضمون کا چھپنا تھا کہ اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ ہندی اور انگریزی میں اس کے ترجمے شائع ہوئے۔ پہلی مرتبہ میرے کسی مضمون کا ترجمہ بغیر میری کوشش کے شائع ہوا تھا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی اور پھر مضمون کا معاوضہ نہ ملنے اور اردو میں لکھ کر پذیرائی کی کمی کا جو شکوہ تھا دور ہو گیا۔ پھر وہ برابر مجھ سے مضمون کا تقاضہ کرنے لگے۔
یہی نہیں اچھا مضمون کیسے لکھیں، خیالات کو کیسے قلم بند کریں، پیراگرافنگ کیسے کی جاتی ہے، رموز و اوقاف، لسان و قوائد کا کتنا خیال رکھنا چاہیے۔ کیا لکھنا اور کیا نہ لکھنا، ان سب باتوں کی انھوں نے مجھے باریکیاں بتائیں۔ میں فیس بُک پر کچھ پوسٹ کرتا، اس میں کوئی غلطی ہوتی تو وہ اس کی نشاندہی کرتے اور ان غلطیوں پر قابو پانے کے طریقے بتاتے۔ جس سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ انھوں نے ”ہم سب“ پر میرے بلاگ کا پیج بنوایا، میرا تعارف لکھا اور قلم کو مزید رواں اور صیقل کرنے کے لیے برابر ابھارتے رہے۔ ان کے ذریعے ”ہم سب“ کی ٹیم میں شامل عدنان خان کاکڑ، وصی بابا اور نام نامی وجاہت مسعود جیسے معتبر صحافی سے متعارف ہونے اور ان کو پڑھنے کا موقع ملا اور تب اپنی اوقات بھی سمجھ میں آئی۔
جب بھی کوئی مضمون شائع ہوتا تو کوئی نا کوئی کچھ نا کچھ مشورہ ضرور دیتا، جس کو میں اپنے اگلے مضمون میں برتنے کی کوشش کرتا۔ میرے استاد ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب کہا کرتے ہیں، ”لکھنے سے لکھنا آئے گا، بولنے سے بولنا اور پڑھنے سے پڑھنا، جو کام پسند ہو تو دیکھو کہ لوگ اس کو کیسے برتتے ہیں۔ “ اور معروف کمپنی ایپل کے سی او کا قول ہے ”انسان کو ہمیشہ بھوکا اور بے وقوف بن کے رہنا چاہیے کہ اس سے اسے سیکھنے کو ملتا ہے۔ “ تو میں ہمیشہ اس کی کوشش کرتا ہوں۔ آج کے اس مادہ پرستانہ دور میں جبکہ ہر چیز کو لوگ مادیت سے ناپتے ہیں، ایسے مخلص لوگوں کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔ انسان بہتوں سے بہت کچھ سیکھتا ہے، میں نے اپنے قلمی زندگی میں جن لوگوں سے سیکھا ہے، ان میں ظفر عمران صاحب کے علاوہ ناموں کی ایک طویل اور لمبی فہرست ہے۔ ان میں بچے سے لے کر جوان، بوڑھے اور ادھیڑ سبھی شامل ہیں۔ میں انشاء اللہ وقتا فوقتا ان شخصیات پر لکھنے کی کوشش کروں گا، جن سے میں کسی طور متاثر ہوا اور کچھ سیکھا۔ میں فیس بک کے بانی مارک ذکر برگ کا بھی شکر گذار ہوں کہ اس کی بنائی ہوئی فیس بک کی بدولت ہم ایسے مخلص اہل علم و ادب اور اپنی پسندیدہ شخصیتوں مکمل نہ سہی نصف ہی مل تو پاتے ہیں۔
کہتے ہیں آرٹسٹ کی کوئی سرحد یا حد بندی نہیں ہوتی ہے، وہ انسانیت کے لئے جیتے اور انسانت کے لیے مرتے ہیں۔ سرحد کے اس پار اور سر حد کے اس پار بھی دونوں جانب ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان امن چاہتے ہیں محبت چاہتے ہیں۔۔ ظفر عمران صاحب سے کتنی ہی مرتبہ اس موضوع پر گفتگو ہوئی ہے اور انھوں نے دونوں ملکوں کے مابین خلیج، دراڑ اور نفرت پر افسوس کا اظہار کیا ہے. آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایسے افراد کو لے کر آگے بڑھیں اور دونوں جانب امن، اخوت، محبت کے پھول اگائیں تاکہ آئندہ آنے والی ہماری نسلوں کو ایک ایسا خطہ ملے، جس میں بم، بارود کی بو، توپ، میزائل اور ٹینکوں کی گھن گرج نہیں بلکہ الفت، محبت اور رحمت کے نغمے سننے کو ملے جہاں خوشحالی، بھائی چارگی اور ہمدردی کے نقوش ملیں۔