سرگودھا، ایک کہانی
سرگودھا میرا جنم استھان ہے، وہیں میں نے شعور کی آنکھ کھولی۔ میرے سینے میں دھڑکنے والا دل سرگودھا سے ہے۔ یہ خطۂ پنجاب بہادر لوگوں کی سرزمین ہے۔ سرگودھا کے لوگ دوستی میں کمال اور دشمنی میں بے مثال ہوتے ہیں۔ مسحور کن کرانہ پہاڑی کے پہلو میں آباد اس شہر کا سحر ہی عجیب ہے۔ میں نے دنیا کے درجنوں ممالک اور سینکڑوں شہروں کی جہاں گردی کی ہے، لیکن میرا دل سرگودھا ہے۔ بابا گودھا کا سرگودھا، جو سَر (پانی کے تالاب) کے کنارے رہنے والا ایک ملنگ فقیر تھا۔ 1887ء میں برٹش راج میں نہر کنارے اس بستی کو آباد کیا گیا تو اس کا نام سرگودھا تجویز ہوا۔ اس فقیر کی قبر میں نے دیکھ رکھی ہے، سرگودھا سول ہسپتال کے داخلی گیٹ کے ساتھ ہی، جسے بے درد اور مادی مفاد رکھنے والی سوچ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹا دیا۔ ہم برطانیہ کو سامراج کہتے ہیں۔ ذرا غور کریں اس نے کیکر کے اس جنگلی علاقے میںباقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ایک جدید شہری بستی آباد کردی اور اس بستی کا نام اپنے کسی گورے حکمران کے نام پر نہیں رکھا بلکہ کیکر کے جنگل کے اندر موجود تالاب (سَر)کنارے بیٹھے ایک فقیر (گودھا) کے نام سے اسے منسوب کیا۔ سرگودھا۔
ہمارا خاندان صدیوں سے سیالکوٹ کے ایک معروف گائوں متراں والی میں رہائش رکھتا تھا۔متراں والی، ہندو مسلم اور سکھ دوستی اور بھائی چارے میں جن روایات کا امین تھا، اسے 1947ء میں آزادی کے وقت بھی نبھایا۔ انہوں نے ایک دوسرے کی جان، مال، جائیداد اور عزتوں کو تحفظ فراہم کیا۔ متراں والی کے مسلمان گوئندیوں نے کہا کہ جو سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے سکھ گوئندیوں پر حملہ کرے گا، وہ ہم (مسلمانوں) میں سے نہیں۔ آج ہندوستان کے سکھ گوئندی فخر سے یہ بیان کرتے ہیں کہ ہماری جان ومال کا تحفظ کرکے متراں والی کے مسلمان گوئندیوں نے دہلی تک بغیر کسی خراش کے ہجرت کا سفر مکمل کروایا۔ اسی گائوں متراں والی کے دو بھائی دسوندھی گوئندی اور سربندھی گوئندی جن کے جدامجد اسی گائوں میں ایک مسلمان درویش کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے۔ گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور گجرات کے دیگر خاندانوں کی طرح سرگودھا میں برٹش راج کی دعوت پر نہر کنارے آباد بستی میں آباد کار (Settlers) کے طور پر بلائے گئے۔ دسوندھی گوئندی اور سربندھی گوئندی یوں اس شہر کے بانی آباد کار کہلوائے۔ ’’متراں والی‘‘ کے گوئندیوں کو سرگودھا شہر کا آبادکار کہا جاتا ہے۔ میری والدہ کلثوم گوئندی کے پڑدادا سربندھی گوئندی تھے۔ میں نے اس شہر کی آباد کاری کی کہانی اس شخص سے سن رکھی ہے جس کی آنکھوں کے سامنے اس کے والد اور سربندھی گوئندی نے اس شہر کو برٹش راج کے تحت گھوڑی پال سکیم کے تحت آباد کیا۔ میری والدہ کے دادا عبدالرحیم گوئندی ، اُن سے اس بستی کے آباد ہونے کی کہانی سنی، کیسے اس شہر کا نقشہ بنا اور پھر عمارات اور گلیوں محلوں کی شکل میں یہ شہرابھرا۔ شہر کے صرف دوحصے تھے۔ سرگودھا شہر اور ریلوے لائن کے پار کنٹونمنٹ۔ شہر گوئندیوں کا تھا اور دوسرا علاقہ کلیاروں کا۔ 1998ء میں جب میں جہاں گردی کرتے قرطبہ پہنچا تو ایک رات میں فلیمنگو (ہسپانوی خانہ بدوشوں) کے ایک گھر گیا، بے اختیار میرے منہ سے نکلا، اوہ یہ تو میرے سرگودھا کے گھروں جیساہے۔ سرگودھا میں بلاک سسٹم تھا۔ پہلا بلاک جو تعمیر ہوا، وہ آج کا سولہ بلاک تھا۔ دسوندھی گوئندی اور سربندھی گوئندی کا بلاک۔ ابتدا میں کُل 27بلاک تھے۔بعد میں یہ بستی پھیلتی بھی گئی اور مسخ بھی ہوتی گئی۔ میں نے اسی بستی میں 1965ء کی جنگ دیکھی جب سارا شہر خالی ہوگیا۔ ستر اسّی ہزار کی آبادی کے اس شہر میں جنگ ستمبر 1965ء میں شاید دس بیس ہزار لوگ رہ گئے۔ دشمن کے طیاروں کی بمباری اور زمین سے اینٹی ایئرکرافٹ توپوں کی تڑتڑاہٹ، رونگٹے ہی کھڑے نہیں ہوتے تھے بلکہ دل دہل جاتا تھا، بموں، جہازوں کی گھن گرج اور اینٹی ایئرکرافٹ توپوں کی تڑتڑاہٹ سے۔ 23-Aبلاک سارا خالی ہوچکا تھاسوائے ایک ہمارے گھر اور ایک اور اہلِ محلہ کے۔ حملے سے پہلے سائرن بجتا اور ہماری والدہ ہمیں Lشکل میں کھودی گئی خندق میں لے جاتیں۔ ہمارے کانوں میں روئی ڈال دی جاتی، مگر دھماکوں کی آوازیں خندق کے اندر کانوں میں ٹھونسی گئی روئی کو چیرتے ہوئے داخل ہوجاتیں۔ اور ان آوازوں پر خندق میں موجود کنکھجورے اور حشرات الارض بھی باہر نکل کر گھومنے لگتے۔
سرگودھا ایک خوب صورت شہر تھا۔ میں اس شہرکی خوب صورتی کا گواہ ہوں۔ ہر بلاک کی تعمیر وقت کے تقاضوں کے مطابق جدید انداز میں کی گئی تھی۔ بیچ میں ایک چوک جہاں شام ڈھلے بچے کھیلتے تھے۔ ہماری گلی شہر بھر میں اس لیے مقبول تھی کہ وہ شہر کی ایک ایسی گلی تھی جہاں سب گھروں میں تعلیم حاصل کرنا اوّلین ترجیح تھی۔ جھجھر والوں کی گلی۔ دہلی کے مضافات سے یوسف زئی نسل کے بھوری آنکھوں والے پٹھان جو 1947ء میں جھجھر سے ہجرت کرکے اس گلی میں آباد ہوئے۔ ان کے خاندانوں کو دو مرتبہ لوٹا گیا۔ ایک مرتبہ 1857ء میں جب برٹش راج نے دہلی پر قبضہ کیا اور پھر پنجاب کے دو معروف جاگیردار خاندانوں نے انگریز کی سرپرستی میں ان کے گھروں کو یوں لوٹا جیساکہ کلونائزیشن میں ہوتا ہے۔ دوسری بار 1947ء میں جب یہ سب کچھ لٹا کر نئی مملکت کی طرف ہجرت کرگئے اور سرگودھا جا آباد ہوئے۔ اس بلاک میں شہر کے دوسرے تمام بلاکوں کی طرح صفائی ستھرائی کا جو انتظام تھا، وہ اب بس قصہ کہانی ہے۔ دوپہر ڈھلے خاکروب گلیوں کی خوب صفائی کرتے، اس کے بعد ماشکی بچھڑے کی کھال سے بنے مشکیزے میں پانی بھربھر کر لاتے اور گلیوں کی نالیاں دھو کر یوں صاف کردیتے جیسے یہاں کبھی گندگی تھی ہی نہیں۔ اور بلاک کے چوک میں لگا بانس کا کھمبا اور اس پر لٹکتا لیمپ، جسے لوہے کی زنجیر سے ایک تالے سے باندھا گیا ہوتا تھا۔ شام ڈھلے بلدیہ کا ایک کارندہ سائیکل پر بلاک بلاک جاتا۔ اس کی سائیکل کے پیچھے مٹی کے تیل کا ایک کنستر اور ہینڈل پر چابیوں کا ایک گچھا ہوتا۔ اور ہم، محلے کے سب بچے شام ڈھلے محلے کے چوک کو روشن کرنے والے بلدیہ کے اس کارندے کا انتظار کرتے۔ وہ آتا، لکڑی کے کھمبے سے بندھے لوہے کے تار سے بندھے قفل کو ایک چابی سے کھولتا، لیمپ نیچے اتارتا، اس میں تیل بھرتا، پھر اس کو پمپ کرتا اور روشنی پھیلنے لگتی۔ دوبارہ لوہے کے اس تار کو کھینچتا تو لیمپ اوپر چلا جاتا۔ وہ تالہ لگاتااور ہم سب بچے اس کارروائی کے اختتام پر تالیاں بجاتے۔ سارے چوک میں چار سو روشنی پھیل جاتی۔ لیمپ ساری رات جلتا رہتا اور پھر طلوعِ آفتاب تک تیل ختم ہوتے ساتھ ہی روشنی ختم ہوجاتی۔ اسی چوک میں دوسرا، لوہے کا کھمبا میری آنکھوں کے سامنے لگا۔ اس محلے میں ٹیلی فون کی دھاتی تاروں کے کنکشن کے بعد23-A میں پہلا ٹیلی فون لگاجس کا نمبر 2671تھا، محمد یعقوب گوئندی کے نام پر۔ میرے والد صاحب نے محلے کو اہلِ فون کیا ، اور یوں 2671سارے محلے کا فون ٹھہرا۔
سرگودھا کو میں نے جتنا خوب صورت اور صاف ستھرا دیکھا، افسوس یہاں پر جنم لینے، پلنے بڑھنے اور نام پیدا کرنے والے قلمکاروں کی تحریروں میں شاید ہی کہیں اس کا ذکر ہوا ہو۔ اپنی چڑھتی جوانی میں جب اس شہر کو ہمیشہ کے لیے چھوڑا تو شہر ترقی کے نام پر جس طرح مسخ کیا جانے لگا، اس کی داستان دل کو اداس کردیتی ہے۔ میں نے اس شہر کے ایسے لاتعداد باسیوں کو تلاش کیا جو 1947ء میں یہاں سے سرحد پار گئے اور پھر لوٹ کر نہیں آئے۔ معروف ادیب خوشونت سنگھ اور بالی ووڈ اداکار و ہدایت کار آئی ایس جوہر۔جی وہی آئی ایس جوہر جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو پر فلم بنانے کا آغاز کیا اور میں انہیں ملنے بمبئی جا پہنچا۔ اور دیگو لاتعداد سرگودھیوں جنہیں دیکھنے میں دہلی جا پہنچا۔ سرگودھا کی داستانیں سناتے وہ جس طرح روتے، یہ وہی سمجھ سکتا ہے جو ہجرت کا درد جانتا ہو۔ اشکبار آنکھوں سے بمبئی کی ایک بستی اندھیری میں ایک سرگودھوی دیپک مگوں نے مجھے 1981ء میں کہا کہ آہ آج 1947ء کے بعد پہلا شخص ہے جو سرگودھا سے میرے گھر آیا۔ دیپک مگوں کے گھر میں یہ خوشی ایسے منائی گئی کہ جیسے ہمارے ہاں عید۔ وہ مجھے کہتے، بیٹے میرے ہاں روز آیا کرو۔ میرا وطن سرگودھا ہے۔پاکستان ہے۔ ہم یہاں بھارت میں مہاجر ہیں۔ انہوں نے پہلی مرتبہ کھانے کی دعوت دی اور کہا، میرے ہاں حلال گوشت آتا ہے۔ اُن کا بیٹا اور بیٹیاں ایک سرگودھوی کو دیکھنے کے لیے یوں اکٹھے ہوئے جیسے بچے سپرمین کو آنکھیں جھپکا کر دیکھتے ہیں۔جب میں نے پوچھا کہ ہجرت کی کہانی سنائیں تو خاموش ہوگئے اور پھر کہا، ہم سات بھائی تھے، 19بلاک میں رہتے تھے، بس میں ہی یہاں پہنچ پایا۔
سرگودھا میرا شہر۔ یہ ترانہ 1965ء کی جنگ میں اس شہر کے باسیوں کی بہادری پر بنا۔ مگر ہم اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے جنگ کے خوف کے سبب اپنا شہر نہ چھوڑا۔ اسی جنگ میں ایم ایم عالم میرا ہیرو بنا۔ وہ رات مجھے یاد ہے جب اس نے ایک منٹ سے کم وقت میں دشمن کے پانچ جنگی طیارے گرا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ اسی شہر میں ایم ایم عالم سے ذوالفقار علی بھٹو سے میرے عشق کی کہانی شروع ہوئی۔ کمپنی باغ (جناح باغ) میں جلسے کے وقت بھٹو نے کہا، ’’میں کسانوں اور محنت کشوں کے لیے اپنی جان بھی قربان کردوں گا۔‘‘ میرا سکول، کینٹ پبلک سکول، میلہ منڈی روڈ جو بعد میں ایف جی پبلک سکول بن گیا، اپنے وقت میں پورے پنجاب میں تعلیم کے حوالے سے جانا جاتا تھا اور میرا کالج سرگودھا گورنمنٹ کالج جس کی عمارت، لان اور باغ جنت نظیر تھے۔ بعد میں اس کی جگہ پر یونیورسٹی آف سرگودھا کا ڈھونگ رچا کر اس کو بھی ترقی کے نام پر قربان کردیا گیا۔ میرے اساتذہ غلام جیلانی اصغر اور سجاد نقوی۔ اس شہر میں دو دیگر سکول جہاں لوگ پڑھنے کے خواب دیکھتے تھے، پی اے ایف ماڈل سکول اور پریزنٹیشن کانونٹ سکول۔ اسی کانونٹ سکول سے میری والدہ نے تعلیم حاصل کی اور بہنوں نے بھی۔ تب سکولوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی لازم تھی۔
اب وہ سرگودھا کہاں۔ میں پچھلے دو سال میں بار بار اس سرگودھا کو تلاش کرنے گیا۔ میں نے اس شہر کو اس کے آج کے باسیوں کے ہاتھوں گندگی کے ڈھیروں اور ناجائز تجاوزات Encroachmentsمیں بدلتے دیکھا تو وہاں رکنے کو دل نہ چاہا۔ میں اپنی جہاں گرد آنکھوں کے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ سرگودھا اس وقت پنجاب میں گندگی کے ڈھیروں اور ناجائز تجاوزات کے حوالے سے سب سے آگے ہے۔ نہ جانے کہاں ہے مقامی حکومت اور اس کی مقامی قیادت، جس کو اس شہر نے پالا اور کروڑوں نہیں اربوں پتی بنا ڈالا۔ سرگودھا کی بلدیاتی قیادت کروڑ پتیوں پر مشتمل ہے۔ مگر شہر جو کبھی پنجاب کا خوب صورت شہر تھا، اب گندگی کے ڈھیروں اور ناجائز تجاوزات کا منظر ہے اور کچھ نہیں۔ شرم آنی چاہیے شہر کی اس بلدیاتی قیادت کو جو اپنی پارٹی کے قائد کے ساتھ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی تصویر لگاتی ہے ۔اور شہر کی گلیاں گندگی کی پہاڑیوں اور ناجائز تجاوزات میں بدل گئیں۔اب کہاں وہ سرگودھا!