ادب اور صحافت کا چولی دامن کاساتھ ہے۔ ادب سے جڑے صحافیوں نے ہر دور میں بڑے معرکے سر کئے ۔ان میں ایک بڑا نام سرفراز سید صاحب کا بھی ہے۔ ادیب، صحافی ، کالم نگار اور شاعر جناب سرفراز سید صاحب سے ہماری پہلی ملاقات ملتان میں ، مئی ۱۹۸۲ میں والد گرامی سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ پر ہوئی تھی۔ اس وقت شاہ جی مشرق لاہور سے وابستہ تھے اور تھیٹر کی تاریخ کے عجوبہ یعنی جشن تمثیل ۱۹۸۲ کی کوریج کے لیے لاہور سے اپنی اہلیہ کے ساتھ تشریف لائے تھے۔ ملتان میں اپنے قیام کے دوران شاہ جی اور بھابی صاحبہ نےکئی بار ہمارے ہاں ظہرانے اور عشائیےمیں شرکت فرمائی۔ ان کی گفتگو سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہ جناب سید فخرالدین بلے سے بحیثیت ڈائریکٹر انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز بخوبی شناسا تھے لیکن بحیثیت ڈائریکٹر آرٹس کونسل ملتان ، یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ جشنِ تمثیل ۱۹۸۲ کی کوریج کے دوران سرفراز سید شاہ جی نے جو مناظر دیکھے ، ان کا تذکرہ وہ چند برسوں پہلے تک بھی جب جب ان سے بات ہوتی تو ۲۵ روزہ جشن تمثیل ۱۹۸۲کی حسین یادوں کے حوالے سے بہت سی تفصیلات بیان فرماتے اور یہ بھی فرماتے کہ تھیٹر کی تاریخ کا یہ پہلا انوکھا تجربہ ہے کہ جب ایک ہی اسٹیج پر مسلسل پچیس روز تک ہر دن نئے اسکرپٹ ، نئی ٹیم ، نئے ڈرامے اور نئے سیٹ کے ساتھ ایک نیا ڈرامہ پیش کیا گیا۔ بے شک یہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا فقیدالمثال اور تاریخی کارنامہ ہے کہ جسے تھیٹر کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائےگا۔
سرفراز سید شاہ جی نے بین الاقوامی شہرت کی حامل ادبی تنظیم قافلہ (کہ جس کے بانی اور قافلہ سالار سید فخرالدین بلے شاہ صاحب تھے) کی میزبان ٹیم کے ساتھ روز اوّل سے ہی اپنائیت کا رویہ اور انداز اختیار کیا۔ ادبی تنظیم قافلہ کی ماہانہ نشست کا آغاز ہر ماہ کی یکم تاریخ کو شام پانچ بجے ہوا کرتا تھا۔ غیرممالک اور دیگر شہروں سے آئی ہوئی نامور ادبی شخصیات بھی ان محفلوں میں شریک ہوا کرتی تھیں ۔ خاص خاص مواقع جیسے کسی ادبی شخصیت کی سالگرہ ، نئی کتاب کی رونمائی یا ادبی اور مطالعاتی دوروں سے واپسی کی نسبت سے مقامی تخلیق کاروں کے اعزاز میں خصوصی پڑاؤ ڈالے جاتے تھے۔ ہمارے پیارے جناب سرفراز سید شاہ جی نے ماہانہ بنیاد پر مسلسل دس بارہ برس تک قافلہ کے کم و بیش تمام پڑاؤ کی نظامت کے فرائض بھی انجام دیئے۔ حضرت علامہ طالب جوہری ، پروفیسر اقبال عظیم ، کنور جی مہندر سنگھ بیدی سحر ، جوگندر پال ، ڈاکٹر قمر رئیس ، پروفیسر جگن ناتھ آزاد ، محترمہ ادا جعفری ، مقصود الہی شیخ ، ڈاکٹر فوق کریمی علیگ ، حضرت شبنم رومانی ، حضرت جون ایلیا ، جمیل الدین عالی ، پروفیسر محسن احسان ، جناب رام لعل جی ، حضرت خمار بارہ بنکوی ، حضرت محسن بھوپالی ، باباجی حضرت اشفاق احمد ، محترمہ بانو قدسیہ ، ڈاکٹر وزیر آغا ، ڈاکٹر اسلم انصاری ، ڈاکٹر مقصود زاہدی ، امجد اسلام امجد ، ڈاکٹر انور سدید ، صہبا اختر ، مسعود اشعر ، صہبا لکھنوی اور ڈاکٹر اجمل نیازی سمیت دیگر بہت سے تخلیق کاروں کے اعزازمیں ڈالے جانے والے قافلے کے پڑاؤ قابل ذکر ہیں۔
سرفراز سید شاہ صاحب کے حوالے سے قلم اٹھایا ہے تو بہت سی یادیں تازہ ہوگئی ہیں ۔حضرت کنور جی مہندر سنگھ بیدی سحر نے اپنے نام اور پتے کے ساتھ پرنٹڈ لفافے میں والد گرامی جناب سید فخرالدین بلے کی زیر ادارت شائع ہونے والے ہفت روزہ آواز جرس لاہور کے لیے اپنا شاہکار کلام اور راقم السطور ظفر معین بلے جعفری کے نام مفصل مکتوب بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک ہماری رہائش گاہ کے پتے پر ارسال فرمایا ، یہ رجسٹرڈ پوسٹ اس وقت ملی ، جب قافلے کا پڑائو جاری تھا ۔ دروازے کےساتھ ہی محترم سید سرفراز شاہ صاحب اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہے تھے ۔اس لئے انہوں نے آگے بڑھ کر میرے نام آیا ہوا لفافہ وصول فرمایا۔ اخلاقی تقاضہ پورا کرنے کے لیے ہمیں طلب کیا گیا اور حکم صادر ہوا کہ یہ آپ کے نام پر پوسٹ ہے، اسے کھول کر ہمیں تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔ ہم نے لفافہ کھول کر مفصل مکتوب اور اس کے ساتھ حضرت کنور جی مہندر سنگھ بیدی کا شاہکار کلام والد گرامی کی خدمت میں پیش کردیا۔ شاہ جی نے بھی مکتوب پڑھا اور کلام بھی اور اسی لفافے میں دوبارہ بند کرکے فرمایا کہ ایک دو روز میں لوٹا دوں گا۔ سرفراز سید شاہ صاحب نے بھری محفل میں یہ بھی فرمایا کہ اس سے پہلے کہ آپ اسے آواز جرس میں شائع فرمائیں،میں مشرق کے ادبی ایڈیشن میں شائع کروں گا۔ اگلے ہی روز بھارت سے حضرت کنور جی مہندر سنگھ بیدی سحر جی کی وفات کی خبر موصول ہوئی۔ شاہ جی سرفراز سید نے آئندہ شائع ہونے والے ادبی ایڈیشن میں ٹاپ پر حضرت کنور جی مہندر سنگھ بیدی سحر کا کلام اور اس لفافے کا عکس تو شائع فرمادیا کہ جس پر ارسال کنندہ کا مکمل نام اور پتہ اور سپرد ڈاک کرنے کی تاریخ نمایاں تھی، لیکن مکتوب شاہ جی سےاِدھر اُدھر ہوگیا۔ یوں ہم ایک تاریخی دستاویز سے محروم ہوگئے۔
مجھے یاد ہے ادبی تنظیم قافلہ کے پڑاؤ ، ادب ِ لطیف کی پرچارک محترمہ صدیقہ بیگم ،ہفت روزہ آواز جرس لاہور اور جناب سرفراز سید شاہ جی کی شادی کی سالگرہ بہت اہتمام سے یکم جنوری کو منائی جاتی تھیں۔ سب کے نام پر الگ الگ کیک ہوا کرتے تھے، ہمارے محترم جناب سرفراز سید شاہ جی اپنی اہلیہ گویا کہ ہماری بھابی محترمہ کے ساتھ مل کر کیک کاٹا کرتے تھے۔ دو مرتبہ تو ایسا بھی ہوا کہ یکم جنوری خاص الخاص ہوگیا اور کیک چار کے بجائے پانچ ہوگئے کیونکہ جناب جعفر شیرازی کی سالگرہ بھی دو مرتبہ قافلہ کے زیر اہتمام منائی گئی۔ دلچسپ معاملہ تو جب ہوتا تھا کہ جب تمام تر شرکائے قافلہ پڑاؤ کیک کاٹتے ہوئے سید فخرالدین بلے صاحب کو مبارکباد دیا کرتے اور جناب فخرالدین بلے صاحب بیگم سرفراز سید کے سر پر ہاتھ کر دعا دیا کرتے تھے کہ بٹیا جیتی رہو ، اللہ آباد و شاد رکھے۔ ہماری بھابی صاحبہ (بیگم سرفراز سید) تعظیماً فرمایا کرتی تھیں کہ یہ میرا میکہ ہے اور میکے میں تو عیاشی ہوتی ہے
ماہنامہ ادب لطیف لاہور کی مدیر اعلی محترمہ صدیقہ بیگم صاحبہ کی تحریک پر انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور نے بنگلہ دیش میں سیلاب کی ہولناک تباہ کاریوں کے متاثرین کی امداد کے لیے جھولی مارچ کا اہتمام کیا۔ حضرت احمد ندیم قاسمی ، انتظار حسین ، سید فخرالدین بلے ، خالد احمد ، زاہد ڈار ، امجد اسلام امجد ، منو بھائی ، اظہر جاوید ، شہزاد احمد ، انیس ناگی ،اسرا زیدی ، سرفراز سید اور راقم السطور (ظفر معین بلے جعفری) سمیت بہت سے اہل قلم جبکہ فلمی دنیا اور شو بز سے اداکار محمد علی ، اداکار ندیم بیگ ، اداکار طارق عزیز ، محترمہ روحی بانو ، اداکار مصطفی قریشی ، اداکار علی اعجاز ، اداکار محمد قوی خان ، فریال گوہر ، مصطفی ٹنڈ نے لاہور کی شاہراہوں اور مارکیٹیس جیسے کہ مال روڈ ، لبرٹی چوک ، انارکلی ، برانڈ رتھ روڈ ، شاہ عالم مارکیٹ جیسے کاروباری مقامات پر دوپہر دو بجے سے رات گیارہ بجے تک کئی روز تک مسلسل جھولی مارچ کا اہتمام کیا۔ مسلسل چار روز تک شرکائے جھولی مارچ کے ظہرانے اور عشائیے کا اہتمام سید فخرالدین بلے نے اپنی اقامت گا پر کیا جبکہ تین روز محترمہ صدیقہ بیگم صاحبہ نے یہ ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لی۔ حسن اتفاق کہیے یا کچھ اور کہ محترمہ صدیقہ بیگم ، اظہر جاوید ، سرفراز سید ، راقم السطور ظفر معین بلے اور محترمہ روحی بانو صاحبہ میں سے کوئی بھی کسی ایک دن بھی غیر حاضر نہ ہوا حالانکہ سرفراز سید شاہ جی کے سر پرمشرق کی اس قدر ذمہ داریاں تھیں کہ ان کے لیے مسلسل موجود رہنا دشوار تھا اور انہیں رات گئے تک کا وقت مشرق کے دفتر میں گزارنا پڑتا تھا ، اس کا ہمیں بخوبی اندازہ ہے۔
محترم جناب سرفراز سید شاہ جی اور ہماری پیاری دلاری ماں جیسی پیاری ماں محترمہ صدیقہ سن ولادت کے اعتبار سے ہم عمر ہیں جبکہ ماہ و ایام کا شمار کیا جائے تو محترمہ صدیقہ بیگم صاحبہ جناب سرفراز سید شاہ جی سے چالیس روز بڑی اور سینئر ہیں۔ دونوں ہی ادب لطیف سے دو برس جونیئر ہیں۔ادبی تنظیم قافلہ کے زیراہتمام جناب مسعود اشعر صاحب سالگرہ بہت ڈراماٸی انداز میں مناٸی گٸی۔ شاید ماہ فروری کی آٹھ تاریخ تھی اور شام کا وقت تھا ۔ڈاکٹر اجمل نیازی ۔ سرفراز سید ۔ شاہد واسطی۔ ظفر علی راجا ۔ انتظار حسین ۔ شہزاد احمد ۔ منو بھاٸی ۔ نجمی نگینوی۔ سلطان ارشد القادری۔ اسلم کولسری والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے مابین مختلف ادبی موضوعات پر گفتگو جاری تھی کہ اسی دوران اچانک مسعود اشعر صاحب کا فون آگیا۔ انہوں نے باباجانی فخرالدین بلے صاحب کوٸی چار پانچ منٹ کی بات کی ۔ جیسے ہی فون بند ہوا تو ہمارے باباجانی نے انتظار حسین صاحب سے کہا کہ انتظار بھاٸی آپ سے ایک کام ہے اور وہ یہ کہ پرسوں دس فروری ہے اور اسی شام آپ کا مسعود اشعر صاحب کا ایک ساتھ کہیں جانے کا ارادہ بھی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ہمارے لیے اپنا طے شدہ پروگرام بدل دیں اور دس تاریخ کے بجاٸے کسی اور دن کا پروگرام طے کرلیں لیکن اس پروگرام کی تبدیلی کا مسعود اشعر صاحب کو پہلے سے علم نہ ہوپاٸے۔ انتظار حسین صاحب نے بمشکل آدھا منٹ سوچا اور فرمایا جی جی بالکل لیکن آپ کے عزاٸم کیا ہیں۔ پھر جناب فخرالدین بلے شاہ صاحب نے انتظار حسین صاحب اور وہاں موجود دیگر احباب کو مخاطب فرماتے ہوٸے کہا کہ جب پرسوں مسعود اشعر صاحب انتظار حسین صاحب کے گھر پہنچیں گے تو انتظار حسین صاحب اور ہماری بھابی صاحبہ انہیں یہبتاٸے بنا کہ ہمارا پروگرام ملتوی ہوگیا ہے انہیں لے کر یہاں آجاٸیں گے آپ تمام احباب پہلے سے موجو ہونگے۔ انتظار حسین صاحب ۔اجمل نیازی صاحب شہزاد احمد صاحب منو بھاٸی بطور خاص مسعود اشعر کی افسانہ نگاری اور صحافتی خدمات کے حوالے سے اظہار خیال فرماٸیں گے اور ہم سب بھی اظہار خیال کرنے والوں میں شامل ہونگے اس کے بعد ہم مسعود اشعر صاحب سے ان کی سالگرہ کا کیک کٹواٸیں گے پھر عشاٸیے کا اہتمام ہوگا اور کوشش کریں گے کہ عشاٸیہ کے بعد کچھ دیر مذید گفتگو ہوسکے۔ب خیال رہے کہ اس سازش کا مسعود اشعر صاحب کو علم نہ ہوپاٸے یہ خوشخبری سنتے ہی نشست میں شامل سب ہی لوگوں کے چہرے کھل اٹھے۔ انتظار حسین صاحب نے ہمارے ولد کا یہ بیان سماعت فرماکر کہا کہ آپکی ہر بات کی تاٸید اور حمایت کا ہمیں یہ پھل ملا کہ آپ نے اسے ایک سازش قرار دے دیا اور مجھے یعنی انتظار حسین کو اس سازش کا اہم کردار بنا ڈالا ۔ اللہ کے فضل و کرم سے سب کچھ طے شدہ منصوبے کے تحت ہوا۔ دس فروری کو مسعود اشعر صاحب کی سالگرہ کا قافلہ پڑاٶ بہت کامیاب رہا اور اس میں جناب احمد ندیم قاسمی صاحب اور ڈاکٹر سلیم اختر صاحب اور اس سازش میں شامل تمام اصحاب کے علاوہ بھی مستقل شرکاٸے قافلہ پڑاٶ میں سے اکثر نے شرکت کی۔ ہم پر بھی یہ عقدہ قافلہ کے زیراہتمام مناٸی جانے والی مسعود اشعر صاحب کی سالگرہ والے دن کھلا کہ یہ ان کی ساٹھویں سالگرہ تھی۔ جب مسعود اشعر انکل سے قافلے اس خصوصی پڑاٶ میں کیک کاٹنے کےلیے گزارش کی گٸی تو انہوں نے کہا کہ اگر آپ سب لوگ اجازت دیں تو کیک کاٹنے کا معاملہ بارہ بجے تک موخر کردیا جاٸے اور جب تک ایک اور کیک کا بھی اہتمام کرلیا جاٸے کہ جو ظفر معین بلے سے کٹوایا جاٸے۔ مسعود اشعر انکل کے اس بیان پر جناب سرفراز سید نے کہا اوبجیکشن اوبجیکشن اگر ایسا ہوا تو ہمارا مطالبہ ہو گا کہ کیک کاٹنے کی رسم کو مذید چوبیس گھنٹے ملتوی کردیاجاٸے کیونکہ اگر گیارہ فروری کو ظفر معین بلے کی سالگرہ ہے تو بارہ فروری کو سرفراز سید کی بھی سالگرہ ہے ۔لہذہ بہتر یہی ہوگا کہ مسعود اشعر صاحب کیک کاٹنے کی رسم بروقت ادا فرماٸیں ۔ اس پر ہال میں احباب کا زوردار قہقہ گونجا ۔ اور تمام شرکاٸے قافلہ پڑاٶ نے مسعود اشعر صاحب کو ان کی سالگرہ کی مبارکباد کے ساتھ ساتھ ظفر معین بلے اور سرفراز سید کو بھی سالگرہ کی پیشگی مبارکباد دی ۔
خواہش تو یہ تھی کہ سرفراز سید شاہ جی کے بہت سے کلام کو بھی اس مختصر سی تحریر کا حصہ بنایا جاتا لیکن ہمارا خیال ہے کہ منتخب کلام کو ایک الگ مضمون کا حصہ بنایا جائے لہذا فی الحال تو پیش خدمت ہے جناب سرفراز سید شاہ جی کی یہ شاندار نظم
سرفراز سید کی شاہکار نظم : ۔۔۔ رزق
چلو پھر ایسا کرتے ہیں، ذرا تفہیم کرتے ہیں
بنامِ عدلِ آدم، رزق ہم تقسیم کرتے ہیں
تو تم ساری حکومت، شان و شوکت، تمکنت لے لو
فضائے بحر و بر کے سب امورِ سلطنت لے لو
عدالت، حُسن و دولت، اختیارِ بے کراں لے لو
سپہ، دربار، شہرت، اقتدارِ دو جہاں لے لو
مجھے کچھ حرف دے دو، لفظ دے دو، اک قلم دے دو
زمانے بھر کا غم دے دو، مجھےتم چشمِ نَم دے دو
مجھے کچھ خواب دے دو، سنگریزے، تلخیاں دے دو
دلِ افسردہ، خالی گھر، قفس کی تیلیاں دے دو
مگر دو دن کا قصہ ہے، کمالِ تمکنت جاناں
صحیفوں کی روایت ہے، زوالِ سلطنت جاناں
اک ایسا وقت آئے گا، بھری دوپہر میں جاناں
اکیلے تم کھڑے ہو گے، اکیلے شہر میں جاناں
میری جاں! ایسے موسم میں میرے الفاظ بولیں گے
میرے الفاظ کے جادُو درِ حیرت کو کھولیں گے
میں لکھوں گا وہ نغمے جو کبھی سوچے نہیں تم نے
ابھی کچھ بال و پَر باقی ہیں، جو نوچے نہیں تم نے
کچھ ایسے استعارے جو کبھی بولے نہیں جاتے
میں اُگلوں گا وہ موتی، جو کبھی تولے نہیں جاتے
میری نظمیں جمالِ موسمِ جاں کو نکھاریں گی
میری غزلیں تمہارے حُسن کی زلفیں سنواریں گی
تمہیں میں حُسن دوں گا، اعتبارِ بے کراں دوں گا
وقارِ حُسن دوں گا، اختیارِ جسم و جاں دوں گا
فضائے نغمہ و گُل میں، تمہیں مَیں زندہ رکھوں گا
حصارِ شہر جاں میں، مَیں تمہیں پائندہ رکھوں گا
تو جاناں ایسا کرتے ہیں ذرا تفہیم کرتے ہیں
بنامِ عدلِ آدم رزق ہم تقسیم کرتے ہیں
سرفراز سید شاہ جی کے منتخب کلام پر مشتمل مجموعہ حصار شہر جاں ان کی لاڈلی دختران کی کاوشوں کے نتیجے میں ماہ ستمبر ۲۰۲۳ کے آخری عشرے میں منظر عام پر آیا تو ادبی حلقوں میں ایک دھوم مچ گئی۔ جناب سرفراز سید شاہ جی قومی اور بین الاقوامی سطح کی ایک ہزار سے زائد تقاریب اور مشاعروں میں مندوب کی حیثیت سے شرکت فرما چکے ہیں اور کم و بیش پندرہ سے زائد غیر ممالک کے شہروں میں ادبی دوروں کا اعزاز بھی جناب شاہ جی کو حاصل ہے۔ جن میں قطر ، دوحہ ، برمنگھم ، کابل ، شارجہ اور تہران کے دورے قابل ذکر ہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت میں جناب سرفراز سید شاہ جی کو چھ یا سات مرتبہ مدعو کیا گیا۔ شاید ہی کوئی ایسا قافلہ پڑاؤ ہو کہ جس کے حوالے سے سرفراز سید شاہ جی نے کالم نہ لکھا ہو یا جس کا مفصل ذکر اپنے کالم میں نہ کیا ہو۔ سید فخرالدین بلے کی برف باری کے حوالے سے دو شاہکار نظموں ، پہلی باران کرم اور دوسری ہنگام محشر کا مفصل تنقیدی تجزیہ ایک مقالے کی شکل میں کیا یہی نہیں بلکہ جشن تمثیل ۱۹۸۲ ۔ مین آف دی اسٹیج ۔ سید فخرالدین بلے ، ادب کے قافلہ سالار ۔ سید فخرالدین بلے ، لاہور کی ادبی روایات کا اہم ستون فخرالدین بلے اور زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود ، تھیٹر کی تاریخ کا انوکھا تجربہ اور فقیدالمثال کارنامہ جشن تمثیل ۱۹۸۲ سمیت متعدد مضامین میں سید فخرالدین بلے کی شخصیت ، فن اور خدمات کا مفصل جائزہ لینے کے علاوہ سید فخرالدین بلے کے ساتھ اپنی طویل رفاقت کا بھی بھرپور انداز میں ذکر کیا ہے۔ یہاں بےشک یہ وضاحت بے محل نہ ہوگی کہ جناب سرفراز سید شاہ جی کے اب تک تیرہ ہزار سے زائد کالمز شائع ہوچکے ہیں اور ایک ہزار سے زائد مضامین و مقالات قلم بند فرما چکے ہیں
سرفراز سید شاہ صاحب کے ساتھ جو خوبصورت وقت گزرا ،وہ میری حسین یادوں میں شامل ہے۔انہوں نے ایک کالم لکھ کر لاہور ہائیکورٹ کے ججز کو ہلاکر رکھ دیا تھا ۔وہ کئی گھنٹے سر جوڑ کر بیٹھے رہے کہ کیا سرفراز سید کو اس کالم پرتوہین ِ عدالت کا نوٹس جاری نہ کردیا جائے اور بالآخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس سے ان کا موقف آگے بڑھے گا اور رسوائی ججز کی ہوگی ۔اس اندیشے نے ججز کو توہین ِ عدالت کا نوٹس جاری کرنے سے روکے رکھا اور سرفراز سید شاہ صاحب قارئین ِ کرام کی نظر میں بھی ۔ سرفراز ۔ٹھہرے ۔زندگی کی ہنگامہ خیزیوں نے مہلت دی تو سرفراز سید صاحب کے کالموں ، ان کی غزلوں ، نظموں اور دیگر تحریروں کے حوالے سے ضرور الگ سے ایک اور مضمون لکھوں گا۔اللہ تعالی ٰ انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔