میرا نام سرفراز بیگ ہے ۔ میں پاکستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوا ۔ میں نے گریجوئشن مکمل کرنے کے بعد الیانس فرانسیس اسلام آباد سے فرانسیسی زبان اور ادب میں ڈپلومہ حاصل کیا ۔ اس کے بعد مجھے پاکستان کی مشہور ٹریول کمپنیوں میں ٹورسٹ گائیڈ کی نوکری مل گئی جن میں ٹریول والجیز بہت مشہور ہے ۔ وہاں مجھے فرنچ اور انگلش سپیکنگ گائیڈ کی نوکری ملی ۔ گائیڈ کے طور پے مجھے پاکستان کے شمالی علاقات میں جانے کا اتفاق ہوا جو کہ میری نوکری کا حصہ تھا ۔ میں اپنے ساتھ جانے والے سیاحوں کے ساتھ راولپنڈی سے ٹیکسلا ، ایبٹ آباد ، مانسہرہ، بشام، چلاس ، گلگت ، ہنزہ، سکردو ، چترال اور پشاور جایا کرتا ۔ اس کے علاوہ میں بے شمار جگہوں پے جانا پڑتا ۔ مجھے چلاس کے پاس ایک علاقہ ہے شتیال وہاں پے راک کارونگ یعنی ہائیروگلپپس بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ مجھے سدھارتھا گوتما بدھا کے انوا و اقسام کے بت بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ میں نے آرکیالوجی، تاریخ ، اینتھروپولوجی، جغرافیہ فنون لطاءف ، تہذیب اور تمدن پے بے شمار کتابیں پڑھ ڈالیں ۔ اس کے علاوہ مجھے ہندوازم، بدھ ازم ، جین مت ، گندھارا آرٹ ، دواراوتی آرٹ اور پالی آرٹ کو پڑھنے اور جاننے کا موقع ملا ۔ میں نے سدھارتا گوتما بدھا کی چند ایک جاتکائیں بھی پڑھیں جن میں دیپنکارا جاتکا بہت دلچسپ تھی ۔ ٹورزم کی دنیا میں موسمِ سرما آف سیزن کہلاتا ہے اس لیئے میں نے اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پرائیویٹ طور پے اپنا ماسٹرز مکمل کیا ۔ میں چونکہ ادب کا دلدادہ تھا اور ہوں اس لیئے میں اپنے فارغ اوقات میں ادب کا مطالعہ کیا کرتا تھا ۔ جس میں کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں تھی ۔ میں اردو، انگریزی ، پنجابی اور فرانسیسی ادب پڑھا کرتا ۔
اردو ادب میں شاعری میں میر تقی میر ، مرزا غالب، فیض احمد فیض ، ناصر کاظمی اور جون ایلیاء نے بہت متاثر کیا ۔ فرانسیسی ادب میں مجھے پال ویغلین، چارلس بودلیغ، ارتھر رانباں ، اور جیک پریویخت نے متاثر کیا ۔ پنجابی ادب میں سلطان باہو، بلے شاہ اور استاد دامن بہت اچھے لگے ۔ اور انگریزی ادب میں جان کیٹس اور ڈبلیو ایچ آڈن نے بہت متاثر کیا ۔ نثری ادب میں مجھے سعادت حسن منٹو، شوکت صدیقی ، انتظار حسین اور محمد الیاس بہت شاندار لگے ۔ اس بعد یورپیئن اور ساوتھ امریکہ کے ادب میں مجھے گاریساء مارکیز، گنٹر گراس، وکٹر ہیگو، گی دا موپاساں ، ایمل زولا، امین مالوف، ٹیٹیانہ روزنبی، یسمیہ خضرا اور اس طرح کے بے شمار ادیبوں کو پڑھنے کا موقع ملا ۔
1995 میں پاکستان انگلستان کے شہر لندن چلا گیا ۔ میں وہاں تقریباً چار سال رہا ۔ پڑھتا بھی رہا اور کام بھی کرتا رہا ۔ وہاں پے مجھے ایک نئے ادب کو پڑھنے کا اتفاق ہوا جس پر ہمارے ملک پاکستان میں پابندی تھی یا ان لوگوں کی کتابیں پاکستان میں میسر نہیں تھی ۔ جس میں سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین پیش پیش تھیں ۔ میں ادب ، آرکیالوجی، اینتھروپومورفزم، فلولوجی ، لیگزیکوگرافی اور دیگر اصناف ِ فنونِ لطاءف سے شغف رکھتا تھا لیکن لندن آنے کے بعد میری سوچ اور علم و ادب نے ایک نئی راہ اختیار کی ۔ اس لیئے لندن آتے ہی میں جینیٹکس اور پاپولر سائنس کا دلدادہ ہوگیا ۔
یہاں مجھے پہلی دفعہ دنیا کے مشہور اور عصرِ حاضر کے جینیادان رچرڈ ڈاکنز کی کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا اور میری سوچ کا محور بدل گیا ۔ رچرڈ داکنز کی دو کتابیں میرے لیئے بہت اہم ہیں ۔ دی سیلفش جینز اور گاڈ ڈیلوزن ۔ اس کے علاوہ ایک لمبی فہرست ہے پاپولر سائنس لکھنے والوں کی ۔ سٹیون پنکر جو کہ کوگ نیٹو سائیٹسٹ ہیں ۔ ان کی مشہور کتاب ہے دی لینگویج انسٹنکٹ ۔ پھر آتے ہیں سٹیو جانز، کالنز ٹج، ڈانیئل ڈینٹ اور ان سب کے جدِ آدم چارلس ڈارون ۔ پھر میرے ایک بہت ہی پسندیدہ پیلی ان ٹولوجسٹ ہیں جیرڈ ڈائیمنڈ ۔ ان کی دو کتابیں تو سب کو پڑھنی چاہئیں ۔ دی رائیز اینڈ فال آف تھرڈ چمپینزی اور دوسری ہے گنز جرمز اینڈ سٹیل ۔ اس کے علاوہ میٹ رڈلی کی کتاب جینوم ہے ، جینا کولاٹا کی کلون ہے ۔ ابھی حال ہی میں نے ایک نئے تاریخ دان اور سوشل سائیٹسٹ کی چند تین کتابیں پڑھی ہیں ۔ بہت دلچسپ ہیں ۔ ان کا نام ہے یوول نوہا ہراری ۔ ہوموسیپیئنز، ہومودیس اور ٹوینٹی لیسنز اباوٹ ٹونٹی فسٹ سنچری ۔ اگر میں یہاں دو اطالوی مصنفین کا ذکر نہ کروں تو بہت زیادتی ہوگی ۔ اگر میں اٹلی نہ جاتا تو میں دانتے اور بوکاچو کو نہ پڑھتا ۔ میں ان کے نام سن رکھے تھے لیکن ان کی کتابیں کبھی نہ پڑھیں ۔ دانتے الیگئیری نے مشہور کتاب دیوینا کومیدیاء لکھی جس کو انگریزی میں ڈیوائن کومیڈی کہتے ہیں ۔ جووانی بوکاچو نے ڈیکیمورون جیسی شاندار کتاب لکھی ۔ یہ دونوں کتابیں 13 صدی میں یکے بعد دیگرے لکھی گئیں ۔ دانتے نے دیوینا کومیدیا پہلے لکھی اور جووانی بوکاچو نے قریباً پچاس سال بعد ڈیکیمرون لکھی ۔
1992 میں نے ہلکی پھلکی شاعری شروع کی ۔ اس دوران بابری مسجد کا واقع پیش آیا اور اس نے مجھے ہلا کے رکھ دیا ۔ اس نے میرے خیالات بدل دیئے ۔ اب میں زندگی کے بارے میں کسی اور رنگ سے سوچنے لگا تھا ۔ شروع شروع میں میں نے غزلیں لکھنی شروع کیں لیکن پھر آہستہ آہستہ میرا رجحان نظم کی طرف مائل ہوگیا ۔ پھر بہت آہستگی سے میں نے نثر کی دنیا میں قدم رکھا اور میں کہانیاں اور افسانے لکھنے شروع کیئے ۔ جب میں پاکستان سے انگلستان چلا گیا اور لندن میں قیام کے دوران میں نے سوچا اپنا شعری مجموعہ چھپوانا چاہیئے ۔ اس کی وجہ شاید مالی آسودگی تھی ورنہ میری شاعری اس لائق نہیں تھی کہ اسے چھاپا جاتا ۔ خیر ''انسانیت کی دعا'' کے نام اپنی شاعری کی کتاب مرتب کی اور چھپنے کے لیئے بھیج دی لیکن اس میں کچھ نظمیں ایسی تھیں جو قابلِ قبول نہیں تھیں کیونکہ ان میں خدا اور پیغمبروں کا ذکر تھا اس لیئے اس کتاب کو ضائع کردیا گیا اور میں نے وہی کتاب دوبارہ مرتب کی اور اس میں سے وہ متنازع نظمیں نکال دیں ۔ اس طرح میرا پہلا شعری مجموعہ 1997 میں منظرِ عام پے آیا ۔
اس کے بعد میں کبھی شاعری اور کبھی نثر لکھا کرتا ۔ اس دوران میں انگلستان سے اٹلی منتقل ہوگیا ۔ میں نے اپنی زندگی کے تقریباً 13 سال اٹلی کے شہر اریزو میں گزارے اور کام کے سلسلے میں پابندی سے فلارنس جایا کرتا ۔ میرا اریزو سے فلارنس کا سفر تقریباً ایک گھنٹے کا ہوا کرتا اور کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ ۔ یعنی مجھے آنے جانے میں دو سے تین گھنٹے لگا کرتے ۔ اس دوران میں یا تو کوئی کتاب پڑھا کرتا یا کوئی نا کوئی کہانی لکھا کرتا ۔ یہا ں میں نے اپنا پہلا ناول "سائیں انٹرنیٹ" لکھا جو کہ ایک سفری خود نوشت قسم کا ناول تھا ۔ اس میں میں نے اپنے دل کا غبار جی کھول کے نکالا ۔ یہ ناول 2007 میں چھپا ۔ یہ کہانی دو مہاجرین کی ہے جو تلاشِ روزگار کے لیئے پردیس جاتے ہیں لیکن دونوں کا سوچنے انداز بہت مختلف ہے ۔ یہ دونوں پاکستان سے ایران، ایران سے ترکی، یونان اور یونان سے اٹلی ، فرانس اور آخر میں غیر قانونی طور پے انگلستان چلے جاتے ہیں ۔
اس ناول میں تاریخ، فلولوجی، آرکیٹیکچر، فنون لطیفہ اور تہذیب و تمدن کے بارے میں بہت کچھ ہے ۔اس کے بعد میں ایک کہانیوں کی یا افسانے کہہ لیجئے کیونکہ انگریزی میں سٹوری دونوں کے لیئے استعمال ہوتا افسانہ اور کہانی کے لیئے ۔ کتاب کا نام کلندستینی رکھا کیونکہ اطالوی زبان میں چھپ کے رہنے والے کو جس کے پاس اٹلی کے کاغذات نہ ہوں وہ کلندستینی کہلاتا ہے ۔ یہ کتاب 2008 میں منظرِ عام پے آئی ۔ اس میں مختلف ملکوں کے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔ جو کہ انگلستان، فرانس اور اٹلی میں پائے جاتے ہیں ۔ اس کتاب میں دو افسانے بہت دردناک ہیں ۔ ایک ماریہ اور دوسرا شانتی ۔ اس کتاب کے دیباچے میں, میں نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اسلحہ کا کاروبار دنیا کا سب سے منافع بخش کاروبار ہے اس کے بعد نشہ آور اشیاء کا روبار اور انسانوں کی غیر قانونی طور پر نقل و حمل دنیا کا تیسرا بڑا کاروبار ہے ۔ اس میں یورپئن جو کہ بہت زیادہ مہذب گردانے جاتے ہیں وہ بھی شامل ہوتے ہیں ۔ اس سمگلنگ میں معصوم بچوں کی سمگلنگ سے لیکر کر جسم فروشی کے لیئے لائی جانی لڑکیوں تک ایک بہت بڑے پیمانے یہ کاروبار کیا جاتا ہے ۔
اس کے بعد میں اپنا دوسرا ناول لکھا جو کہ پاکستان کے مشہور ادارے مثال کتاب گھر نے چھاپا جو کہ فیصل آباد میں ہے اس ناول کا نام ہے "پسِ آئینہ" ۔ یہ ناول گیارہ ستمبر کے حوالے سے اور میرا یہ خیال ہے کہ یہ میری بہترین ادبی کاوش ہے ۔ اس کو لکھنے کے لیئے مجھے بہت زیادہ پڑھنا پڑا اور بے شمار حقائق اکھٹے کرنے پڑے ۔ اس میں مجھے تین سال لگے اس کے بعد میں نے یہ ناول لکھا ۔ اس حوالے سے میں فرانسیسی رائیٹر کا شکر گزار ہوں تی ئیغی میساں جس نے ایک بہترین کتاب لکھی جس کا انگریزی نام ہے نائن الیون دا بگ لائے ۔ مجھے کچھ پبلشرز نے کہا آپ اس ناول کا انگریزی ترجمہ کریں تو ہم اس کو انگلش میں چھاپیں گے لیکن تقریباً تین سو لٹریری ایجنٹس اور پبلشرز نے اسے چھاپنے سے انکار کردیا صرف سوری کا لفظ کر ۔ اس ناول کو میں نے انگریزی میں اپنے یو ٹیوب چینل پے مکمل پڑھا اور اس کی 113 اقساط ہیں ۔ یوٹیوب پے اس کا نام ہے فرشتہ سرفراز بیگ یوٹیوب ۔
2013 میں نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان ہے "دہریہ" ۔ یہ افسانوی مجموعہ ہے ۔ یہ کتاب اسلام آباد کے ایک پبلشر نے چھاپی اور می اس میں پاکستان اور دنیا میں پائے جانے والے ٹیبوز کے بارے میں بات کی گئی ہے ۔
2015 میں میں نے ایک ہلکا پھلکا ناول لکھا اپنے دماغ کو تازہ دم کرنے کے لیئے ۔ یہ ناول اور میرے دیگر ناول سانجھ لاہور نے چھاپے ہیں ۔ اس ناول کا نام ہے "محبت میں توحید نہیں ہوتی" ۔ یہ ایک لو ٹرائی اینگل ہے ۔
اس کے بعد میں ایک اور ناول لکھا جس کا عنوان ہے "ایمونہ" ۔ یہ ناول بھی سانجھ لاہور نے چھاپا ۔ یہ ناول 2018 میں چھپا ۔ یہ کہانی تین سہیلیوں کی ہے ۔ ایمونہ ، گلین اور حسینہ ۔ تینوں مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھتی ہیں لیکن ایک ہی کالج میں پڑھنے کی وجہ سے تینوں نہ چاہتے ہوئے بھی سہیلیاں ہیں ۔ بہت دلچسپ ناول ہے، عصر حاضر کی سیاسی بساط اور معاشرتی مسائل پر مبنی ہے ۔
اس کے بعد 2019 میں نے ایک اور ناول لکھا اور یہ بھی سانجھ لاہو نے چھاپا ۔ یہ کہانی یورپ میں رہنے والے ایک امیگرنٹ کی ہے جو بیوی بچوں کے ساتھ بہت زیادہ تکالیف اٹھاتا ہے ۔ اس میں ان باتوں کا ذکر ہے جس کے بارے میں دیار غیرِ میں رہنے والے ذکر کرتے ہوئے شرماتے ہیں ۔
اس کے علاوہ میری دو کتابیں یہاں فرانس کے شہر پیرس میں بھی چھپی جو کہ انگریزی میں ہیں ۔ اس پبلشنگ ادارے کا نام ہے ایڈی لیوغ ۔ انہوں نے پہلا افسانوی مجموعہ چھاپا "گاما" کے نام سے ۔ جو کہ 2017 میں چھپا اور ایموزون اور فرانس فنیک میں موجود ہے ۔ اس کے بعد اسی ادارے نے میرا ناول چھاپا ۔ جس کا عنوان ہے "آدم خان" ۔ یہ 2016 میں چھپا اور یہ بھی ایموزون اور فنیک پے موجود ہے ۔
1995 میں انگلستان کے شہر لندن چلا گیا ۔ پھر 2000 میں اٹلی کے شہر اریزو چلا گیا ۔ پھر اٹلی میں معاشی بحران کی وجہ سے میں فرانس کے شہر پیرس چلا آیا اور گزشتہ چھ یا شائد سات سال سے اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ یہیں مقیم ہوں ۔ آجکل میں اپنا چھٹا ناول لکھنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...