انسان روز مرہ سے فرار حاصل نہیں کر سکتا۔ کرے بھی تو چند ساعتوں کے لیے اور پھر اس کو اپنی دنیا میں لوٹنا پڑتا ہے۔ ہر کسی کے فرار escape کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں جیسے کوئی موسیقی کی دنیا میں پناہ حاصل کر تا ہے تو کوئی چند دنوں کے لیئے کسی گاؤں یا کسی پہاڑی مقام کی طرف بھاگتا ہے۔ میں بھی روزانہ یہ کام کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن میری راہِ فرار پر کچھ خرچ نہیں آتا اور میں مفت میں چند لمحات کی اُڑان بھر لیتا ہوں۔ میری یہ بھاگ دوڑ اپنے گھر سے ریلوے اسٹیشن تک ہوتی ہے۔
میں آج بھی حسبِ معمول عشاء کے بعد ریلوے اسٹیشن پر آ گیا ہوں۔ لائٹ بند ہے۔ چہار سُو گھپ اندھیرا ہے۔ ٹھنڈی ہوا دھیرے دھیرے چل رہی ہے۔ جنوبی پھاٹک سے ٹریفک دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں بھاگی چلی جا رہی ہے۔ دور کی گاڑیوں کی روشنیاں قریبی اندھیرے سے آنکھ مچولی کھیل رہی ہیں۔ مشرق کی طرف اندھیرے کی دبیز چادر بچھی ہے۔ پلیٹ فارم نمبر ۲ سے آگے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ۔ گورنمنٹ ہائی سکول کا میدان اور دور ایلیمنٹری کالج کے قریب رہائشی کوارٹرز کی روشنیاں بھی بجھی ہوئی ہیں۔
میں کافی دیر سے پلیٹ فارم نمبر ۱ کے ایک خالی بینچ پر بیٹھا ہوں۔ مجھ سے کچھ فاصلے پر پکھی داس جھگی نشین خاندان سٹیشن کی مسجد کی دیوار کے ساتھ ڈیرہ لگائے پڑا ہے۔ پھٹے ہوئے کمبلوں میں بچے اٹھکیلیاں کر رہے ہیں۔ ابھی ابھی ایک رضائی میں سے بوڑھے نے سر باہر نکال کی ایک سگریٹ سلگایا ہے جس کو وہ مزے لے لے کر ہواؤں میں پھونک رہا ہے۔بچوں اور بوڑھے سے تھوڑا فاصلے پر میاں بیوی کھسر پھسر کر رہے ہیں۔ شاید وہ آنے والی نسل کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ کیسے اس نسل کی آمد اور بعد میں تربیت کا انتظام کیاجائے۔کیونکہ تخلیق اور تعلیم کے دونوں مراحل ایک سرکاری ریلوے اسٹیشن پر اتنے آسانی سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچائے جا سکتے۔
میرے ہاتھ میں مونگ پھلیوں کا ایک چھوٹا سا لفافہ ہے جو بے خیالی میں ہلکا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایسی سردی اور ایسے رومانوی ماحول میں مونگ پھلیاں گن گن کر اور سوچ سوچ کر نہیں کھائی جاتیں۔ یہ تعداد میں جتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں کھاتے ہوئے ہمیشہ کم محسوس ہوتی ہیں۔
پلیٹ فارم کی ڈھلوان کے اُس پار سٹیشن ماسٹر کا دفتربھی اندھیرے میں اونگھ رہا ہے۔ دفتر میں انگریز دور کی ایک لالٹین بوجھل اندھیرے کا ناکام مقابلہ کر رہی ہے۔ دفتر میں دو تین اہلکار ڈیوٹی پر موجود ہیں۔ ایک آدمی صدیوں پرانے مواصلاتی نظام کے کل پرزوں سے گتھم گتھا ہے۔ شاید کوئی ٹرین آنے والی ہے۔ سگنل مین سگنل ڈاؤن کرنے پلیٹ فارم کی طرف جا رہا ہے۔ راولپنڈی سے مہر ایکسپریس کے آنے کا وقت ہو چکا ہے۔ ایک آدمی سگنل باکس کے عقب میں موجود گھنٹی کو زور زور سے بجا کی گاڑی کی آمد کا غیر معمولی اعلان کر رہا ہے جیسے یہاں ریل گاڑی کا آنا ایک اچنبھے کی بات ہے۔ میں ابھی تک پلیٹ فارم پر مسجد کے ساتھ کنٹین کے سامنے والے بڑے بینچ پر بیٹھا ہوا ہوں۔جنوری کی مٹھاس بھری سردی مجھے تھپکیاں دے رہی ہے۔ میری اس سرد موسم سے پرانی آشنائی ہے۔ میں سردیوں کا موسم اپنے اس گرل فرینڈ کے ساتھ یہیں گزرارتا ہوں۔ یہ سردی بھی میری طرح کافی رومینٹک ہے۔ ہم دونوں مل کر یہاں مونگ پھلیوں کا کینڈل لائٹ ڈنر کرتے ہیں۔ خاموش، اندھیارے اور پرسکون پلیٹ فارم پر چہل قدمی کرتے ہیں اور دیر تک خاموشی کی مست زبان میں دن بھر کی آپ بیتیاں ایک دوجے کو سناتے ہیں۔
پلیٹ فارم کی گھنٹی کو سن کر بازار کے چوک اور ارد گرد کی گلیوں میں موجود چنگ چی رکشے والے فوارے کے قریب آنا شروع ہو گئے ہیں۔ دور شمال سے مہر ایکسپریس کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی دکھائی دے رہی ہے۔ خاموشی کا سحر ٹوٹنے والا ہے۔ مونگ پھلیاں ختم ہو چکی ہیں جس سے جنوری کی سردی اور میرا مشترکہ کینڈل لائٹ ڈنر بھی اختمام پزیر ہو چکا ہے۔
گاڑی قریب آ چکی ہے۔ انجن کے ماتھے پر چمکتی ہوئی خوفناک بتی کی طوفانی روشنی پلیٹ فارم پرپڑنا شروع ہو گئی ہے۔ میں اپنی آرام دہ آرام گاہ سے اُٹھ چکا ہوں۔ میرا قیام خاموشی، سکون اور اندھیرے تک تھا۔ ٹرین کی آمد کے ساتھی ہی یہ چیزیں مجھ سے چھن جائیں گیں۔ تو کیوں نہ میں خود ہی گاڑی آنے سے قبل عزت کے ساتھ یہاں سے کھسک جاؤں۔