درجہ حرارت میں اضافہ کرنے کی ٹیکنالوجی تاریخی اعتبار سے ان ابتدائی ٹیکنالوجیز میں سے ہے جس نے انسانی معاشرت شروع کی یعنی کہ آگ۔ درجہ حرارت کم کرنے کی ٹیکنالوجی کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں۔ بھوک کے علاج، صحت، شہروں کے بڑھنے جیسے معاملات سے انٹرنیٹ، بڑی تجربہ گاہوں، فلمسازی کی صنعت، دنیا کی آبادی کی نئی نقشہ بندی اور خواتین کے معاشرتی کردار میں تبدیلی جیسی چیزوں تک اس کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے لیکن یہ انیسویں صدی سے پہلے ممکن نہیں تھا۔ کیوں؟ اس کے لئے کچھ کہانیاں۔
پہلی کہانی
سردی بیچنے کو بڑا کاروبار بنا لینے کا آئیڈیا ٹیوڈر کا تھا جس نے سرد جھیلوں سے برف لے کر دنیا بھر میں بیچنا شروع کی۔ اس کی اپنی پوری کہانی پھر کبھی۔ ممبئی، کلکتہ سے لے کر ہوانا اور پھر امریکہ میں سورج کی بیلٹ کے علاقے تک گرم علاقوں میں برف کی برآمد بہت بڑا کاروبار تھا۔ ایک بار شروع ہونے کے بعد اس نے دنیا کا تجارتی اور پھر معاشی نقشہ بدل دیا۔ اس کی تجارت کی فزکس پانی کی کچھ خاصیتوں پر تھی۔
دوسری کہانی
سولہویں صدی تک کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہوا ایک مادہ ہے اور اس کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ سترہویں صدی کے آغاز پر خلا کا تصور آیا اور پھر گھوڑوں کے زور سے اسے پیدا کرنے کا تجربہ ہوا اور فضائی پریشر کا علم ہوا۔
تیسری کہانی
رابرٹ بوائل نے ایک بوتل میں خلا پیدا کیا۔ اس بوتل میں موجود پرندہ نہ صرف مر گیا بلکہ جم بھی گیا۔ ان تجربات سے گیس کے قوانین کا علم ہوا۔
چوتھی کہانی
فارن ہائیٹ اور سیلسیس سکیل آئے اور درجہ حرارت کی پیمائش ٹھیک سے کرنا ممکن ہوا۔ سائنس کی تاریخ میں پیمائش نے نئے امکانات کے راستے کھولے ہیں۔ سٹیم انجن کی اٹھارہویں صدی میں ایجاد کے بعد توانائی اور حرارت کے آپس میں تعلق پر تحقیق کا آغاز ہوا۔ تھرموڈائنمکس کی نئی سائنس شروع ہوئی۔
پانچویں کہانی
فلوریڈا کے گرم مرطوب علاقے میں ملیریا عام تھا۔ ڈاکٹر جان گوری کے ذہن میں خیال آیا کہ درجہ حرارت کم کرنے سے مریضوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ہسپتال کے کمرے میں برف کی سلیں لٹکانا شروع کیں۔ ٹھنڈے کمرے میں مریض جلد صحتیاب ہو جاتے لیکن یہاں پر آنے والے طوفانوں کی وجہ سے برف کی سپلائی منقطع ہو جاتی۔ گوری کے ذہن میں خیال آیا کہ کیا برف مصنوعی طور پر تیار کی جا سکتی ہے؟
پہلا ریفریجیریشن سسٹم
پہلے ہونے والی دریافتوں کی وجہ سے اس کا میدان تیار تھا۔ گوری نے پمپ کے ذریعے ہوا کو کمپریس کیا۔ یہ گرم ہو گئی۔ اس کو جب پائپ سے گزار کر ڈی کمپریس کیا گیا تو یہ ٹھنڈی ہو گئی اور ساتھ پائپ کو ٹھنڈا کر دیا۔ اس ٹھنڈک سے پانی جما کر برف بنا لیا گیا۔ یہ تجربہ کامیاب ہو گیا۔ ڈاکٹر گورے کو اپنے مریضوں کو ٹھیک کرنے کے لئے اب جھیلوں سے لائی گئی برف پر انحصار نہیں کرنا تھا۔
آئیڈیا نہیں مرتے
گورے کی ایجاد کامیاب ہو گئی۔ پیٹنٹ مل گیا لیکن کاروبار ناکام ہو گیا۔ قدرتی برف سستی تھی اور پھر یہ عام خیال (جس کو برف کے بزنس نے پروموٹ کیا) کہ قدرتی برف ٹھیک ہے اور مصنوعی برف میں جراثیم ہوتے ہیں۔
لیکن تمام بنیادیں موجود ہونے کی وجہ سے میدان زرخیز تھا۔ ریفریجیریشن کی یہ ٹیکنالوجی اگلے دس سال میں کئی جگہ پر ڈویلپ ہوئی۔ امریکی خانہ جنگی کے دوران برف کی قدرتی سپلائی منقطع ہونے کے بعد کیرئر کی بنائی گئی امونیا گیس والی مشین پاپولر ہوئی۔
یہ درجہ حرارت کم کرنے والی ٹیکنالوجی کا آغاز تھا۔ اس نے کئی روپ دھارے۔ اس کا اثر اوزون کی سطح تک بھی پہنچا۔ آج ٹھنڈے پانی کے گلاس، بے موسمی پھل، خوراک کی درآمد اور برآمد، گوشت کی ترسیل، ادویات کی حفاظت، صحراؤں میں آبادیاں، جہاز کے سفر، بڑے بازار اور بلڈنگیں، انٹرنیٹ، گھر میں خوراک سٹور کرنے اور انڈور اجتماعات ممکن کرنے جیسی چیزوں کے پیچھے ہمارے اس درجہ حرارت کو کم کرنے کی اس ٹیکنالوجی کا ہاتھ ہے۔
ساتھ لگی پہلی تصویر ڈاکٹر گوری کی بنائی گئی برف کی مشین کی ہے۔
دوسری تصویر جھیل سے برف لے جاتے ہوئے۔
برف کے کاروبار کی کہانی
https://www.history.com/…/the-man-who-shipped-new-england-i…
ڈاکٹر گوری کی کہانی
http://www.phys.ufl.edu/~ihas/gorrie/fridge.htm
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔