ایٹم ایک دوسرے کو مختلف درجوں میں پسند کرتے ہیں۔ آکسیجن کے ایٹم کاربن کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں۔ جب یہ ایٹم ایک دوسرے کے بہت قریب آتے ہیں تو ایک دوسرے کو بڑی مضبوطی سے تھام لیتے ہیں، لیکن اگر یہ فاصلہ بہت کم نہ ہو تو ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں اور دور چلے جاتے ہیں۔ جیسا کہ اگر ایک گیند کو ایک چھوٹی اونچائی طے کرنی ہو جسے پار کر کے آگے ڈھلوان اور پھر آخر میں ایک گہرا گڑھا ہو۔ اگر اس پر قوت نہ لگائی جائے تو شروع کی اونچائی پار نہیں کر سکے گی لیکن ایک بار یہ توانائی دے دی جائے تو یہ پھر اس رکاوٹ کو عبور کر کے اس گڑھے میں جا گرے گی۔ آپ کے پاس لکڑی ہے اور ہوا کی آکسیجن کے ایٹم اس کے ساتھ ٹکرا رہے ہیں مگر اتنے زور سے نہیں کہ یہ مل سکیں اور ٹکرا کر دور چلے جاتے ہیں۔ دھکیلنے والی قوت کاربن اور آکسیجن کو الگ الگ رکھتی ہے۔ اگر اس ٹکراؤ کو کسی طرح توانائی دے کر اتنا تیز کر دیا جائے کہ آنے والی آکسیجن کے ایٹمز میں سے کچھ کے پاس کاربن کے ایٹمز کے اتنا قریب جانا ممکن ہو جائے کہ وہ لکڑی کی کاربن کے ایٹمز سے جا ملیں تو اس قربت سے یہ ایک دوسرے کو مضبوطی سے تھام لیں گے۔ اس ملاپ سے پھر کچھ توانائی خارج ہو گی جس سے آس پاس کے دوسرے ایٹمز کی حرکت زیادہ تیز ہو جائے گی۔ اس سے رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے کاربن اور آکسیجن کے ایٹمز کے ملاپ کا یہ سلسلہ مسلسل چل نکلے گا اور بڑھتا چلا جائے گا۔ ملاپ کی توانائی مزید ایٹمز کی ملاقات کا سبب بنتی جائے گی۔ اس عمل کے بڑھتے ہوئے طوفان کو ہم آگ لگنا کہتے ہیں۔ ہونے والے ملاپ سے نکلنے والی توانائی کا مطلب یہ ہے کہ ایٹمز کی حرکت تیزتر ہو کر پھیلتی جا رہی ہے اور پھر یہ ٹکراؤ آس پاس کے مالیکوئیلز سے ہو کر ان کی حرکت تیز کر رہا ہے۔۔ تیز ہوتی اس حرکت اور بڑھتی حرکی توانائی کو حرارت کہتے ہیں جو کہ اس آگ سے آس پاس کے ماحول کو منتقل ہو رہی ہے۔ سردی کی رات میں اپنے ٹھنڈے ہاتھ اب اس کے قریب لے جائیں، تیزی سے ہلتے مالیکئیولز اب آپ کے ہاتھ سے ٹکرانا شروع ہو گئے جس سے آپ کے ہاتھ کے مالیکئیولز کی حرکت تیز ہو گئی۔ یہ توانائی کا تبادلہ ہے اور آپ اس تمام عمل کو اپنے ہاتھ گرم ہونے کی صورت میں محسوس کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حرارت کے اصول اصل میں صرف اس ہونے والی حرکت کے اصول ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...