ارشد خان نے کہا، اگلے ہفتے ایک دعوت افطار ہے اس میں کچھ غیر مسلم ہم وطنوں کو بھی بلایا جارہا ہے۔ سکھ ہم وطنوں میں سے کس کو مدعو کیا جائے۔ چھوٹتے ہی میں نے کہا
“سردار چرنجیت سنگھ کو”
آپ کی شناسائی ہے؟
گرو ہیں ہمارے
تو یار بس پھر کہہ دو انہیں
اوکے کہہ دوں گا
مغرب کے قریب ارشد نے یاد دلایا۔ میں نے فون کرنا چاہا تو نمبر ندارد تھا۔ فیس بک پر ہندو رہنما سرب دیال کی وال پہ گیا کہ نمبر مانگ لوں۔ وال کھلی تو انہوں نے اعلان لگا رکھا تھا
“سردار چرنجیت سنگھ قتل کردیے گئے”
دل بیٹھ گیا کہ بس بیٹھ گیا۔ یعنی سردار چرنجیت پر کوئی کیسے گولی چلاسکتا ہے؟ محبت بھائی چارگی اور انکساری کا کوئی کیسے خون کرسکتا ہے۔
گوردوارے میں پہنچا تو ایک لڑکی جیسے میرے دامن سے چمٹ گئی۔ چیخ چلاکر بولی انکل میرے والد کو واپس لاو نا پلیز۔ سرب دیال نے کہا، یہ چرنجیت کی بیٹی ہے۔ سوائے شرمندگی کے اور کچھ بھی تو ہمارے پاس نہیں تھا۔ بیٹی کے سر پہ ہاتھ رکھا تو بولی، قسم سے میرے ابو نے کسی کو کچھ نہیں کہا۔
چرنجیت سنگھ کے قدموں میں کھڑے ہوکر محسوس ہوا کہ میرے اور ان کے بیچ بحث و تکرار بہت آگے نکل گئی ہے۔ وہ سوالات کررہے ہیں میرے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ میں تسلی دینا چاہتا ہوں مگر وہ میری باتوں میں نہیں آرہے۔ میں کھڑا رہنا چاہتا ہوں مگر بیٹی کا مزید سامنا کرنا مشکل ہورہا ہے۔
کافی دیر گوردوارے کے دروازے پہ بیٹھا رہا۔ ایک پولیس اہلکار جو خود سکھ تھا، بے تکان سردار شہید کی خوبیاں بیان کیے جا رہا تھا اور میں سر ہلائے جارہا تھا۔ اس اثنا میں سامنے سوزوکی آئی اور اس سے تین دیگیں اتاری گئیں۔ اہلکار نے اچانک مجھ سے پوچھا،
بتائیں یہ دیگیں کیوں آئی ہیں؟
تعزیت کے لیے آئے ہوئے مہمانوں کے لیے شاید۔
مجھے پتہ تھا آپ کو یہی لگا ہوگا
پھر؟
سردار صاحب روزانہ غریبوں کو افطار کرواتے تھے، یہ اسی سلسلے میں کھانا آیا ہے۔
دیگوں کے گرد لاچاروں کو جمع ہوتا دیکھتا رہا سرب دیال کے الفاظ خیال میں گونجتے رہے
“چرنجیت کہہ رہے تھے کہ پیسے جمع کررہا ہوں بس دعا کرو جلد دکان بیچ شہر کی طرف کہیں لے جاوں، یہاں رہا تو لگ رہا ہے مارا جاوں گا”
اٹھا واپس گوردوارے کے اندر چلاگیا ، سردار صاحب کے قدموں میں کھڑا ہوکر پھر سے ان کے نورانی چہرے میں محو ہوگیا۔ کبھی وہ لطیفہ سناتے ہیں، کبھی ہنستے ہیں کبھی شکایت کرتے ہیں کبھی دردمندی سے کسی بے کس و لاچار کا کوئی مسئلہ سناتے ہیں۔ لگا کہ ابھی اٹھ کے پوچھیں گے
“معلوم کرو باہر کہ کھانا آگیا کہ نہیں؟”
واپس جانے لگا تو کھانا کھل چکا تھا، تھکے ہارے مسافر کھانا کھا رہے تھے، وہیں رک گیا۔ سوزوکی کے پائیدان پر بیٹھے کھانا کھاتے ایک جوان سے پوچھا
یہ کھانا یہاں کس کی طرف سے آیا ہے؟
پتہ نہیں!
یہ سامنے گوردوارے پہ اتنا رش کیوں ہے؟
مجھے نہیں پتہ میں خود نیا ہوں یہاں۔
فرنود عالم۔۔۔۔۔
پشاور
سکیم چوک کےمقام پرنامعلوم افرادکی فائرنگ۔
سکھ کمیونٹی کے ممتاز رہنما چرنجیت سنگھ قتل۔
ملزمان فرار ۔
جن کے روزے کھلوائے انہی نے خون میں نہلا دیا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“