سردار بھگت سنگھ کا جنم دن آج 28 ستمبر 2020ء کو اس کے گاؤں میں ، اس کی پیدائش والے کمرے میں تزک و احتشام سے سالگرہ کا کیک کاٹ کر منایا گیا ۔۔مہمان خصوصی گیپکو گوجرانوالہ کے چیف انجینئر جناب الیاس گھمن تھے ۔۔۔۔۔دیگر مہمانان اعزاز میں ایس پی جڑانوالہ ناصر محمود باجوہ ، گوجرانوالہ سے معروف ادیب اور دانشور ڈاکٹر انوار احمد اعجاز ، فیصل آباد سے معروف ادیب اور افسانہ نگار ڈاکٹر اظہار احمد گلزار اور ممتاز سماجی رہنما محمّد نواز بلو اور ممتاز پنجابی شاعر احمد حیات خان بلوچ تھے ۔۔۔۔۔منتظمین میں چودھری محمّد ثاقب ورک اور چودھری بلال ورک تھے جو بھگت سنگھ حویلی کی دیکھ بھال کی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔آج اس کے 113 ویں جنم دن کا کیک کاٹا گیا ۔۔۔الیاس گھمن ، ڈاکٹر اظہار احمد گلزار اور ڈاکٹر انوار احمد اعجاز نے سردار بھگت سنگھ کی انقلابی اور دلیرانہ کاوشوں اور قربانی کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ۔۔۔۔۔چیف انجینئر گیپکو گوجرانوالہ اور پنجابی کے عالمی سفیر الیاس گھمن نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ
بھگت سنگھ 28ستمبر 1907ء کو لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوا۔ بھگت کے چچا اور والد غدر پارٹی کے ممبر تھے۔ غدر پارٹی ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کر رہی تھی۔ یہ ایک قوم پرست اور مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والی پارٹی تھی۔ ایسے خاندان میں پیدا ہونے کی وجہ سے بچپن ہی سے بھگت سنگھ باغی سوچ رکھتا تھا۔ جلتی پرتیل کا کام جلیانوالا باغ کے انسانیت سوز سانحہ نے کیا۔ 13اپریل 1919ء کو جلیانوالا باغ میں کئی لوگ بیساکھی منانے اور قومی آزادی کے دو لیڈر ستیا پال اور ڈاکٹر سیف الدین کی گرفتاری اور شہر بدری کے خلاف احتجاج کرنے اکٹھے ہوئے۔ جرنل ڈائر کی جانب سے ان نہتے اور معصوم لوگوں پر سیدھی گولیاں چلا دینے کا حکم جاری کر دیا گیا۔ اس وحشیانہ عمل کے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق1000سے زیادہ لوگ مارے گئے۔اس سانحے نے جہاں تمام ہندوستانیوں کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے وہیں بھگت سنگھ کو بھی شدید متاثر کیا۔ اس سانحے نے بھگت سنگھ کی باغی سوچ کو بہت بڑھاوا دیا اور برطانوی راج سے نفرت میں بے انتہا اضافہ کیا۔ اس سانحے کے نتیجے میں گاندھی کو بھی تحریک عدم تعاون کا آغاز کرنا پڑا ۔ اس تحریک میں احتجاج کے طور پر لوگوں نے برطانوی اشیا خریدنے سے انکار کر دیاتھا۔ مگر گاندھی نے جلد ہی اس تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں پورے ہندوستان میں شدید مایوسی اور غم و غصہ پھیلا۔ مایوسی اور غم و غصے کی اس لہر کا شکار بھگت سنگھ بھی ہوا۔ اس وقت بھگت سنگھ کی عمر تقریباً 13سال تھی۔اس غداری کے نتیجے میں بھگت سنگھ گاندھی اور اس کے نام نہاد عدم تشددکے طریقہ کار سے متنفر ہو گیا۔ 1923ء میں بھگت سنگھ نے نیشنل کالج (لاہور) میں داخلہ لیا۔ یہاں اس کی ملاقات انقلابی سوچ رکھنے والے نوجوانوں سے ہوئی جن میں سکھ دیو نمایاں تھا۔ بھگت سنگھ کا انقلابی جذبہ ابھی بھی نہ صرف برقرار تھا بلکہ زیادہ شدت اختیار کر چکا تھامگر اب اس جذبے کیساتھ ساتھ بھگت نے پڑھنا بھی شروع کر دیا تھا۔ بھگت ایک سچا انقلابی تھا اور ہر سچے انقلابی کی طرح ہمیشہ درست رستے کی تلاش میں رہتا تھا۔
ڈاکٹر اظہار احمد گلزار نے اظہار خیال کرتے ہوۓ کہا کہ برصغیر کی جدو جہد آزادی میں کئی نامور شخصیات کی کوششیں اور لہو شامل ہے ۔ان ہی ہستیوں میں ایک معروف ترین ہستی بھگت سنگھ ہے۔بھگت سنگھ 28 ستمبر 1907 کو جڑانوالہ کے نواحی گاؤں 105 گ۔ ب بنگیانوالہ میں پیدا ہوا۔ اُس کے والد کا نام کشن سنگھ جب کہ والدہ کا نام ودیا وتی تھا۔ بھگت سنگھ کو انقلابی اور ترقی پسند نظریات گویا ورثے میں ملے تھے کیونکہ اُس کا والد کشن سنگھ اور چاچا تحریک آزادی کے سرگرم کارکن تھے اور دادا ارجن سنگھ بھی بھارت کی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لیتے تھے جو ہندو آریا سماج پارٹی کے رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے۔۔۔وہ برطانوی راج سے ہندوستان کو آزاد کرانے کی جدوجہد میں سرگرم عمل تھے ۔۔۔۔۔بھگت سنگھ نے نوجوانوں کے لیے ایک پلیٹ فارم بنایا جس کا نام نوجوان بھارت سبھا تھا اس پلیٹ فارم کے ذریعے بھگت سنگھ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر انقلاب کے پیغام کو پورے ملک میں پھیلانے کا کام شروع کر دیا ۔۔آہستہ آہستہ نوجوان بھارت سبھا نوجوانوں میں کافی مقبول ہو رہی تھی اس خوف سے بھگت سنگھ کو ایک جھوٹے کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔۔برطانوی راج میں ان پر یہ الزام لگایا کہ بھگت سنگھ نے بھیڑ میں دھماکہ کیا ہے ۔۔بھگت سنگھ کو گرفتار کرکے جیل میں بند کر دیا گی۔بالآخر 23 سال کی عمر میں وہ پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔۔وہ پوری دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی لڑائی لڑ رہا تھا ۔۔
ڈاکٹر انوار احمد اعجاز نے کہا کہ
یہ نوجوان انگریز سامراج کے ظلم کے خلاف ایک زور دار آواز بن کر سامنے آیا۔انقلاب سے ہماری مراد ایک ایسے سماجی نظام کا قیام ہے جس میں پرولتاریہ (عام لوگوں) کا اقتدار تسلیم ہو اور ایک عالمگیر فیڈریشن کے ذریعے نسلِ انسانی سرمایہ داری، مصائب اور سامراجی جنگوں کی غلامی سے آزادی پا لے. بھگت سنگھیہ نوجوان انقلابی انگریز سامراج سے آزادی کی کوششوں کے دوران کئی بار گرفتار کیا گیا لیکن وہ کسی بھی قیمت پر اپنے نظریات کو بدلنے سے انکاری تھا۔ انگریز حکومت نے بھگت سنگھ کو تحریک آزادی ختم کرنے کے عوض راجباہ پاؤلیانی جڑانوالہ کے تمام چکوک کی زمین دینے کی پیشکش کی تھی مگر اس نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ "زمین ہماری ہے تم کون ہو جو ہمیں دیتے ہو۔۔تم برصغیر کو چھوڑ دو۔ میری جدوجہد لوگوں کے حقوق اور دھرتی کی آزادی کے لیے ہے اپنے مفاد کے لیے نہیں۔۔
28/ ستمبر 2020ء بروز منگل "پنجابی ورثہ، پاکستان کا ایک وفد الیاس گھمن کی سربراہی میں 105 گ ب بنگیانوالا میں بھگت سنگھ کے نام سے منسوب بھگت سنگھ حویلی میں اس کا 113 واں جنم دن منانے پہنچا ۔اس حویلی کو وہاں کے ورک برادری نے تزئین و آرائش کرکے بھگت سنگھ کی تصاویر پر مبنی خوبصورت گیلری اور لائبریری بنا رکھی ہے ۔۔ورک برادری نے الیاس گھمن کی معیت میں گئے وفد کو شایان شان طریقے سے خوش آمدید کہا ۔۔اور بھگت سنگھ سے منسوب تمام تصاویر اور کتب کا ذخیرہ بھی دکھایا ۔۔اس وفد میں ڈاکٹر اظہار احمد گلزار ، ڈاکٹر انوار احمد اعجاز ، احمد حیات خان بلوچ ، محمّد نواز بلو اور صارم بلوچ کے علاوہ دیگر بہت سے افراد شامل تھے۔۔
“