شام کسی مُہیب اور سالخوردہ پرندے کی مانند اپنے پر پھیلائے نیچے اُتر آئی تھی – صُبح سے ہونے والی ہلکی ہلکی بارش اب شّدت اختیار کر چُکی تھی ، بارش کی بوندوں نے ہواؤں کو بھی سرد کر دیا تھا – بھیگے بھیگے سے اس ٹھنڈے موسم میں ، ناصر کوٹ کے کالر کو گردن تک چڑھائے ، گلے میں مفلر لپیٹے ، سردی سے بچنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا – وہ ،سڑک کے کنارے گلابوں کے چھوٹے چھوٹے گلدستوں کو سرد ہوتی ہتھیلی کی انگلیوں سے تھامے ، ہر آنے جانے والے کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش میں لگا تھا . اسے اس کام کو شروع کئے ہوئے صرف ایک ہفتہ ہی ہُوا تھا .- اس علاقہ میں ناصر کو جاننے والا کوئی نہیں تھا – اس لئے اپنے قدم جمانے میں تھوڑی دشواری ہو رہی تھی ، لیکن وہ خوش تھا کہ دار الحکومت سے دور اس شہر میں روزی کا حصول قدر بہتر تھا
. ناصر بھی ان ہزاروں تارکین وطن میں سے تھا جو ایک ٹھوس اور مستحکم مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجاے اتنی دور چلا آیا تھا – تین چھوٹے چھوٹے بچوں ، بوڑھی ماں اور بیوی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی خاطر اپنی زمین کی سوندھی خوشبوؤں سے دور وہ اس شہر میں آ چکا تھا – ایسا نہیں تھا کہ اسے روٹی کے لالے پڑے تھے یا وہ اپنا وطن چھوڑ کر خوش تھا لیکن وہ دیکھ رہا تھا کہ بچوں کی ضرورتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور اس کی آمدنی اتنی نہیں کہ وہ سب کی ضرورتوں کو پورا کر سکے – اس کا بڑا بھائی دس سال سے ملک سے باہر تھا،پہلے تو وہ تھوڑی بہت رقم ہر مہینے بھیج دیا کرتا تھا – لیکن اب اس کے اپنے بچے اور بیوی تھی ، اور وہ ہر بار فون پر یہ ہی کہتا تھا کہ کسی طرح ویزا لگوا کر اس کے پاس آ جائے – ،دونوں بھائی ملکر کام کریں گئے .سو ناصر نے زمین کا بچا کھچا ٹکڑا بھی بیچ دیا اور تھوڑا قرض لے کر پردیس آ بسا .
. انسان بھی کتنا معصوم ہوتا ہے ، جس جہاں کو دیکھا نہیں – اس کے بارے میں اتنا خوش گمان رہتا ہے جیسے زمین پر کوئی جنت اس کے انتظار اور کھوج کی منتظر ہے . پردیس آ کر معلوم ہوا کہ یہاں کی راتیں بھی کالی اور دن کے اجالے میں بھی سیاہی گهلی رہتی ہے . لوگ سرد مہر اور تنگ دل، تہذیب ماردر پدر آزاد ، کھانا حرام . . ناصر کو یہاں کی اونچی اونچی تاریخی عمارتوں ، ان کے تنگ و تاریک نیچی چھتوں والے کمروں اور سرد ماحول سے الجھن سی ہوتی تھی ،کہاں وہ دیہات کی کھلی فضا روشن صبحیں ، دوپہریں اور خنک شامیں اور کہاں یہ برف خانہ .لیکن کیا کرے مجبوری انسان کو ہر طرح کے ماحول کا عادی بنا ہی دیتی ہے سو وہ بھی یہاں کے رنگ میں رنگتا چلا گیا . آتے ہی بڑے بھائی نے کہہ سن کر چھوٹے موٹے کام پر لگوا دیا – کبھی کسی رستوران میں برتن دھونے پر،کبھی کسی 'نائیٹ شاپ' میں رات کی ڈیوٹی تو کبھی اپنے ساتھ روز کی لگنے والی مارکیٹ کے اسٹال پر .اس کے پاس یہاں مستقل رہائش کے کاغذات نہیں تھے اسلئے بہت احتیاط برتنی پڑتی اور ویزا ختم ہونے کے بعد تو ہر لمحے پکڑے جانے کا بھی خطرہ رہتا کہ وہ یہاں ایک پردیسی تھا جو اپنے مقررہ معیاد سے زائد ٹک گیا تھا .
. ایک چھوٹے سے دو کمرے کے فلیٹ میں بھائی کے ساتھ رہتے اسے ابھی چھ ماہ ہی ہوے تھے کہ بھابھی کو اس کا وجود کھٹکنے لگا اور بات بے بات کھٹ پٹ ہو جاتی ،وہ بھی بیچاری مجبور تھی – سارا دن میاں کے ساتھ مارکیٹ میں کام کرتی ،شام کو بچوں اور باورچی خانے کو سنبھالتی .ایک دن وہ بارہ گھنٹے کی شفٹ کر کے فلیٹ واپس آیا تو دیکھا کہ اس کا سامان دروازے سے باہر رکھا ہوا ہے . اس کے بھائی نے ناصر کو ' چھڑ وں ' کے فلیٹ میں ایک کمرہ دلوا دیا . کمرہ کم اور ڈربہ زیادہ لگتا تھا ،ایک کمرے میں چار بستر لگے تھے اور دن کی ڈیوٹی کرنے والے رات کو اور رات کی ڈیوٹی کرنے والے دن کو وہاں آٹھ گھنٹے گزارتے تھے . کوریڈور میں ایک اجتماعی غسل خانہ تھا جس کے لئے لائن لگانا پڑتی تھی . جسم و جان کے رشتےکو قائم رکھنے کو یہ بھی بہت تھا ،وہ محنت کر کے جو بھی کماتا ،اب ضرورت کے لئے تھوڑی سی رقم رکھ کے وطن اپنی بیوی کو بھیج دیتا . بچوں سے کبھی کبھی بات ہوتی تو وہ چلا چلا کر اپنی فرمائشیں کرتے ،گڈو کہتا کہ اسے 'نائیک کے نئے جوتے چاہیں "" اور مانو کی ضد ہوتی کہ اس کے لئے گلابی رنگ کے فراک والی گڑیا ' وہ بچوں سے وعدہ کرتا کہ اگلی تنخواہ پر ضرور لے کر بھیج دے گا ' بیوی بیچاری صرف اس کی
خیریت اور ماں جی کا حال کہہ کر چپ ہو جاتی کہ وہ بھی شوہر کے بنا ادھوری تھی . فون پر بات کرنے کے بعد وہ اور تن دہی سے کام میں جت جاتا ،انتھک محنت کرتا کہ بچوں کی فرمائش پورری کر سکے .
یہاں کے موسم کی ایک خاصیت ہے کہ وہ انسانی اعصابی نظام پر بہت ہی منفی اثرات مرتب کرتا ہے ، سردی اور اندھیرا جینے کی امنگ کو کم کرتا جاتا ہے ،ہڈیوں کو کاٹ دینے والی ٹھنڈ روح کو بھی کملا دیتی ہے ،بس ایسا ہی ناصر کے ساتھ ہوا ،وہ آہستہ آہستہ تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا- مایوسیوں نے اس کے جگر کو چھلنی کر دیا ،ہر طرف سے ناکامی ، سکون کی تلاش میں وہ قسط قسط مر رہا تھا – بے پناہ مشکلات ،گھر سے دوری ،اجنبی ملک اور لوگ ،اس کی قوت برداشت جواب دیتی گئی اور وہ شراب کا عادی بنتا گیا .اور اکثر فلیٹ سے باہر دوستوں میں راتیں گزرنے لگا . شاید خود کو نشے میں ڈوبو کر وہ سمجھتا تھا کہ سب بھول جاے گا مگر بچوں کے خوبصورت چہرے نظروں کے سامنے آتے تو وہ نئے سرے سے اپنی ہمت جمع کرتا .اپنا من مار کر کام پر توجہ دیتا . آج اس بات کو ایک سال ہو چکا تھا اور اس دیس میں قیام کی تمام درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں .اب وہ ایک غیر قانونی اجنبی تھا جس کو کسی بھی وقت پکڑ کر جلا وطن کیا جا سکتا تھا .اسلئے وہ اب دوسرے شہر میں راتوں کو چھپ کر پھول بیچنے لگا . یہاں بھی اسے ہر وقت پولیس کا خطرہ رہتا – لیکن کیا کرتا واپس جانا اس کے لئے نا ممکن تھا ،ابھی تو مشکل سے قرض ہی ادا ہوا تھا ،ابھی بچوں کی تعلیم اور گھر کی مرمت بھی باقی تھی .
جہاں وہ پھول بیچتا تھا وہیں سڑک کے ایک طرف بڑی بڑی عمارتیں ،ریستوران اور بار تھے اور دوسری جانب شہر کے درمیان سے گزرتی ہوئی نہر . اسی کنارے پر ایک لڑکی اپنے مختصر سے لباس میں کھڑی آتے جاتے لوگوں کو دعوت نظارہ دے رہی ہوتی ،اس غضب کی سردی میں اسے اتنے کم لباس میں دیکھ کر اسے جھر جھری سی آجاتی اور وہ جلدی سے اپنے ٹھٹھرتے ہوے بدن کو پرانے کوٹ میں سمیٹ لیتا ،وہ اکثر سوچتا کہ یہ بیچاری تو اس سے زیادہ مجبور اور بے کس ہے .آہستہ آہستہ دونوں نے ایک دوسرے کی موجودگی کو محسوس کر لیا اور ان کے درمیان ایک انجانا سا علامتی بندھن بن گیا ،دونوں ایک دوسرے سے دور ہو کر بھی ایک دوسرے کے ساتھی تھے، اکیلا پن اور رات کی خاموشی ،جیسے ان کے درمیان احساس کی ترسیل کا ذریعہ تھی ، جس رات اسے کوئی گاہک نہ ملتا تو وہ کافی کے دو کپ لے کر ناصر کے پاس آ بیٹھتی ، وہ اس کی زبان سے نابلد تھا پر وہ بے تکان بولے جاتی ،اس کی آواز کا ارتعاش ،ڈھلتی ہوئی رات میں بہت بھلا لگتا .ان دونوں کے درمیان یہ انوکھا اور اٹوٹ بندھن ،ناصر کے لئے بیحد حوصلہ مند تھا -.وہ بھی کوشش کرتا کہ جلدی جلدی اپنے پھول بیچ لے تاکہ تنہائی میں بیٹھ کر اس کی آواز سن سکے ،ایسا لگتا تھا کہ یہ آواز کی ڈور ہی اسے زندہ رکھے ہوے ہے . اس کا نام روزی تھا بالکل نوخیز گلاب جیسی ادھ کھلی کلی جو اکثر راتوں کو جانے کیسے کیسے مسلی جاتی – معلوم نہیں کیا بات تھی کہ ناصر کو اس کے جسم میں کوئی دلچسپی نہیں تھی بس اس کی روح سے ایک ناتا سا بن گیا تھا – وہ جب بھی کسی گاہک کے ساتھ کار میں بیٹھتی تو ہاتھ ہلا کر اسے بائے کرتی اور وہ جلدی سے اس کار کی نمبر پلیٹ نوٹ کر لیتا ،ایسا وہ کیوں کرتا تھا؟ اسے معلوم نہیں تھا .
کئی بار سوچا بھی کہ وہ روزی سے اس کے پیشے کے بارے میں سوال کرے لیکن ایک تو زبان کی مجبوری دوسرے وہ ڈرتا تھا کہ کہیں وہ ناراض نا ہو جاے .ایک دن جب وہ بہت ہی موڈ میں تھی تو ناصر نے ٹوٹی پھوٹی زبان میں اس سے پوچھا کہ وہ 'یہ کام کیوں کرتی ہے '' ؟ تو کیا کروں ؟ کسی مارکیٹ یا اسٹور میں کلرکی کرنے کے بعد جو تنخواہ مجھے ملتی تھی اس سے گھر کا خرچہ اور ماں کے علاج کے لئے رقم کافی نہیں تھی ''! "اور یہ میرا جسم ہے میں اسے جیسے مرضی چاهوں استعمال کروں !! جب میں اپنے جسم کو اپنی مرضی سے اپنے بو اے فرینڈ کو پیش کر سکتی ہوں تو اس کی قیمت کیوں نہ وصول کروں ؟ '' روزی کی منطق ناصر کے پلے نہیں پڑی .مگر چپ ہو رہا کہ اس مادر پدر آزاد ملک میں ہر چیز بکتی ہے .انسان کی کوئی وقعت نہیں، پیسہ ہی سب کچھ ہے .شرم و حیا جیسے لفظ ان کی لغت میں شاید نہیں ہیں . وہ خود بھی تو اپنے بچوں کی ضرورتوں کے لئے در بدر پھر رہا تھا .
دونوں کو علم نہیں تھا کہ روزی کے دلال ان کی کافی دنوں سے نگرانی کر رہے تھے ،اور ایک رات جب وہ کسی خریدار کے ساتھ کار میں بیٹھ کر چلی گئی تو ان محافظوں نے ناصر پر دھاوا بول دیا – گلاب کے گلدستے ہاتھوں سے پھسل کر سڑک پر بکھر گئے اور ان غنڈوں کے پیروں تلے روندے جاتے رہے وہ اکیلا ، ناتواں کب تک ان کا مقابلہ کرتا . وہ لاتوں ،جوتوں سے اسے پیٹتے رہے- ناصر نے بھاگنے کی بہت کوسش کی مگر ان کی گرفت سے نہ نکل سکا .
کسی نے شور سن کر پولیس کو اطلاع دی – .پولیس کی گاڑی اور سائرن کی آواز نے ناصر کے جسم میں جیسے برقی لہر دوڑا دی- اس کے دماغ میں بس ایک ہی خدشہ تھا کہ اگر پکڑا گیا تو ڈی پورٹ کر دیا جاے گا ،اس لئے بڑی مشکل سے ان مسٹنڈوں سی جان چھڑائی اور اندھا دھن سڑک پر دوڑ لگا دی – وہ بھاگا چلا جا رہا تھا ،سمت کا اندازہ کیے بغیر ،بارش کی وجہ سے سڑک پر پھسلن ہو گئی تھی – جانے کب اس کو ٹھوکر لگی اور وہ سڑک کے کنارے کی پھسلن سے ، نہر میں جا گرا – اس کی آنکھوں نے جو آخری منظر دیکھا وہ دونوں جانب چمکتی دمکتی ہوئی سٹریٹ لایٹس اور نیچے کی جانب گھٹا ٹوپ اندھیرا .
ادھر جب چار دن تک ناصر کا کوئی فون نہیں آیا تو اس کے بھائی کو تشویش ہوئی اور اس نے آس پاس اس کے دوستوں سے پوچھ گچھ کی،کوئی مثبت جواب نہ ملا تو جا کر اپنے قریبی پولیس سٹیشن پر گمشدگی کی رپورٹ کروائی . اس بات کو کوئی ایک ہفتہ گزر گیا تو ایک دن پولیس نے اس کے بھائی کو بلا کر ایک موبائل فون اور کاغذ کا وہ پرزہ ،جس پر ناصر کا نام اور پتا درج تھا اس کے حوالے کیا اور یہ دلدوز خبر سنائی کہ ناصر کی لاش دوسرے شہر کی ایک نہر سے برآمد ہوئی تھی اور وہاں کی لوکل اتھارٹی نے لاوارث جان کر اس کی لاش کو جلا دیا . وہ جو سرد موسم سے ہمیشہ نالاں رہتا تھا – اس آخری سفر پر ، دہکتے ہوئے شعلوں نے اسے راکھ میں تبدیل کر دیا – .!
https://www.facebook.com/groups/nairawayat/permalink/1813709805526668/