سوویت یونین نے 4 اکتوبر 1957 کو پہلا سیٹلائیٹ سپوٹنک خلا میں بھیجا۔ سوموار کی صبح یہ اخباروں کی ہیڈلائن بنی اور جان ہاپکنس یونیورسٹی سے منسلک فزکس لیب کے کیفے ٹیریا میں یہ موضوع زیرِ بحث ہے۔
اس گپ شپ کے دوران کسی نے سوال کیا کہ "کیا ہم اس کے سگنل کو سن سکتے ہیں؟"۔ وائفن باک جو مائیکرویو کے ماہر ہیں، انہوں نے اگلے چند گھنٹے میں اپنے آفس میں ایک اینٹینا اور ایمپلیفائر سیٹ کر لیا اور سننے کی کوشش شروع کی۔ سوویت یونین نے اس کو چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی کیونکہ وہ خود چاہتے تھے کہ اگر کوئی تصدیق کرنا چاہے تو کر سکے۔ 20 میگاہرٹز پر اس کا بھیجا سگنل مل گیا جو بیپ بیپ کی آواز تھی۔
لوگوں نے ان کے دفتر میں اکٹھے ہونا شروع کر دیا۔ یہ خلا سے موصول ہونے والا پہلا سگنل تھا۔ ایک نے کہا کہ کیوں نہ ہم اس کو ریکارڈ کر لیں اور پھر اپنے کمرے سے ایک ریکارڈر لے آیا۔ ریکارڈ کرنے کے ساتھ ساتھ ہر آواز کے وقت کو لکھتا جاتا۔ پھر کسی اور کو خیال آیا کہ اس کے ذریعے تو ہم ڈوپلر ایفیکٹ استعمال کرتے ہوئے اس کی رفتار کا بھی پتہ لگا سکتے ہیں۔ اس کا پتہ لگانے کے بعد کسی اور نے رائے دی کہ ڈاپلر ایفیکٹ گراف کے ذریعے ہم اینٹینا سے فاصلے کا تناسب نکال کر اس کے مدار کو معلوم کر سکتے ہیں۔
اس پر انہوں نے کام شروع کیا اور یونیویک کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت لے لی۔ چند ہی ہفتوں میں انہوں نے اس سیٹلائٹ کے مدار کو بالکل ٹھیک ٹھیک معلوم کر لیا۔ یہ سب کچھ ان لوگوں نے شوقیہ اور محض تجسس کے جذبے سے کیا تھا۔
اس سے دو ہفتے بعد ان کے باس فرینک مک کلور اس کمرے میں داخل ہوئے اور کہا کہ "تم لوگوں نے زمین کی ایک جگہ سے سیٹلایٹ کی نامعلوم پوزیشن ٹھیک ٹھیک معلوم کر لی تھی۔ کیا اس کا برعکس کیا جا سکتا ہے۔ یعنی سیٹلائٹ کی معلوم جگہ سے زمین کی کسی نامعلوم جگہ کا ٹھیک ٹھیک پتہ لگایا جا سکے۔ اگر ایسا ہو سکے تو یہ نیوکلئیر آبدوزوں کی راہنمائی کرنے کے لئے بڑا ہی مددگار ہو گا"۔ وائفن باک اور گوئیر نے کچھ دیر چیک کرنے کے بعد بتایا کہ یہ تو اس کے مقابلے میں زیادہ آسان مسئلہ ہے۔
خیال سے خیال ملا کر بڑھتے ہوئے، یہ جی پی ایس کی پیدائش تھی۔
اس کا آغاز امریکہ کی بحریہ نے ان آبدوزوں سے سب سے پہلے ساٹھ کی دہائی میں چھ سیٹلائیٹ کے نظام کے ذریعے کیا۔ 1978 میں پہلی بار نیوسٹار کا سسٹم شروع ہوا اور موجودہ ٹیکنالوجی والا سسٹم جس کے لئے کم سے کم 24 سیٹلائیٹ چاہیئں، وہ 1993 میں آپریشنل ہوا۔ امریکی صدر بِل کلنٹن نے مئی 2000 میں پہلی بار اس کے مکمل سویلین استعمال کی اجازت دی (پی پی ایس اس میں شامل نہیں)۔ اس کے مقابلے میں روس کا نیوی گیشن سسٹم گلوناس ہے جس کی کوریج دس سال پہلے مکمل ہوئی ہے۔ چین کا بیڈو نیویگیشن سسٹم ہے جس کے آپریشنل ہونے کا ٹارگٹ 2020 ہے۔ یورپ کا گلیلیو پوزیشننگ سسٹم، انڈیا کا نیوک اور جاپان کا کواسی زینتھ سسٹم بھی اس وقت تکمیل کی مختلف سٹیج ہو رہے ہیں۔
امریکہ پچھلے چالیس برس میں اس پراجیکٹ میں پانچ ارب ڈالر کی لاگت سے 72 سیٹلائیٹ بھیج چکا ہے۔ نیوسٹار کے جھرمٹ میں 31 اس وقت کام کر رہے ہیں جو زمین سے بیس ہزار کلومیٹر سے زائد کی بلندی پر موجود ہیں۔ اس وقت دنیا کی آبادی کی بڑی تعداد کے موبائل فون ان سے رابطہ کر جگہ کی معلومات لے سکتی ہیں۔ سمارٹ فون عام ہونے کی وجہ سے اب دنیا میں چار ارب سے زائد ایسے آلات ہیں جو اس سسٹم سے رابطہ کر چکے ہیں۔
اگر آپ اس کے استعمال سے اوبر یا کاریم کی ٹیکسی کی جگہ دیکھ رہے ہیں تو اس کے پیچھے یہ سیٹلائٹ کا نظام ہے۔ سوویت یونین نے اپنا پہلا سیٹلائٹ بھیجتے وقت، ایم آئی ٹی کے سائنسدانوں نے اپنے شوقیہ تجربات کرتے وقت یا پھر امریکی حکومت نے اس کے غیرفوجی استعمال کی اجازت دیتے وقت شاید اس کا یہ استعمال شاید سوچا بھی نہ ہو۔