(Last Updated On: )
افغانستان پاکستان اور میکسیکو دنیا کے ایسے تین ممالک ہیں جوکہ ایک عرصے سے ڈرگ مافیاز کے اثرمیں ہیں۔ ان ملکوں کی معیشتوں کا دارومدار کافی حد تک کالے دھن پر چلا آرہا ہے۔پاکستان ان میں نسبتا” کثیرآبادی یعنی 221 ملین کی آبادی والا ملک ہے۔اتنی بڑی آبادی اور دنیا کا بہتر نہری نظام رکھنے والا درمیانے درجے کے کارپوریٹ سیکٹر کے ملک میں ڈرگ ٹرفیکنگ بھی ساتھ ساتھ جاری رھتی ہے۔یہاں پر 1979 سے افغانستان کے اقتدار کییلئے جاری جنگ نے ریاستی کنٹرول کو کمزور کرتے کرتے نڈھال کردیا ہے۔70 فی صد آبادی جو پہلے دیہاتوں میں رہتی تھی۔اس کے اندر دھماکے دار پھیلاو نے رہن سہن اور بودوباش کے طور طریقے بدل دئیے ہیں۔ چھوٹے دیہات شہروں کے سائز میں بدل گئے ہیں یاپھر بہت ساری آبادی نقل مکانی کرکے بڑے بڑے شہروں کو منتقل ہوگئی ہے۔مطلوبہ فنڈ نہ ہونے کے باعث شہری سہولیات بن نہ سکیں۔جبکہ بڑے شہروں میں پہلے سے سے موجود فزیکل ڈھانچہ بھی ناکارہ ہوگیا ہے۔چنانچہ بجلی، پانی، گیس اور دوسری سیوک ( Civic) سہولتوں کا بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگینی اختیار کرتا جارہا ہے۔قانون کی حکمرانی انحطاط کا شکار ہے۔ بڑے بڑے شہر خاص کر لاہور، فیصل آباد، پشاور، کوئٹہ اور کراچی منشیات فروشوں کے مرکز بنے ہوئے ہیں۔یہ سلسلہ امریکہ بہادر اور اس کے مغربی تہزیب یافتہ طاقتوں کی ناصرف چاردہائیوں کی مستقل خاموشی سے چلتا رہا ہے بلکہ کسی حد تک اس کالے دھن کوخود غرضانہ انداز میں سرد جنگ کے ایندھن کے طورپر استعمال کیاگیا۔محقیقین بتاتے ہیں کہ افغان جنگ کی ابتدا ہی ملکی خفیہ اداروں کی مدد سے افیم کی وسیع البنیاد کاشت اور اس کی مدد سے ہیروئن کی تیاری و اسمگلنگ سے ہوئی تھی۔اگلے مرحلے میں مشرق وسطئی سے پٹرول ڈالر کی بارش اورمزہبی بنیاد پرست اداروں کی فنڈنگ بھی اس میں شامل ہوگئی۔ آگے بڑھتے ہوئے 1980 کی دھائی میں پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا اور امریکی صدر ریگن ( 12 نومبر 1987 کی افغان مجاہدین کے موجودگی میں مشہور وائٹ ہاوس کی تقریر یوٹیوب پراب بھی موجود ہے) نے اس میں فوجی اسلحہ،ٹریننگ اور لاجسٹک سپورٹ کو بھی کارخیرکہہ کر شامل کیاگیا۔مرکزی ریاست والا افغانستان کہیں آٹھارویں صدی کے نصف میں احمد خان ابدالی کے دور میں بنا تھا۔جس کے 342 اضلاع ہیں تاریخی طور پراس میں سے صرف 80 اضلاع میں مرکزی ریاست کا براہ راست کنٹرول رہاہے۔صدیوں کی پسماندگی پر محیط آبادی کی اوسط عمر ابھی تک 45 سال کے فگر پر رکی کھڑی ہے۔خواندگی کا تناسب 28 فی صد ہے جبکہ خواتین میں یہ تناسب مزیدگھٹ کر صرف 9 فی صد رہ جاتا ہے۔اقوام متحدہ کی جائیزہ رپورٹ کے مطابق افغانستان دنیا میں افریقی ملک سری لون کے بعد دوسرا غریب ترین ملک ہے۔قانون کی حکمرانی اور ریاستی ڈھانچے کی کمی، امریکی،پاکستانی اداروں اور عربی دولت کے ساتھ مزہبی شدت پسندی نے افغانستان کو ہر نمونے کی لاقانونیت میں دھکیل دیا ہے۔ یہ ملک طویل مداخلت اور جنگ کے باعث افیون کی کاشت کے حوالے سے بنیادپرست تنظیموں اور حکومتوں میں شامل جنگجو حکمرانوں کیلئے جنت بنا ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دو دہائیوں کی پوشیدہ لڑائی کے باوجود طالبان کی عددی قوت 60 ہزار تک جا پہنچی ہے۔اتنے بڑے فوجی لشکر کی ضروریات اور خفیہ آپریشنز کے اخراجات کو کسی مستقل امدنی کے زریعے سے ہی ممکن بنایا جاسکتا تھا اور وہ خاص ذریعہ منشیات کی کاشت اور اس کی پیداوار کو بلاروک ٹوک عالمی منڈیوں تک اسمگل کرنا ہے ۔اقوام متحدہ کی 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال منشیات کی پیداوار پچھلے سال کی نسبت 37 فی صد تک بڑھی ہے۔اس خطے میں 71 فی صد منشیات کی پیداوار پاکستان سے ملحق علاقوں ہلمند اور قندھار میں پیدا ہوتی ہے۔جوکہ طالبان فورس کا مضبوط گڑھ ہیں۔اس وقت پاکستان میں 67 لاکھ افراد ہیروئن کے عادی ہیں۔جس میں مکران کے نوجوانوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔وجہ صاف ظاہر ہے ایک تو جنگ زدہ علاقوں میں منشیات کو پھیلایاجاتا ہے دوسرا جغرافیائی حساب سے منشیات کابین الاقوامی گزربھی ان کے سمندری ساحلوں سے ہوتا ہے۔اب کچھ اچھنبے کی بات نہیں رہی کہ کشتیوں کے ذریعے یہ منشیات افروایشائی ملک مصر، یورپ کے اٹلی،سری لنکاہ اور حتئی کہ مالدیپ کے سیاحتی مراکز تک کیسے پہنچ جاتی ہیں۔سرد جنگ کے اس اذیت ناک کھیل نے ہمارے خطے کو ایک دائمی عذاب میں مبتلا کر دیا ہے۔ایک طرف نوجوان نسل منشیات کی لت کا باوجوہ شکار ہورہی ہے دوسری طرف مزہبی شدت پسندی سرچڑھ کر بول رہی ہے۔ایک ایک جنازے پر لاکھوں افراد کا جم غفیر اکٹھا ہوجاتا ہے۔جنگی جنون اور مسلکی تصورات نے معاشرے کی ساخت کو اس حد تک مسخ کر دیا ہے کہ ایک ایک بچے کے لئے اسکول آنے جانے پرمنشیات فروشوں اور دہشت گردوں سے حفاظت کا انتظام کرنا پڑرہا ہے۔بلکہ اب تو شیرخوار بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے والے عملے کی حفاظت کیلئے بھی ریاست کو سیکیوریٹی کور دینا پڑ رہا ہے۔
اس کا دوسرا سنگین پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی معیشتوں کا کوئی بندوبستی ریکارڈ یعنی Documentation نہیں ہے۔ہر دو ممالک کالی دولت پر مبنی غیر بندوبستی معیشت چلارہے ہیں۔ملکی سیاست اور حال احوال غیرملکی امداد اور مالیاتی قرضوں کی عنوان کے گرد گھومتارہتا ہے۔سوشل میڈیا،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پورا پورا وقت نشر ہوتی ہوئی بے ہنگم مہنگائی پر نوحے پڑھ رہے ہوتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں سابق چئیرمین ایف بی آر سید شبر زیدی نے انکشاف کیا ہے کہ اس وقت پاکستان مالی لحاظ سے ڈیفالٹ کرچکا ہے۔ اقتصادی نقطہ نگاہ سے یہ ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جب کوئی ملک معاشی اعتبار سے اپنی آمدنی سے قرضوں کی اقساط اداکرنے کی سکت کھو دیتا ہے۔ اس وقت ملکی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں اپنی طاقت کو 179 تک گرا چکی ہے۔سعودی عرب نے 3 ارب ڈالر کیش بطور قرض دیا ہے جس کو خرچ نہیں کیا جاسکتا اور اس کو 120 ملین ڈالر سود سمیت کسی بھی وقت 72 گھنٹے کے نوٹس پر واپس کرنا ہو گا۔ادھر چین کے پچھلے سال کا 4.5 ارب ڈالر کا قرض سود سمیت واپس کرنا باقی ہے جوکہ سعودی عرب کے پہلے سال والے قرض کی ادائیگی میں کام آچکے ہیں۔ملکی قرضہ 50.5 ہزار ارب تک جا پہنچا ہے جس میں سے 20 ہزار ارب موجودہ دور میں بڑھے ہیں۔
ایسے میں عالمی معیشت دان حیران ہیں کہ ملک ایک طرف ڈیفالٹ کرچکا ہے۔دوسری طرف اقتصاد کے تمام اشاریئے ماسوائے ترسیل زر Foreign remittances منفی گروتھ دکھا رہے ہیں۔ مگر ترسیل زر کی نمو پچھلے سال کے مقابلے میں 26.9 فی صدکیسے بڑھ گئی ہے۔کرونا کی وبا کے باعث سعودی عرب نے ایک سال سے اپنی سرحدیں غیر ملکیوں کیلئے بندکر رکھی ہیں جہاں پر پاکستان کے سب سے زیادہ محنت کش کام کرتے ہیں۔خود سعودی عرب میں ان پاکستانی محنت کشوں کی تعداد 625876 سے گھٹ کر 223156 رہ گئی تھی۔وزیرخارجہ شاہ محمود نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ 4 لاکھ محنت کش مزدور واپس سعودی عرب پابندیوں کی وجہ سے نہیں جا سکے۔اوروہ پاکستان میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے راستے کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
اس سے ملتا جلتا منظر نامہ شمالی امریکہ کے ملک میکسیکو کا ہے۔جس کی سرحد امریکہ کی چار ریاستوں ٹیکساس، کیلیفورنیا، نیو میکسیکو اور ایروزینا (1848 تک یہ ریاستیں میکسیکو کا حصہ ہوا کرتی تھیں) سے ملتی ہے۔میکسیکو کی ایک طرف 15 سو مربع میل طویل سرحد ان ریاستو ں سے ملتی ہے جب کہ دوسری سمت 2 ہزار مربع میل کا عظیم صحرا ہے۔میکسیکو سٹی کی اپنی ابادی دوکروڑ نفوس سے تجاوزکرچکی ہے جہاں پر دنیا کا دوسرا بڑا منشیات کا مافیا رہتا ہے۔ان کے ہاں بھی قانوں کی حکمرانی غیب ہے جب کہ معیشت پر ڈرگ مافیاکا غالب اثر ہے۔اتفاق سے ان کے ہاں بھی آمدنی کا بڑا زریعہ ترسیل زر (foreign remittances) ہے ان کی منشیات اور ورک فورس کا دارومدار امریکہ پر ہی ہے۔اس سال ان کی بھی زرمبادلہ کی آمدنی ریکارڈ حد یعنی 30 فی صد تک بڑھی ہے۔اس کالی دولت نے ان تین ممالک میں سماجی و انتظامی ڈھانچے کو یکساں طور پر متاثر کیا ہوا ہے۔ ممتاز عالمی جیو پولیٹیکل پروفیسر رابرڈ ڈی کپلان اپنی تصنیف
“The Revenge of Geography “
میں رقم کرتا ہے کہ سویت یونین کی تحلیل کے بعد پاکستان اور افغانستان دونوں مرحلہ وار اپنا وجود کھوتے جائینگے۔ اور تاریخ واپس اپنی اصل حالت یعنی (Re-aliengment) پر آئے گی۔شاید یہی وجہ ہے کہ 23 ارب روپے سے بنی سرحدی باڑ کو طالبان فورسز بدنام زمانہ کھینچی ہوئی ڈیورنڈ لائن کو ناقابل قبول سرحدی تنازعہ کہہ کر اکھاڑ رہے ہیں۔
اسرائیل کے مشہور ناول نگار مسٹر ہلپرین (Helprin ) ،امریکی تھنک ٹینک کے مسٹر میراشمر (Merashimer) اور مسٹر پلر ( Pillar) امریکی دفاعی تجزیہ نگار، امریکہ کو 2007 اور 2009 سے مشورہ دیتے آ رہے تھے کہ امریکہ اس خطے میں بے مقصد اپنے وسائل خرچ کر رہا ہے۔ جبکہ چین آے روز اپنی دفاعی اور اقتصادی طاقت کو بڑھا رہا ہے۔امریکہ اگر پاکستان اورافغانستان میں استحکام لانے میں کامیاب ہوبھی جاتا ہے تو اس کا فائدہ براہ راست چین اٹھائے گا۔وہ ان سڑکوں اور ریاستی ڈھانچے پر اپنی تیل اور انرجی کی پائپ لائینیں بچھائےگا اور اپناصنعتی مال گزارے گا۔حتئی کہ اپنی دفاعی صلاحیت میں اضافے کے ساتھ افغانستان اور بلوچستان کی معدنیات اور سمندری وسائل پر تصرف جمائے گا۔لہزا اس جنگ زدہ بدامن ماحول کو اسی حالت میں چھوڑ دیا جائے۔ چنانچہ امریکہ نے بالاخر اس مشورے پر عمل کیا اور ہمارے ہزارمنتیں اور ترلے کرنے کے باوجود وہ اس تنازعے سے نکل گیا ہے۔ جبکہ سعودی عرب واپس روشن خیالی کی طرف لوٹ گیا ہے انہوں نے پاکستان اور افغانستان کو دہشتگردی کا گڑھ بنایا ـ اور خود حقیقی زندگی کی طرف لوٹ گئے ہیں اب کوئی مزہبی پیشوا فتوی جاری کرنے کی جرات بھی نہیں کرتا ہےجبکہ ایک لاکھ پاکستانی اور چالیس لاکھ افغان معصوموں کی روحیں فضاوں میں اپنے اپنے قاتلوں کو ڈھونڈ رہی ہیں۔
مغرب کے لوگ سیانے ہیں وہ اپنے مفادات کے تحفظ کا سب سے پہلے سوچتے ہیں ۔اس لیے منشیات اور دہشت گردی سے جڑی مالی اعانت کو روکنے کیلئے فیٹف FATF کے پلیٹ فارم کو دونوں ممالک کے خلاف ایک موثر ہتھیار کے طور پررکھ دیا گیا ہے۔ کیونکہ فیٙٹف FATF کو شک ہے کہ Foreign Remitances کی آڑ میں منشیات اور انتہاپسندی کے نیٹ ورک کو منی لانڈر کی جاتی ہے۔ اس وقت ان تینوں ممالک میں منشیات اور انسانی اسمگلنگ کا کاروبار عروج پرہے۔
مختصر یہ کہ سرد جنگ کو ختم ہوئے تیس سال ہوگئے ہیں۔دیوار برلن گر گئی۔وارسا معاہدہ ختم ہوگیا۔یورپ نے اپنا دفاعی اور جنگی بجٹ میں تخفیف کی۔روس تحلیل ہوگیا مگر اس سرد جنگ کی قیمت اس بدقسمت قوموں کی عوام بھگت رہی ہے۔ اس کے بھنور میں پھنسی خون آلودہ جنگیں دونوں ملکوں کی نسلیں تباہ کر رہی ہے۔ لگتا ہے معیشت تباہ ہوتی رہے گی اور سب سے بڑھ کر نوجوان نسل منشیات کا زہر اپنی زندگی میں گھولتی رہے گی۔یہ نہیں ہے کہ ریاست کو اس ڈرگ مافیاز کا ادراک نہیں ہے ۔ بلکہ حقیقت یہ کہ اس مقصد کیلئے اینٹی نارکوٹکس فورس کا ادارہ اور علیحدہ عدالتی نظام بھی موجود ہے۔جن کا نظم و نسق فوج کے حاضر سروس اسٹاف اور افسران سنبھالتے ہیں۔مگر مصیبتیں تنہا نہیں آتیں ملک کا ہر ادارہ ایک مخصوص بیانیئے اور گروہی ترجیجات کےگرد کام کرتا ہے۔ابھی پچھلے ہی سال قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے ایک ممبر رانا ثنااللہ کوہیروئن اسمگلنگ کرنے کے الزام میں گرفتار کیاگیا۔کچھ عرصہ جیل میں رکھنے اور مطلوبہ مقاصد کے حصول کے بعد رہائی بھی ملی اور خاموشی بھی ہو گئ۔حالانکہ منشیات کے مقدموں میں سزائیں سخت ہوتی ہیں جن میں ضمانتوں کی گنجائش تک نہیں ہوتی۔
راہنما وہ ہوتا ہے جو ہیمشہ دیوار کے اس طرف دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔اسی لئیے خان عبدالولی خان نے لیاقت باغ پنڈی کے ایک جلسے میں جنرل ضیا کو مخاطب ہوکر کہاتھا کہ ہم دونوں نے اپنا زیادہ ماضی گزارلیا ہے اب بہت تھوڑا مستقبل باقی ہے۔مگر جن انگاروں کو تم دہقا رہے ہو ان کے الاو سے کئی نسلیں جل کر راکھ ہوتی رہینگی۔
کیا کیا جائے دراصل ہمارا المیہ یہ بھی تو ہے کہ ہم تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے ۔