سرد جنگ کے خاتمے کا نقطۂ آغاز
اسّی کی دہائی میں سوویت یونین کے ٹوٹنے اور 1989ء میں دیوارِ برلن کے انہدام تک، دنیا سرد جنگ کے زیراثر تھی۔ عالمی اتحاد اور امن کی خواہش ایک دُور از خیال بات لگتی تھی۔ 1980ء کی سائنٹسٹ رپورٹ کے مطابق ایٹمی جنگ گویا سر پر کھڑی تھی۔ امریکہ اور سوویت یونین اب بھی ایٹمی ہتھیاروں کو ’’اپنی باہمی سلامتی کا ناگزیر حصہ‘‘ سمجھتے تھے۔ امریکہ اور سوویت یونین گویا "Nucleoholics" ہو چکے تھے، ایک کے بعد نئے ایٹمی ہتھیاروں کا ڈھیر لگاتے ہوئے، ایٹمی نشے میں مخمور۔
ایک سال بعد 1981ء میں افغانستان پر سوویت حملے اور سخت ایٹمی موقف نے ایٹمی جنگ کے خطرے کو مزید بڑھا دیا۔ درحقیقت اسّی کی دہائی کی ابتدا ہی ایٹمی جنگ کے منڈلاتے خطروں سے ہوئی۔ حالات مایوس کن تھے۔ امریکہ سوویت تعلقات اپنے سرد ترین نکتے پر پہنچ چکے تھے۔ باہمی مذاکرات تقریباً رک چکے تھے۔ سرد جنگ کے دوران، دونوں ممالک میں گفتگو کا ہر راستہ کم یا بالکل بند ہوچکا تھا، رابطے کی ہرصورت ختم ہوچکی تھی اور ہتھیاروں پر کنٹرول سے متعلق مذاکرات محض ایک پراپیگنڈا بن چکے تھے۔1984ء میں ایٹمی جنگ کے یہ خطرے سر پر منڈلا رہے تھے۔ درحقیقت 1986ء تک دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیاروں کی مجموعی تعداد اپنی آخری حد کو چھو رہی تھی۔مزید برآں، سوویت بلاک ممالک میں سپرپاور کی SS20 کی صف آرائی، مغربی یورپ میں امریکی پرشنگ میزائل، برطانیہ کی جانب سے آب دوزوں میں Trident میزائلوں کی تنصیب کے سبب ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف سڑکوں پر ہزاروں مظاہرین نکل آئے۔
1988ء تک معجزانہ طور پر امریکی صدر ریگن کے "Evil Empire"کے سخت موقف میں نرمی آئی۔ 1980ء کی دہائی کے آغاز سے امریکی صدر ریگن ایٹمی حملے کے آپشن پر بات کررہے تھے اور ’’سٹار وارز‘‘ کے نام سے معروف میزائل ڈیفنس شیلڈ جیسے پاگلانہ خواب دیکھ رہے تھے۔ برٹش مؤرخ ایرک Hobsbawm کا خیال ہے کہ 1970ء کی دہائی میں امریکہ کا شکست اور کھلے عام رسوائی کا تجربہ اس کے جنگی بخار، Apocalypse کے پاگلانہ بیانیے اور امریکی حکومت کے بے عقل بین الاقوامی رویے کا سبب بنا، خصوصاً امریکی صدر ریگن کے ابتدائی دورِحکومت میں (1980-1988)۔ امریکہ کی اس صدمے کی ذلت کے باعث کہ ’’دنیا کی سپر پاور‘‘ ویت نام کو شکست نہ دے پائی یا حتیٰ کہ تیسری دنیا کی کمزور حکومتوں کے کنسورشیم کا مقابلہ نہ کرپائی جنہوں نے 1973ء میں تیل کی رسد روک لی تھی یا ایران کو ہینڈل نہ کرپائی۔ لیکن 1980ء کی دہائی کے آخر میں کچھ معجزانہ طور پر تبدیل ہوگیا۔ اس غیرمتوقع واقعے میں امریکہ اور سوویت یونین نے ایٹمی طاقتوں کے تاریخی مصالحتی معاہدے پر دستخط کیے، ایسا پہلا معاہدہ جس میں کئی ایک ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری پر پابندی لگا دی گئی۔
یہ یادگار اور تاریخی ایٹمی معاہدہ گورباچوف اور ریگن نے آگے بڑھایا جس میں حتیٰ کہ یہ بھی شامل تھا کہ 2000ء تک تمام قسم کے ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی لگا دی جائے گی، اس پر 1987ء میں دستخط کیے گئے۔ سوویت صدر گورباچوف نے اسی سال 28جولائی تک افغانستان اور منگولیا سے تمام افواج باہر نکالنے کا بھی وعدہ کیا۔ برٹش مؤرخ ایرک Hobsbawm، سوویت صدر گورباچوف کے اس ایٹمی معاہدے میں پیچیدہ مگر مثبت کردار کی تعریف کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ریگن، امریکہ اور سوویت یونین کی Co-existence پر یقین رکھتے تھے لیکن ایسی باہمی موجودگی جو باہمی ایٹمی دہشت کے ناگوار توازن پر بنیاد نہ رکھتی ہو۔ اُن کا خیال ہے کہ سرد جنگ کا 1987ء میں خاتمہ ہوگیا تھا۔
سرد جنگ پگھلنے لگی تھی۔ امریکہ اور سوویت یونین دونوں ہی ہتھیاروں پر بجٹ اخراجات کے باعث اپنی معیشتوں کو تباہ کرچکے تھے۔ لیکن سوویت یونین اپنی کمانڈ سٹیٹ معیشت کے ساتھ امریکہ کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ تھا، نئی ٹیکنالوجیوں سے اور سوویت حلیفوں اور منحصرین کو ادائیگیوں کے سبب یہ اتنے بڑے قرض کو ویسے ہینڈل نہ کرپایا (امریکی قرض 3کھرب تھا) جیساکہ دنیا کا سرمایہ دارانہ نظام اسے بظاہر ہینڈل کرنے کے قابل تھا۔ سردجنگ ایک’’غیر مساوی جنگ‘‘ تھی، برابری کی نہ تھی۔ لیکن جہاں 1987ء میں امید کی کرن دکھائی دی، 1945ء سے 1980ء کی دہائی تک سپر پاورز ہتھیاروں کی بڑی رسد کے ذریعے ہی دوست جیتنے اور لوگوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتی رہیں۔ دنیا تباہی کے ہتھیاروں میں ڈوب رہی تھی۔ اور اب بھی ایسا ہی ہے!
اگرچہ دنیا ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد کو اب 15ہزار تک کم کرچکی ہے (1980ء کی دہائی کے پچاس سے ستر ہزار کے اعدادوشمار کے مقابلے میں)، یہ بھی 1980ء کی دہائی میں سائنس دانوں کے تصور کردہ "Nuclear Winter"ـ کو مہمیز دے سکتے ہیں۔ شہروں اور صنعتی علاقوں سے اٹھتے آسمان کو تاریک کرتے سیاہ دھوئیں کا قیامت کا سا منظر پوری زمین پر سورج کی کرنوں کو بلاک کر دے گا۔ یہ زراعت پر تباہ کن اثرات مرتب کرے گا، ہر جانب بلا روک ٹوک آتش زدگی شروع ہوجائے گی، تابکاری میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا، اور روزمرہ کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ایلن روبوک اپنی کتاب "Nuclear Winter, Climate Change" میں لکھتے ہیں، ’’ایٹمی دھماکے کا مطلب ہے، جیسے سیکنڈ سے بھی کم وقت میں سورج کا کوئی ٹکڑا ٹوٹ کر زمین پر آگرے۔ جیسے کوئی بڑی سی جلتی ہوئی دیاسلائی، جو شہروں اور صنعتی علاقوں کو بھسم کردے گی۔‘‘ نیوکلیئر سرما کا تصور، جیساکہ سکالرز نے تجزیہ کیا اور فلم سازوں نے تصور کیا ہے، 1980ء کی دہائی کے تخیل کو گرفت میں لاتے ہوئے ’’خوف ودہشت کی ثقافت‘‘ کا ایک اَن چاہا ورثہ ہے۔