آج دنیا بھر میں لاکھوں میل کی سڑکوں پر لکیریں نظر آتی ہے جو گاڑی چلانے والوں کی راہنمائی کرتی ہیں۔ گاڑی کی ایجاد کے بعد کئی دہائیوں تک سڑکوں پر کسی قسم کی لکیریں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ ٹریفک سیفٹی کی اپنی دلچسپ تاریخ ہے اور یہ لکیریں بھی اس سلسلے کی ایک ایجاد ہیں۔
سڑک پر نشان لگانے کی روایت ہمیں قدیم تاریخ میں نظر آتی ہے۔ سب سے پہلے نشان لگانے کا طریقہ ہمیں روم میں ملتا ہے۔ جب لوگوں کا زیادہ آنا جانا ہوا تو راستے پر لکیر لگائی گئی۔ البتہ یہ سمت کے لئے نہیں تھی بلکہ اس لئے کہ پیدل لوگ ایک طرف چلیں اور سوار دوسری طرف۔ سن 1600 میں رنگدار پتھروں سے نشان لگانے کا طریقہ ہمیں کئی جگہوں پر، خاص طور پر پُل پر دکھائی دیتا ہے۔
کس طرف چلنا ہے؟ اس پر بھی کسی قسم کا معیار بناتے ہوئے وقت لگا۔ انیسویں صدی میں بڑے علاقوں میں اس کا کوئی نہ کوئی معیار آ چکا تھا۔ اگرچہ یہ عالمی متفقہ سٹینڈرڈ نہیں تھا اور نہ کبھی بنا۔ قدیم دور میں ٹریفک بائیں طرف چلا کرتا تھا۔ خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ تلوار یا ہتھیار والا دائیاں ہاتھ سڑک کی طرف رہے۔ امریکہ میں اس کی روایت اٹھارہویں صدی میں طے ہوئی جو دائیں طرف ٹریفک چلنے کی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بڑی زرعی ویگن کو کنٹرول کرنے والا گھوڑوں کی ٹیم میں اپنا گھوڑا بائیں طرف جوتتا تھا۔ تا کہ دائیں ہاتھ سے چابک کے ذریعے گھوڑوں کو کنٹرول کر سکے۔ اس صورت میں ڈرائیور کے لئے آگے ٹریفک دیکھنا اس وقت آسان تھا جب ٹریفک اس کے بائیں طرف سے گزر رہا ہو۔ فرانس اور امریکہ میں “دائیں طرف رہو” کے قوانین 1792 میں منظور ہوئے۔
برطانیہ نے بائیں طرف ٹریفک کے چلنے کی قدیم روایت جاری رکھی اور یہ ہائی وے ایکٹ کا 1835 میں حصہ بن گیا۔ برطانوی کالونی بننے والی دنیا میں یہ روایت ابھی بھی تقریباً تمام ممالک میں ہے۔ لیکن ابھی تک ٹریفک لین کی نشاندہی کا طریقہ نہیں آیا تھا۔ اس کی ضرورت اس وقت تک نہیں پڑی جب تک تیزرفتار آٹوموبائل کی آمد نہیں ہوئی۔
گاڑیوں کے انقلاب میں امریکہ تاخیر سے شامل ہوا۔ پہلی چار پہیوں والی گاڑی یہاں پر 1896 میں بنی۔ گاڑیوں کی پیداوار یورپ میں ہوا کرتی تھی۔ یہ 1907 میں فورڈ کی آمد کے ساتھ تبدیل ہوا۔ فورڈ 1913 میں اسمبلی لائن لگانے والی پہلی صنعت تھی جس سے گاڑی کی تیاری پر لگنے والی محنت دسواں حصہ رہ گئی۔ فورڈ کی سیاہ رنگ کی ماڈل ٹی کی گاڑی پورے امریکہ میں پھیل گئی۔ (یہ رنگ سب سے جلد سوکھ جاتا تھا، اس کو بنانا سب سے تیزرفتار تھا)۔ گھوڑے، تانگے، بگھیاں بہت جلد ختم ہو گئے۔ اس قدر تیررفتاری سے کہ معاشرے کو تبدیلی سے ایڈجسٹ ہونے کا وقت نہیں ملا۔ امریکہ کی وسعت اور لمبے فاصلے یہاں پر اس کی اتنی جلد مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ بنے۔ سستی ہونے والی گاڑی اور نئی آنے والی خوشحالی کے سبب 1920 میں گاڑیوں کی تعداد فی ہزار آبادی میں 86 تک پہنچ چکی تھی۔ اسمبلی لائن کی وجہ سے ماڈل ٹی کی قیمت 825 ڈالر سے گر کر 1927 میں 290 ڈالر رہ گئی تھی۔
ان کی تعداد زیادہ، رفتار تیز اور پہنچ دور تک ہوتی گئی۔ ساتھ حادثات بھی۔ 1918 کے سال میں ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد دس ہزار تھی۔
وہ مسائل جن کا پہلے علم ہی نہیں تھا، وہ سامنے آنے لگے۔ ان کا حل ٹیکنالوجی بھی تھی اور قانون بھی۔ پہلی بار حد رفتار مقرر ہوئی۔ شہر میں 12 میل فی گھنٹہ۔ ہائی وے پر 50 میل فی گھنٹہ۔ انہی سڑکوں پر سامان بردار گھوڑا گاڑیاں بھی چلتی تھیں۔
سب سے پہلی بار روڈ سیفٹی کے ماہر ایڈورڈ ہائنز نے مشی گن میں سڑک پر 1916 میں نشان لگائے۔ یہ خیال انہیں ایک دودھ کا ٹرک دیکھ کر آیا تھا۔ اس کے ٹینک میں سے دودھ لیک ہو رہا تھا جس کی وجہ سے سڑک پر نشان پڑ رہا تھا۔ سڑک پر نشان کا آئیڈیا اب روڈ سیفٹی کا ایک مرکزی خیال ہے لیکن اس کو اپناتے ہوئے وقت لگا۔ ڈاکٹر جون مک کیرول 1917 میں اپنی گاڑی پر جا رہی تھیں کہ سامنے سے آنے والے ایک ٹرک کی وجہ سے انہیں گاڑی سڑک سے اتارنا پڑی۔ یہ وہ وقت تھا جب انہیں خیال آیا کہ ہائی وے کے درمیان لکیر ہونا ضروری ہے۔
جب مقامی چیمبر آف کامرس نے ان کے خیال میں دلچسپی ظاہر نہیں کی تو انہوں نے سڑک کے اس حصے کو خود ہی رنگ کر لیا اور اس کے بعد خطوط لکھنے کی مہم شروع کی تا کہ ریاستی حکومت کو اس کے سٹینڈرڈ بنانے پر قائل کیا جا سکے۔ بالآخر، اس تحریک کے نتیجے میں نومبر 1924 میں پہلی بار حکومتی فنڈ سے یہ کام کیا گیا۔
لیکن لکیر کیسے لگانی ہے؟ اس کے سٹینڈرڈ ابھی نہیں تھے۔ اس پر اتفاق 1930 میں ہوا اور پہلا مینوئل جاری ہوا جس میں سڑک پر نشانوں کا معیار مقرر کیا گیا تھا۔ کن سڑکوں پر لکیر لگانی ضروری ہے۔ اس کی موٹائی چار انچ طے ہوئی۔ اس کا رنگ زرد یا سفید طے ہوا۔
مسلسل لکیر جس کو کراس نہیں کیا جا سکتا۔ ٹوٹی ہوئی لکیر جس میں اوورٹیک کیا جا سکتا ہے۔ یہ معیار 1948 میں بنا۔ ٹوٹی ہوئی لکیر کا ایک مقصد رنگ کا خرچ بچانا تھا۔ ٹوٹی ہوئی لکیروں کے درمیان کا فاصلہ کتنا ہونا ہے؟ یہ معیار 1978 میں بنا۔
دنیا کے دوسرے ممالک میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد گاڑیاں زیادہ مقبول ہونا شروع ہوئیں۔ 1950 کی دہائی تک دنیا بھر کے بڑے شہروں میں پٹرول انجن ٹرانسپورٹ کا بڑا ذریعہ بن چکے تھے۔ اسی دہائی میں ہر جگہ پر جلد ہی سڑکوں پر لکیروں والا سسٹم اسی طریقے سے اپنا لیا گیا جس سے ہم آج واقف ہیں۔ آج دنیا میں کہیں پر بھی چلے جائیں، روڈ سیفٹی کا یہ طریقہ ویسے ہی ملے گا۔
نئی ٹیکنالوجی آنے کے بعد اس کے بحفاظت استعمال کے قوانین بننے میں وقت لیتے ہیں۔ اور جب بن جائیں ۔۔۔ تو پھر لگتا ایسا ہے کہ بھلا کیا کبھی دنیا ان کے بغیر بھی ہوا کرتی تھی۔ وہ جو واضح ہے۔۔۔ اپنے واضح ہونے میں وقت لیتا ہے۔
ان لکیروں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ تھوڑے سے لوگ اپنے کسی اچھے آئیڈیا پر اصرار کرتے رہیں اور اس کے لئے کام کرتے رہیں تو یہ سب کے لئے بہت سا فرق ڈال سکتے ہیں۔ ڈاکٹر مک کیرول نے سڑک کے جس حصے پر رنگ کیا، آج وہ سڑک انہی کے نام پر ہے۔ اس کا نام ڈاکٹر جون مک کیرول میموریل فری وے ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...