سرائیکی زبان دنیا کی ایک پرانی زبان ہے ۔یہ وسطی پاکستان میں بولی جاتی ہے ۔اس کے علاوہ یہ دنیا کے کئ اور ممالک میں بھی بولی جاتی ہے۔ یہ انڈو آریاءی خاندان سے تعلق رکھتی ہے ۔ لیکن اس کی بنیادوں میں قدیم افریقی زبان کے ساتھ منڈرای اور دراوڑ زبانوں کے اثرات بھی ہیں۔ اس زبان میں خصوصی طور پر پانچ درآمدی آوازیں ہیں جو سندھی کے علاوہ کسی دوسری ہند آریاءی زبان میں نہیں ملتیں۔مثلا ٻ۔ڄ ۔ڳ۔ݙ۔ݨ وغیرہ. یہ زبان شا عری کے حوالے سے بہت امیر ہے ۔خواجہ فرید اس زبان کا بڑا شاعر ہے۔ اس طرح نثر میں بھی بہت سرمایہ موجود ہے۔سرائیکی لفظ کے اشتقاق کے متعلق کافی متضاد تحقیقات ہیں۔ سرائیکی لفظ سنسکرت کے سؤوِریا سے بنا ہے جو قدیم ہند میں ایک سلطنت تھی جس کا ذکر ہندوؤں کی مقدس کتاب مہا بھارت میں بھی ہے۔ کی کا لاحقہ لگانے سے یہ لفظ سؤوِریاکی بن گیا۔ اس کے بعد بولنے کی آسانی کے لیے و کی آواز ہٹا دی گئی جس لفظ سرائیکی بنا دیا گیا۔ اس کے علاوہ جارج ابراہم گریسن نے لفظ سرائیکی کو سندھی کے ایک لفظ سِرو کی بگڑی ہوئی یا سدھری ہوئی شکل بتایا جس کے معنی شمالی کے ہیں کرسٹوفر شیکل نے جارج ابراہم گریسن کی تحقیق کو غلط کہا ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق سرائیکی لفظ سرای سے بنا ہے۔سرائیکی زبان اپنے اندر پائی جانے والی فصاحت اور بلاغت کے علاوہ اپنے مخصوص حروف ابجد کی بناء پر دنیا کی شاید مکمل ترین زبانوں میں سے ایک ہے ۔ اس زبان کی واحد انفرادیت کہ تلفظ کے معاملے میں سرائیکی بولنے والے دنیا کی ہر زبان کو اس کے اصل تلفظ کے ساتھ ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں جبکہ غیر سرائیکی سوائے سندھیوں کے سرائیکی کے متعدد الفاظ اصل تلفظ کے ساتھ ادا نہیں کرسکتے۔
مزید سرائیکی زبان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ پشتو ، بلوچی، اور سندھی لوگوں کی جڑواں زبان ہے ، یہ تمام لوگ اپنی مادری زبانوں کی طرح سرائیکی زبان پر بھی سرائیکیوں کی طرح مکمل عبور رکھتے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح ان کی مادری زبان ہے۔
بے شمار خصوصیات اور کثیر تعداد میں سرائیکی بولنے والے آج تک اپنی شناخت اور حقوق سے یکسر محروم ہیں، نصف صدی سے جاری نظریاتی اساس پر قائم تحریک ابھی تک اپنی منزل مقصود سے کوسوں دور ہے ۔ بنیادی وجہ ہمیشہ سے قیادت کا فقدان رہا سرائیکی زبان ایک بۂت بڑی ادبی ورثے کی مالک ھے اس میں دینی ادب، شاعری ،لسانیات ،افسانہ ، ڈرامہ، خاکہ، انشائیہ، ناول، تحقیق، تنقید، تاریخ، ثقافت، نثری ادب، سیاسی ادب، لوک ادب، فریدیات، مشاعرے اور صحافت کے حواے سے بیش بہاخزانہ مجود ھے اس زبان کا علمی وادبی ذخیرہ صدیوں پر محیط ھے پہلے یہ ذخیرے سینہ بہ سینہ منتقل ھوتے رھے طباعت کی سہولتیں آنے کے بعد یہ ذخیرہ محفوظ کر لیا گیا ھے.
سرائیکی زبان کے رسم الخط کا سافٹ وئیر کمپوٹر کمپوزنگ کے لیے موجود ھے سرائیکی خطے میں بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں سراۂیکی ایریا سٹدی سنٹر سراۂیکی خطے کی ثقافت کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کر رہاھے سنٹر کے شعبہ سراۂیکی میں ایم فل کی کلاسیں شروع ھو گۂی ھے اور اس کے ساتھ بی ایس 4 سالہ پروگرام اور ایم اے سراۂیکی میں کلاسیں جاری ھے اور اب تو سراۂیکی مضمون کو مٹیرک انٹیر اور بی اے میں اختیاری مضمون کے طور پر پڑھیا جا را ھیں اس کے ساتھ سراۂیکی ایریا سٹدی سنٹر خطے کے سیاحتی مقامات کو دنیا بھر میں نمایاں کرنے کے لیے ایک تحقیقی پراجیکٹ مکمل کر چکا ھے پورے سراۂیکی وسیب کے سیاحتی مقامات کی تاریخی اور ثقافتی سیاحتی اہمیت کواجاگر کرنے کے سلسلے میں ویڈیو ڈاکو منٹری فلمیں بناۂی جائیں گی
سراۂیکی زبان بولنے والے نہ صرف پاکستان میں مجود ھیں بلکہ ہندوستان افغانستان اور وسط ایشیاءکے کۂی علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ھیں