"سرائیکی زبان پنجابی کا لہجہ نہیں "
نامور ماہرِ اثری باقیات مرزا ابنِ حنیف نے اپنی کتاب ’’ سات دریاؤں کی سرزمین ‘‘ میں ایک لوح کی دریافت کا زکر کیا ہے جو ملوہی زبان میں ہے(جو موجودہ سرائیکی ہے) ماہرین اس لوح کا زمانہ ۲۳۳۴ ق م سے ۲۱۹۳ ق م قرار دیتے ہیں ۔ اس ابتدائی سو میری دور کی لوح کی دریافت کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ برّ صغیر کی کسی بھی زبان کے بارے میں تقریباً چار ہزار سال پہلے کا سب سے قدیم مستند حوالہ ہے ۔ اسی طرح قدیم وادئ سندھ کا رسم الخط اور قدیم ملتانی رسم الخط کے حروف اور اشکال میں جو مماثلت اور اشتراک ہے وہ سرائیکی وسیب کے وسیع لسانی جغرافیے کی تائید کرتا ہے ۔ علاوہ ازیں ملتانی اور دراوڑی کھنڈرات سے برآمد شدہ رسم الخط کی مہروں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ موہن جودڑی اور ملتانی خط اشاراتی زبان سے ترقی کر کے ہِجّائی حروف اور تصویری دور میں داخل ہو چکے تھے اور بقول ڈاکٹر مہر عبدالحق یہ دکن سے برآمدہونے والے نشانات سے حیرت انگیز طور پر مشابہہ تھے ۔
ماہرینِ لسانیات ، وادئ سندھ میں آریاؤں کی آمد سے قبل تین بڑے لسانی خاندانوں کا ذکر کرتے ہیں ۔ پہلا پہاڑی زبانیں یعنی تبّتی اور برمی ، دوسرا منڈاری گروہ اور تیسرا دراوڑی زبانیں ۔ سرائیکی زبان کے دراوڑی زبانو ں سے رشتے کی ایک انمٹ بنیاد وہ پانچ سے سات اضافی صوتیات ہیں جو ابھی تک برّصغیر کی صرف دو زبانوں سندھی اور سرائیکی میں موجود ہیں اور جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں زبانوں نے ابھی تک اپنے دراوڑی مزاج اور لسانی ڈھانچے کے ساتھ رشتہ کو برقرار رکھا ہے اور ہزاروں برسوں سے اس امتیاز کی امین ہیں
پھر روئے زمین کے اس حصّے پر تاریخ ایک اور کروٹ لیتی ہے اور یہاں عظیم وادئ سندھ کے زوال کے بعد ۱۵۰۰ ق م میں آریائی دور کا آغاز ہوتا ہے ۔ اسی عہد میں آج سے تقریبًا پونے چار ہزار سال پہلے دنیا کا قدیم ترین ’’ ویدک ادب ‘‘ تخلیق اور مرتب ہوا۔تاریخ کا حُسن اتفاق دیکھیے کہ ’’ ویدک ادب ‘‘ کی سب سے قدیم اور پہلی دستاویز ’’ رگ وید ‘‘ میں صرف بہاول پور کی وادئ ہاکڑہ اور وادئ ستلج کے دریاؤں ’ ہاکڑہ ‘ جسے آریاؤں نے عقیدت سے سرسوتی کا نام دیا ۔ شتادرو یعنی ستلج ، بیاس یعنی و پاش اور سندھ ساگر کا نہ صرف تواتر سے ذکر ہے بلکہ ان دریاؤں کی تعریف و توصیف کے قصیدوں سے رِک ویدبھرا ہوا ہے ۔ اس لیے ویدک ماہرین کا خیال ہے کہ آج سے پونے چار ہزار سال پہلے تخلیق ہونے والا دنیا کا نایاب ادبی ورثہ بہاول پور کے انہی دریاؤں کے کناروں پر تخلیق ہوا ۔
ویدک ادب کی جرمن ماہر خاتون میڈم راگوژن جن کی تحقیقی کتاب ’’ ویدک ہند ‘‘ ۱۹۲۳ء میں جامعہ عثمانیہ دکن میں ترجمہ اور شائع ہوئی، لکھتی ہیں ۔
’’ اس مقام کو پنجاب قرار دینا درست نہیں بلکہ یہ وہ مرکزی علاقہ ہے جہاں ایک طرف شتا در و یعنی ستلج بہتا تھا تو دوسری طرف سندھو اور تیسری طرف سرسوتی یعنی ہاکڑہ تھا ۔ ‘‘
اسی طرح یہ مقام بہاول پور کا صحرائے چولستان ثابت ہوتا ہے اور یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہے کہ ایوبی دور کے ون یونٹ سے پہلے بہاول پور کبھی بھی پنجاب کا حصّہ نہیں رہا
گوپی چند نارنگ معروف اردو نقاد تھے دہلی کے. لکھتے ہیں سرائیکی تمام زبانوں کی ماں ھے.یہ ملوہی ھے جسکا نام اب سرائیکی ھے.سرسوتی دیوی کی زبان سرائیکی تھی جو دریائے سرسوتہ جو قلعہ کنہ قاسم باغ ملتان کے پہلو میں بہتا تھا دو ہزار قبل کا سوکھ چکا ھے.اسکا نام سرسوتی دریا تھا بڑے پانیوں کی ماں جسے پوجا جاتا ھے.سرسوتی زبان ملوہی ھے ملوہی سرائیکی کو کہتے ہیں.
گورمکھی کی تاریخ چھ سو سال پیچھے جاؤ تو گم ہوجاتی ھے.
رام کی سوتیلی ماں جھنگ اور ملتان کی رانی رہی ۔۔ ان کا نام سومترا تھا ۔ رامائن کے مطابق راجہ رام کو سومترا کی وجہ سے ہی بنواس ملا ۔۔یہاں یہ بات قابل ذکر اور قابل غور ہے کہ ان کے ادوار کو ککئی راج یا پراکرت زبانوں کی تہذیب یا ادوار کے نام سے یاد کیا جاتا تھا جنھیں خوامخواہ ہی سنسکرت سے جوڑ دیا جاتا ہے، مگر یہ غلط روایات ہیں،۔ اسی بناء پہ اکثر مؤرخین مغالظے میں رہے جبکہ ایسا حقیقتاً نہیں ہے ۔۔سومترا سابقہ ملوہی موجودہ سرائیکی زبان بولا کرتی تھیں ۔یہاں تک کہ ہندو دھرم میں دیوی مانے جانے والی سرسوتی کی عام زبان بھی سرائیکی رہی ۔ تاریخی شواہد موجود ہیں کہ ملتان قلعہ کے پاس ایک دریاء بہتا تھا جس کے کنارے سرسوتی پوجا کیا کرتی تھی ۔ پھر وہی دریاء سرسوتی کے نام سے منسوب کر دیا گیا جو کہ آج سے تقریبا دو ہزار برس قبل سوکھ چکا ہے ، بعض مؤرخین نے اسے دریائے ہاکڑہ بھی کہا ہے ، بعض نے سرسوتی کو الگ دریا کہا ہے۔
سرسوتی الگ دریا تھا کیونکہ کسی وقتوں میں سندھ سات پانیوں والی زمین کو کہا جاتا تھا ۔ جو کہ پنجند میں گرتے تھے جبکہ ہاکڑہ تہذیب بہاولپور راجھستان کے چند علاقوں پر مشتمل تھی جو کہ اپنی مثال آپ تھی خیر ایسے میں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ ہاکڑہ بہہ کر ملتان آئے اور پھر پلٹ کر پنجند جبکہ ہاکڑہ کے پلٹنے کے آثار نہیں ملتے ۔سکندر اعظم کی تاریخ میں بھی یہ الفاظ واضح طور پر درج ہیں کہ اسے سندھ پہ قبضہ جمانا تھا جو کہ دریاؤں کی زمین ہے جہاں کی مٹی زرخیز ہے ۔ فصلیں اناج عام ہے ۔ لوگ خوشحال ہیں ۔خیر قصہ مختصر براہمنیت کی خود ساختہ تہذیب نے زبانوں تہذیبوں اور ثقافتوں میں بہت زیادہ ابہام پیدا کر دیئے ۔ پراکرت ککئی راج جیسی اساطیری داستانوں کو جب میں غور سے دیکھتا ہوں یا پڑھتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ مؤرخین اساطیری قصہ جات سے بہت زیادہ استفادہ حاصل کرتے نظر آئے ۔۔
بحرحال ایک بات تو ضرور ثابت ہے کہ یہاں سنسکرت پراکرت کا دور کبھی نہیں رہا، جو تھا وہ ملوہا تھا ملوہی تہذیب اور ملوہی زبان تھی ، مطلب موجودہ سرائیکی زبان۔۔ دلیل کے لیے ایک بات اور قابل غور ہے کہ ہندؤں کی ایک اور معتبر کتاب مہابھارت میں واضح طور پر سرائیکی قوم اور زبان کے اشارے ملتے ہیں ۔۔ مہابھارت وہ مشہور جتگ ہے جس میں ارجن پانڈؤں کے ساتھ لڑے ، دوسری دلیل میرے مطابق یہ ہے کہ موہنجوداڑو تہذیب کی زبان بھی سرائیکی ہی تھی کیونکہ ہڑپہ کا دور اور موہنجوداڑو کا آخری دور ایک ہی وقت میں رہا ۔ پھر ہڑپہ کا فاصلہ ملوہا سے زیادہ نہیں ۔ اب یہ اتفاق ہے یا دونوں تہذیبوں کا ایک دوسرے پہ اثر کہ ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی تہذیبوں میں ماحول معاشرہ کلچر رہن سہن ذریعہ معاش عمارتوں کی تعمیر تقریبا ً ایک جیسی ہے ۔۔ ایسے میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ دونوں تہذ یبوں کی ایک ہی زبان رہی پھر دونوں تہذیبوں کے تعلقات چاہے وہ سیاسی تھے معاشی مطلب تجارتی تھے بہت قریبی رہے ۔
اسی بناء پہ ان کے درمیان باہمی تعلقات تاریخی لحاظ سے تحقیق کرنے والوں کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔پھر موہنجوداڑو لاڑکانہ کے قریب ہے ۔ لاڑکانہ میں آج بھی سندھی زبان کم سرائیکی ز یادہ بولی جاتی ہے یعنی سرائیکی زبان کے قدیم الفاظ کی آمیزش بہت زیادہ ہے ۔۔ پھر اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی لاڑکانہ کی وہی زبان کیسے؟۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے کہ موہنجوداڑو کی باقیات آس پاس چھپ گئیں اور اپنی زبان نہیں بھولیں ۔ جو کہ آج بھی نسل در نسل سلسلہ جاری ہے بالکل ویسے ہی جیسے ملوہا، مول استھان، مولتھان ، مولتان اور اب ملتان ۔۔۔مگر زبان وہی قدیم ملوہی جدید سرائیکی
حوالا جات ۔
تاریخ ہندوستان ۔ شنکر ترپاٹھی ۔
پٹک ۔ گوتم بدھ ۔
ارتھ آف سیون ریورز ۔
تاریخ فریڈ گوٹی
(اس مضمون کا کچھ حصہ میاں زبیر پنوار اور کچھ حصہ نصرخان ناصر کے مضمون سے لیا گیا ہے)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔