سرائیکی وسیب کے عظیم گلوکار سئیں پٹھانے خان کی بیسویں برسی آج عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے۔ 1926ء کو تبو والا نزد سنانواں، کوٹ ادو میں پیدا ہونے والے استاد پٹھانے خان کا اصل نام غلام محمد تھا۔ آپ نے 16 سال کی عمر میں ملتان کے استاد امیر خان سے موسیقی سیکھنی شروع کی۔ بارہ بارہ گھنٹے روزانہ ریاض کرتے رہے جس کے نتیجے میں بے پناہ مقبولیت پائی۔ صدارتی تمغہ حسن کارکردگی بھی ملا. آپ کی وفات 9 مارچ 2000ء کو ہوئی.
کوٹ ادو کی ایک بستی میں انتہائی غربت کی زندگی گزارنے والا یہ فن کار دل کا بہت امیر تھا. پی ٹی وی پر ریکارڈنگ کے دوران جو معاوضہ ملتا، یہ دریا دل درویش بیشتر کمائی وہیں دوستوں اور مداحوں پر لٹا کر جاتا تھا۔ یونیورسٹی کے نوجوان ان کی خدمت کی کوشش کرتے لیکن وہ کینٹین پر پورا بل، اصرار کے ساتھ یہ کہہ کر خود ادا کرتے کہ آپ تو میرے بچے ہیں.
1976ء میں پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایوان وزیر اعظم اسلام آباد میں پٹھانے خان کے اعزاز میں محفل سجائی۔ پٹھانے خان نے عارفانہ کلام سنایا، خواجہ فرید کی کافی ’’میڈا عشق وی توں‘‘ باربار سنتے رہے۔ اس موقع پر بھٹو صاحب نے کہا، پٹھانے خان! کوئی خدمت بتاؤ، کچھ بھی چاہئیے بتاؤ۔ پٹھانے خان نے کہا ’’سئیں میں اپنے لئے کچھ نہیں مانگتا، بس میرے وطن کے غریبوں کی پارت ہو، میرے وسیب کی پارت ہو ‘‘
ایک محفل کے دوران کسی زاہدِ خشک نے پٹھانے خان سے سوال کیا: موسیقی حلال ہے یا حرام؟ خان صاحب نے ہاتھ جوڑ کر انتہائی انکسار سے جواب دیا: "سائیں ایہہ کم عالماں دا ہے جو ایں سوال دا جواب ڈیون، میں ہِک اَن پڑھ جیہاں بندہ بس ایہو جانڑداں جو موسیقی حلالیاں واسطے حلال اے اتے