"فوک موسیقی کا ایک عہد" اللہ دتہ لونے والا "کے ساتھ مکمل ہوا" سرائیکی موسیقی کے آسمان پر چمکتا ایک اور ستارہ افق میں ڈوب گیا ہے۔سرائیکی موسیقی کو بام عروج بخشنے والے چند ابتدائی نامور لوگوں عطاء اللہ عیسی خیلوی ، منصور علی ملنگی،طالب حسین درد ،احمد خان ملنگ ،استاد پٹھانے خان میں شامل استاد اللہ دتہ لونے والا بھی سرائیکی اور پنجابی موسیقی کا ایک عہد تھے جو آج اپنے اختتام کو پہنچا ہے۔
اللہ دتہ لونے والا عہد حاضر کے نامور اور نوجوان گلوکار ندیم عباس لونے والا کے والد محترم تھے۔ اللہ دتہ لونے والا تھل کے شہر چنیوٹ کے نواحی گاؤں بک نمبر 131لونے والا میں پیدا ہوئے ،کم سن تھے کے والد محترم کا انتقال ہو گیا۔زمانہ طالب علمی میں ہی سکول سطح پر ترانہ پڑھتے،ملی نغمے ،نعت شریف ،گیت وغیرہ پڑھنا ان کا معمول بن چکا تھا۔گھر کے سربراہ نے بچے کا شوق دیکھا تو اے تلونڈی گھرانے کا شاگرد بنا دیا ۔یوں اللہ دتہ لونے والا نے استاد حفیظ احمد خان،شعافت علی خان،میاں طالب حسین اور استاد نصرت فتح علی خان کے کسب فیض حاصل کیا۔اساتذہ کی توجہ اور محنت کا اثر تھا کہ میٹرک سے قبل ہی ان کا پہلا البم سرائیکی زبان میں مارکیٹ میں آگیا تھا ۔
ان کی گائیکی کا ایک خاصہ یہ بھی تھا کہ انہوں نے عابد تمیمی (تھہیم)کے لکھے ہوئے سسی کے دوہڑوں کو ایسے شاندار انداز میں گایا کہ وہ دوہڑے اورسسی کی داستان انہی کہ وجہ سے زبان زد عام ہوگئے۔ بتایا گیا ہے کہ گھر کے سربراہ ہونے کے ناطے باپ کی وفات کے بعد گھر اور خاندان کی ذمہ داری کا بوجھ اللہ دتہ کے کاندھوں پہ آیا تو انہوں نے موسیقی کو بطور پروفیشن اپنا لیا اور ساتھ گاؤں چھوڑ کر چنیوٹ شہر سکونت اختیار کر لی۔اور موسیقی کو ہی اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔تقریبا 150سے زائد البم سرائیکی ،پنجابی زبان میں ریلیز کیے۔
1997ء میں غالبا لاہور منتقل ہو گئے جہاں بچوں کی تعلیم پر توجہ دینا شروع کی۔ مجھے یاد ہے جب عطاء اللہ عیسی خیلوی کے عیسی خیلوی ریکارڈنگ اسٹوڈیو کا افتتاح ہوا تو سب سے پہلی کیسٹ جو ریکارڈ کی گئی تو وہ استاد اللہ دتہ لونے والا کا میوزک البم "رت رنگیلڑی آئ ہے وطن تے آء ڈھولا" تھا جس کے گیتوں" دوروں دوروں نیناں دی چس ذرہ چس ذرہ لینڑ دے"زبان زد عام ہوئے تھے پہلی بار اللہ۔دتہ لونے والا کو۔جدید میوزک کے ساتھ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس سے قبل ان کاسرائیکی گیت "زلفاں سجنڑ دیاں کالیاں"شہرت کے ریکارڈ قائم کرچکاتھا۔بعد ازاں ان کے دیگر گیتوں "چنگا دلبر پیار کیتوئ"دودو تھاں تے پیار وی چنگے ہوندے نئیں"کوئ ڈسو ہا سجنڑ دا حال"پیار نال پیار دا جواب ہونڑا چاہیدا"نے ان کی شہرت کو مزید چار چاند لگائے۔
اللہ دتہ لونے والا کو پی ٹی وی نے باقاعدہ طور پر ریکارڈ کیا اور متعدد پروگرامز کیے۔ اللہ دتہ لونے والا ذاکر اہل بیت بھی تھے اور محرم الحرام کے دنوں میں مجالس میں نوحہ خوانی بھی کرتے تھے۔ سرائیکی وسیب سمیت پنجاب بھر کے میلے ٹھیلے ان کی گائیکی کے بغیر ادھورے ہوتے تھے۔پنجاب کے تھیٹرز کے عروج میں تھیٹرز میں موسیقی پیش کیا کرتے تھے بتایا جاتا ہے کہ جس تھیٹرز میں پرفارم کرتے تھے ہاؤس فل کی ضمانت ہوتے تھے۔ میری ان سے یاد اللہ کروڑ لعل عیسن کے چودھویں میلے سے شروع ہوئ۔سابق تحصیل ناظم سردار سجاد خان سیہڑ سے ان کی بے پناہ دوستی تھی۔سجاد خان بھی موسیقی سے نہ صرف لگاؤ رکھتے ہیں بلکہ اچھا گا بھی لیتے ہیں۔ پھرجب میں لاہور گیا تو شوبز رپورٹر کی حیثیت سے متعدد ملاقاتیں رہیں۔
ملک کے نامور ریکارڈسٹ بخشید جوئیہ جو عیسی خیلوی اسٹوڈیو میں ریکارڈسٹ تھے ان کے پاس اکثر وقت گزرتا تھا ندیم عباس تب میٹرک کا طالب علم تھا وہیں ندیم عباس اکثر موجود ہوتے ان دنوں ندیم عباس گمنام تھے قوالیوں پر مشتمل ان کا کیسٹ ریکارڈ ہو رہا تھا ۔اللہ دتہ صاحب تشریف لائے تو ناچیز نے مشورہ دیا کہ اسے سرائیکی گیت ریکارڈ کرائیں۔
انہی دنوں عطاء محمد نیازی داؤد خیلوی کی آواز میں اعجاز تشنہ کا لکھا ہوا گیت "ماڑا ہے ماڑا سہی "مشہور ہورہا تھا ۔اور وہی گیت بعد ازاں ندیم عباس کی شناخت بن گیا۔ اللہ دتہ لونے والا کے دو انٹرویو میں نے کیے جن میں سے ایک روزنامہ پاکستان لاہور کے شوبز پیج پہ شائع ہوا دوسرا روزنامہ اوصاف اسلام آباد میں شائع ہوا۔ ان انٹرویوزکی تفصیل جلد ہی پیش کروں گا۔ بہر حال اللہ دتہ لونے والا عاجزی،انکساری،محبت،خلوص کا پیکر تھے۔شوگز کے مرض میں مبتلا ہوئے تو عارضہ دل تک پہنچ گیا۔گزشتہ شام کو وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔ سرائیکی پنجابی موسیقی کا ایک عہد تھا متعدد نشیب و فراز کے ساتھ کامیابیوں سے ہم کنار ہوکر مکمل ہوگیا۔ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائیں اور جوار رحمت میں جگہ عطافرمائیں