تین زبانوں میں ٹی وی ڈرامہ سیریل لکھنے والی مصنفہ
سرائیکی ادب کی خاتون اول
ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار پروفیسر مسرت کلانچوی سے گفتگو
پروفیسر مسرت کلانچوی ٹیلی ویژن اور ریڈیو کی ممتاز ڈرامہ نگار، سرائیکی کی نامور افسانہ نویس مصور اور ماہر تعلیم ہیں۔ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ 1976ء میں شائع ہونے والا سرائیکی زبان میں افسانوں کا سب سے پہلا مجموعہ ’’ اُچی دھرتی جِھکا اسمان‘‘ انہی کا تھا۔ اس لیے انہیں سرائیکی ادب کی خاتون اول کہا جاتا ہے۔ انسانی نفسیات، احساسات، جذبات اور معاشرتی رویوں کا باریک بینی سے جائزہ مسرت کلانچوی کے افسانوں کی نمایاں خصوصیت ہے۔ ان کے افسانوں کے موضوعات یوں تو متنوع ہیں لیکن ان میں زیادہ تر سرائیکی علاقے کی عورت محرومیوں اور فرسودہ رسوم و رواج کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مسرت کلانچوی کے ریڈیو، ٹی وی ڈراموں کے مرکزی کردار بالعموم ایسی باہمت خواتین ہیں جو حالات سے نبرو آزما ہونے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔
پروفیسر مسرت کلانچوی کے افسانوں کے دس زبانوں میں ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے دنیا کو پاکستانی ادب سے متعارف کرانے کے لیے وارث شاہ اور علامہ اقبال سے لے کر زمانہ حال تک کے پاکستانی ادیبوں کی تحریروں کا جو نمائندہ انتخاب انگریزی، فرانسیسی، جرمن، رشین، سپینش، عربی اور فارسی میں شائع کیا اس میں مسرت کلانچوی کا افسانہ بھی شامل تھا۔ بھارت اور انگلینڈ میں شائو ہونے والے پاکستانی افسانہ نگار خواتین کے منتخب افسانوں کے انگریزی تراجم کے مجموعوں میں بھی ان کے افسانے شامل کیے گئے۔
پروفیسر مسرت کلانچوی کا تعلق بہاولپور کے ایک ممتاز علمی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد پروفیسر دلشاد کلانچوی ایک ماہر تعلیم اور ستر کے قریب علمی اور ادبی کتابوں کے مصنف تھے۔ پروفیسر مسرت کلانچوی گورنمنٹ فاطمہ جناح کالج برائے خواتین لاہور میں شعبہ تاریخ کی صدر اور ویمن سٹڈیز ایپارٹمنٹ کی انچارج رہیں۔ وہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے بورڈ آف سٹڈیز (سرائیکی) کی رکن بھی رہ چکی ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج برائے خواتین گلشن راوی لاہور کے پرنسپل کے بھی فرائض انجام دئیے۔ آج کل اپنے مصوری کے شوق پر زیادہ توجہ دے رہی ہیں۔ پروفیسر مسرت کلانچوی سے ہونے والی ملاقات کی روداد نذر قارئین ہے۔
ادیبہ اور ڈرامہ نگار پروفیسر مسرت کلانچوی نے بتایا ’’مطالعہ اور لکھنے کا شوق بچپن میں ہی پروان چڑھا۔ میں نے کہانیاں سوچنا اس وقت شروع کر دیا تھا جب لکھنا تو کیا پرحنا بھی نہیں سیکھا تھا۔ میری والدہ رات کو سونے سے پہلے مجھے شہزادیوں، پریوں اور بادشاہوں کی کہانیاں سناتی تھیں۔ کہانی سن کر میں ان سے سوال کرتی تھی کہ شہزادی کی تو شادی ہو گئی اس کی سہیلی نوکرانی کی بیٹی کا کیا بنا؟ جس درباری کو بادشاہ نے مروا دیا اس کے بال بچوں کا کیا بنا ہو گا؟ وغیرہ وغیرہ۔ میرے والد کی لائبریری میں بچوں کے لیے بھی کتابیں تھیں۔ میں بچوں کے رسالے شوق سے پڑھتی تھی۔ پانچویں جماعت میں کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ بچوں کے رسالے ’’تعلیم و تربیت‘‘ کے ’’نھے ادیب‘‘ کے حصے میں میری کہانی مقابلے میں اول یا دوم آتی۔ جب میں پہلی جماعت میں تھی تب ’’ننھے مصور‘‘ میں میری بنائی تصویریں بھی چھپتی تھیں۔ میں نے ساتویں جماعت میں ہی اشفاق احمد، عصمت بانو قدسیہ، کرشن چند، منٹو، چغتائی کو پڑھنے لگی تھی۔ مجھے ان کی تحریروں نے بہت متاثر کیا۔ میرے میں میرا پہلا افسانہ ماہنامہ ’’نورونار‘‘ میں شائع ہوا اس کے بعد ’’روزنامہ امروز‘‘ کے ادبی صفحے کے لیے لکھنے لگی۔
س: آپ نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے ڈرامے لکھنے کا آغاز کب کیا؟
ج: 1975ء میں ریڈیو پاکستان بہاولپور کا آغاز ہوا تب سے میں نے ریڈیو کے لیے ڈرامے لکھنے شروع کیے۔ میں اس کے Pioneers میں سے ہوں۔ وہاں سے میرا پہلا فیچع ’’پیکیاں دئ نوکرانی‘‘ نشر ہوا۔ اس کے بعد خواتین کے سرائیکی پروگرام ’’سیانی سوانی‘‘ کے لیے میں سکرپٹ لکھتی اور کمپیئرنگ بھی کرتی تھی۔ ایم اے کرنے کے بعد میں یہ پروگرام بطور گیسٹ پروڈیوسر بھی پیش کرتی رہی۔ سرائیکی ڈراموں میں صدا کاری کی۔ ریڈیو میرے لاشعور میں جڑ پکڑ چکا ہے۔ 1985ء میں شادی کے بعد لاہور آ گئی پھر ریڈیو پاکستان لاہور کے لیے ڈرامے لکھے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ پی ٹی وی کے لیے پہلا ڈرامہ ’’راستہ‘‘ لکھا جس کے پروڈیوسر نصرت ٹھاکر تھے۔ اس سے قبل عارف وقار نے میری کتاب میں چھپی سرائیکی کہانی کی ڈرامائی تشکیل کی اس کا نام ’’دائرہ‘‘ تھا۔ یوں پی ٹی وی پر بطور کہانی نویس تو جنوری 89ء کو ڈرامہ ’’دائرہ‘‘ کے ذریعے جبکہ ڈرامہ نگار 23 فروری 89ء میں ڈرامہ ’’راستہ‘‘ کے ذریعے متعارف ہوئی۔ اس کے فوراً بعد مجھے سکرپٹ پروڈیوسر ظہور بھائی نے طویل دورانیہ کا کھیل لکھنے کو کہا وہ ڈرامہ پی ٹی وی سپیشل کے لیے منو بھائی نے لکھنا تھا لیکن وہ ان کے رابطے میں نہیں آئے تو مجھے لکھنے کو کہا۔ میں نے منشیات کے موضوع پر طویل دورانیہ کا کھیل ’’ایک منٹ‘‘ لکھا۔ پہلے تو نصرت ٹھاکر نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مسرت نے تو ابھی صرف دو چھوٹے چھوٹے ڈرامے لکھے ہیں۔ مگر ظہور بھائی کے اصرار پر کہ کہانی پڑھ کر فیصلہ کرو۔ انہوں نے کہانی پڑھی تو ان کو بہت اچھی لگی۔ یوں 4 جنوری 90ء کو میرا پہلا طویل دورانیہ (90 منٹ) کا کھیل نصرت ٹھاکر کی ہدایات میں ’’ایک منٹ‘‘ نشر ہوا جو بہت ہی پسند کیا گیا۔ اس دن تیز رو ٹرین کا حادثہ ہوا تھا۔ سینکڑوں لوگ مرے تھے۔ اس دن تمام تفریحی ٹی وی پروگرام بند کر دئیے گے تھے۔ پی ٹی وی سپیشل میں ’’ایک منٹ‘‘ رات آٹھ بجے شروع ہوا درمیان میں خبر نامہ آیا اور پھر یہ کوئی پونے گیارہ بجے تک چلا سے رات 11 بجے تک چلتا رہا۔ اس کے بارے میں اخبارات میں بہت اچھا لکھا گیا۔ پھر فروری 92ء میں سرائیکی زبان میں پہلا سیریل ’’پارت‘‘ اسلم قریشی کی ہدایات میں نشر ہوا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چل پڑا۔ میں نے حفیظ طاہر، نصرت ٹھاکر، راشد ڈار، قمبر علی شاہ، ایوب خاور، محمد عظیم عبدالعزیز، روحی اعجاز، اسلم قریشی، مشتاق چودھری، طارق احمد اور ذوالقرنین شوکت جیسے نامور ہدایتکاروں کے ساتھ کام کیا ہے۔ میں تین زبانوں اردو، پنجابی اور سرائیکی میں سیریل لکھنے والی پہلی رائٹر تھی۔
س: فیچر، ڈرامہ اور افسانہ نگاری میں کیا فرق سمجھتی ہیں؟
ج: فیچر اور ریڈیو ڈرامہ لکھنے کے لیے کچھ باتوں کا پابند ہونا پڑتا ہے۔ سرکاری پالیسی، روایات محدود موضوعات اور وقت کی پابندی جیسے افسانہ پانچ سے دس منٹ اور ڈرامہ 25 یا 50 منٹ تک کا لکھنا ہے۔ فیچر اور ریڈیو ڈرامہ تو ان پابندیوں کا متحمل ہو سکتا ہے لیکن افسانہ نہیں۔ افسانے کے لیے وقت اور ذہنی فکری آزادی بہت ضروری ہے۔ میری افسانہ نگاری کا بڑا محرک میرے گھر کا ادبی ماحول اور میرے اردگرد بکھرے سماجی مسائل اور دکھ تھے۔ میں نے افسانہ اور ڈرامہ نگاری میں طبقاتی اونچ نیچ، خاندانی رسومات و روایات، انسانی نفسیات اور رویوں کی عکاسی کی۔
س: آپ صرف بیانیہ انداز میں کہانی کیوں لکھتی ہیں؟
ج: یہ سچ ہے کہ میں نے زیادہ بیانیہ کہانیاں ہی لکھی ہیں لیکن میرے صرف افسانی مجموعوں میں علامتی افسانے بھی شامل ہیں جیسے ’’ڈوجھا سافر‘‘ ’’چوراسی پوڑیاں‘‘ ’’محبتاں سے کھنڈراے‘‘ اور ’’انسان دا نشان‘‘ ہیں۔ میں فطری انداز میں ادبیہ ہوں۔ ابہام اور لفظوں کا کھیل میری طبیعت کے ساتھ میل نہیں کھاتا۔ عام زندگی میں بھی تصنع اور بناوٹ سے دور ہوں۔ میری تحریریں زندگی کے بہت قریب تر ہوتی ہیں۔
س: آپ نے شاعری بھی کی ہے؟
ج: میں نے شاعری زیادہ نہیں کی۔ بس اتنی کہ ایک کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ میری شاعری کی اصلاح میرے والد نے کی۔ انہوں نے مجھے شاعری کے اوزان بھی سکھائے لیکن مجھے اوزان کی پابندی مشکل لگی۔ اب کبھی کبھار نثری نظم لکھ لیتی ہوں۔
س: آپ نے ٹی وی اور ریڈیو کے لیے بہت مقبول ڈرامے لکھے ہیں۔ آجکل ٹی وی پر آپ کام نہیں دکھائی دے رہا اس کی وجہ؟
ج: ریڈیو پاکستان کے لیے آج بھی ڈرانے لکھ رہی ہوں۔ پی ٹی وی بھی اپنی پروڈکشن نہیں ہو رہی۔ پرائیویٹ پروڈکشن کے ٹی وی ڈرامہ کا کام زیادہ تر کراچی میں ہو رہا ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے ہی پی ٹی وی نے اپنی پروڈکشن شروع کی ہے۔ اگر مجھے کہا جائے گا تو میں ٹی وی ڈرامے ضرور لکھوں گی۔ ہمارے فنکار بہت با صلاحیت ہیں۔ اب تو پڑھے لکھے گھرانوں کے تعلم یافتہ بچے بچیاں شوبز میں آ رہے ہیں بلکہ شوبز کے مختلف شعبوں میں ماسٹر ڈگری لے کر آ رہے ہیں۔
س: پرائیویٹ پروڈکشن کے لیے آپ نے نہیں لکھا؟
ج: میں نے کچھ ڈرامہ سیریل لکھے لیکن ان کے ساتھ کام کرنے کا میرا تجربہ اچھا نہیں رہا۔ پرائیویٹ پروڈکشن کا میرا ڈرامہ سیریل ’’نورِ نظر‘‘ پی ٹی وی سے ہی نشر ہوا تھا۔ پرائیویٹ پروڈکشن والے میرا لکھا بغیر بتائے تبدیل کر دیتے تھے۔ پی ٹی وی کے لیے میں نے جو لکھا وہی چلتا تھا، کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی تھی۔ پرائیویٹ پروڈکشن کے لیے تین ڈرامہ سیریل منجدھار‘ پربت اور نورِ نظر لکھے۔
س: آپ کو کس زبان میں ڈرامہ لکھنے میں مہارت ہے؟
ج: مجھے اُردو اور پنجابی میں ڈرامے لکھنا اچھا لگتا ہے مگر سرائیکی میں اس لیے زیادہ اچھا لگتا کہ وہ میری مادری زبان ہے۔
س: آپ شوبز کی تقریبات میں کم دکھائی دیتی ہیں لکھتی آپ شوبز کی دنیا کے لیے ہیں؟
ج: میں ایک استاد بھی ہوں۔ کالج میں پڑھاتی ہوں۔ میری مصروفیت زیادہ ہیں۔ میں پس منظر میں رہنا پسند کرتی ہوں۔ میرے اندر کی عورت بہت گھریلو ہے۔ گھر داری میں دلچسپی ہے۔
س: آپ فنکاروں کو ذہن میں رکھ کر کردار لکھتی ہیں؟
ج: نہیں۔ اگر میں پہلے سے کسی اداکار کو ذہن میں رکھ لوں تو شاید میرا اتنا نیچرل انداز لکھنے کا نہ رہے۔ میں لکھنے کے بعد کہہ سکتی ہوں کہ فلاں اداکار یہ کردار زیادہ اچھا کر سکتا ہے یا اس کی شخصیت کے زیادہ قریب ہے۔ میں تو ڈائریکٹر کے بارے میں بھی نہیں سوچ کر لکھتی کہ ڈائریکٹر کیا پسند کرے گا۔ میں چاہتی ہوں اداکار اور پروڈیوسر میرے لکھے ہوئے کو follow کریں۔
س: اپنا لکھا کون سا ڈرامہ بہت پسد آیا؟
ج: میرے تمام ڈرامہ سیریل ہٹ ہوئے۔ ڈرامہ سیریل ’’ریگزار‘‘ اور ’’بوہے تے باریاں‘‘ میری پہچان بنا۔ ڈرامہ سیریل ’صحرا‘‘ ہٹ ہوا‘ اس وقت ٹاپ ٹین ڈرامہ سیریلز میں میرا ڈرامہ مسلسل ڈوسرے نمبر پر آتا رہا۔ اسے اتنے کمرشلز ملے کہ بعد میں رائٹر‘ پروڈیوسرز اور اداکاروں کو بونس بھی دئیے گئے۔ ریگزار اور صحرا امریک اور یورپی چینلز سے بھی چلے۔ ریگزار کے حوالے سے حال ہی میں ایم فل کا ایک مکالمہ بھی لکھا گیا۔ میرا پنجابی ڈرامہ ’’بوہے تے باریاں‘‘ اتنا ہٹ ہوا کہ چار مرتبہ پی ٹی وی لاہور سے چلا اور جاپان کے ڈرامہ فیسٹیول میں بھی بھیجا گیا تھا۔
س: ایک ڈائریکٹر کے لیے رائتر ہونا کتنا بہتر ہے؟
ج: ڈائریکٹر کے لیے رائٹر ہونا بہت بہتر ہوتا ہے۔ بعض رائٹر تو اداکاری بھی کرتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کوئی لکھنے والا اداکاری اور ڈائریکٹر بھی ہے تو کردار کی feeling کو زیادہ بہتر سمجھ سکتا ہے اور اس کو پفارم کر سکتا ہے۔
س: فلم کا سکرپٹ لکھنے کا بھی خیال آیا؟
ج: اگر مجھے آفر ہو تو میں فلم کا سکرپٹ بھی لکھ سکتی ہوں۔ مجھے زبان کا کوئی مسئلہ نہیں۔ میں اردو‘ پنجابی اور سرائیکی زبان میں فلم کا سکرپٹ لکھ سکتی ہوں۔
س: آجکل انڈین اور پاکستانی ڈراموں میں کیا فرق دیکھتی ہیں؟
ج: انڈین ڈراموں کا ہمارے ڈراموں پر کچھ اثر پڑا ہے مگر وہ اچھا نہیں پڑا ہے۔ انڈین ڈراموں میں ایک ہی موضوع ہوتا ہے کہ عورتیں یا مرد ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کیسے کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو نقصان اور دھوکہ کیسے دے رہے ہیں۔
س: آجکل گلیمرس ڈرامے بنائے جا رہے ہیں اگر آپ کو لکھنے کو کہا جائے تو؟
ج: میں گلیمرس ڈرامے بھی بہت اچھے لکھ سکتی ہوں۔ میرا مشاہدہ بہت ہے۔ میرے پہلے لکھے ڈراموں میں تھوڑا بہت گلیمرس بھی ہوتا تھا۔
س: نئے لکھنے والوں کو کیا پیغام دیں گی؟
ج: نئے لکھنے والوں کو یہی کہوں گی کہ وہ مطالعہ ضرور کریں۔ سینئر معروف ڈرامہ نگاروں کی تحریریں پڑھیں۔ چربہ مت لکھیں۔ حقیقی زندگی کی عکاسی کریں، صرف پوش طبقے کی عکاسی مت کریں۔ عورت کو اتنا مظلوم مت دکھائیں۔ ڈرامے میں پڑھی لکھی سمجھدار عورت مار اور جوتے کھاتی ہے لیکن خاوند کے خلاف بولنے سے ڈرتی ہے۔ سسرال والوں کا ظلم سہتی ہے۔ شوہر اسے بالوں سے پکڑ کر گھر سے باہر دھکیل رہا ہے۔ وہ پھر آ کر اُس کے قدموں میں گھر جاتی ہے۔ حد سے زیادہ مظلوم اور ظلم سہتی عورت اچھی نہیں لگتی۔ پڑھی لکھی عورت میں اتنا حوصلہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے حق کے لیے بول سکے۔ چینلز کی ریٹنگ کے چکر میں عورت کے مار کھانے کو انجوائے مت کریں۔ یہ عورت کی تذلیل ہے۔ انہوں نے فارمولا بنا لیا ہے کہ المیہ کہانیاں، فلم اور ڈرامے لوگ پسند کرتے ہیں۔ ڈراموں میں عورت کو اتنا ڈی گریڈ نہ کریں۔
“