تاریخ پیدائش : 31 اکتوبر 1954
تاریخ وفات : 4 جون 1984
پچھلے دنوں میرے ایک دوست نے فیس بُک پر پڑھا جانے والا ایک اقتباس غالباً کسی مضمون کا، مجھے ای میل کیا اور اس واقعے کی تصدیق چاہی جس کاذکر اقتباس میں کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ اردو دنیا کی ایک شاعرہ سارہ شگفتہ کی بابت تھا جس میں ان کی پہلی شادی کے بعد ان کے شوہر جو خود بھی شاعر تھے، کی شاعرہ کے ساتھ کی جانے والی مفروضہ زیادتیوں کی تفصیل نہایت دردمندانہ انداز میں بیان کی گئی تھی۔ میں نے اپنے دوست کو جواب دیا کہ بھائی میں اس سارے واقعے بلکہ واقعات کا عینی شاہد ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ مذکورہ خاتون جو اسی پہلی شادی کے بعد ان ہی شاعر صاحب کی صحبت میں رہ کر شاعرہ بنیں، چونکہ ان کا چال چلن مشکوک تھا، شادی کے چند سال بعد جب یہ معاملہ کھلا تو شاعر صاحب جو نہایت شریف، پاک دامن اور اپنے علم کے حوالے سے ادبی حلقوں میں دانش ور بھی تسلیم کیے جاچکے تھے، انہوں نے خاموشی سے انہیں طلاق دے دی۔ جس کے بعد ان شاعرہ نے اپنے شوہر کے قریبی دوست سے جن سے ان کے معاملات تھے، بیاہ رچالیا۔ وہ شادی بھی نہ چل سکی۔ وہاں سے بھی انہیں طلاق ہوئی، جس کے بعد انہوں نے ادبی حلقوں میں اپنی ساکھ اور اعتبار کی بحالی کے لیے اپنی مظلومیت کی گھڑی ہوئی داستان اِدھر اُدھر بیان کرنا شروع کردی ۔ چونکہ ہمارا قومی مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ کسی بھی جھوٹے سچے واقعے کو سن کر ہم اس کی تصدیق یا تردید کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ جو سنتے ہیں آنکھیں بند کرکے اس پر یقین کرلیتے ہیں، اور صرف یقین ہی نہیں کرتے، دوسروں کو سناکر اس کا نہایت خشوع و خضوع سے یقین بھی اس طرح دلادیتے ہیں جیسے یہ سنی سنائی بات نہیں، آنکھوں دیکھا حال ہے۔ اور یوں یہ سلسلہ قصے کہانی کا آگے بڑھتا جاتا ہے۔ پھر اسے کوئی اپنے ناول کا، کوئی قسط وار کہانی کا موضوع بنالیتا ہے۔ کسی ڈرامہ نگار کو اس کی بھنک پڑتی ہے تو وہ اسے اپنی ڈرامہ سیریل میں ’’ڈرامہ‘‘ بناکر پیش کردیتا ہے۔ چونکہ واقعے میں عورت کی مظلومیت کا بیان ہوتا ہے تو اسے سچا ماننے میں کسی کو عار بھی نہیں ہوتا۔ تو سارہ شگفتہ مرحومہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ میں نے اپنے دوست کو مشورہ دیا کہ وہ اس سارے واقعے کو ایک افسانہ سمجھیں اور اس افسانے کو حقیقت سمجھنے سے گریز ہی کریں تو بہتر ہے۔
ہمارے ان نیک دل دوست نے میرا جواب پڑھ کر نہایت راست گفتاری سے لکھا کہ اگر یہ سب کچھ ایسا ہی ہے تو پھر ایک قلم کار کے طور پر آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان حقائق کو قلم بند کریں۔ ایک جھوٹ جس کا سرا جاکر بہتان طرازی اور کردار کشی سے ملتا ہو، اس کو نظرانداز کرنا کسی طرح مناسب نہیں، دینی اعتبار سے اور نہ دنیاوی لحاظ سے۔ ان کے اس جواب پر کوئی اور جواب بن نہ پڑا تو میں نے فوری طور پر یہ لکھ دیا کہ بھائی! پورے معاشرے اور خصوصاً ہماری ادیب برادری کا حال ہی کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ کچھ بھی بولتے لکھتے ہوئے انہیں یہ خوف تو ہوتا نہیں کہ اس کی کہیں جواب دہی بھی ہونی ہے، اس لیے وہ جو جی میں آتا ہے لکھتے رہتے ہیں۔ کوئی کہاں تک اس کی وضاحتیں کرتا پھرے! دنیا میں کرنے کے لیے کیا اور کوئی معقول کام نہیں ہے؟ جواب دینے کو تو میں نے دے دیا لیکن ضمیر کی خلش پھر بھی اندر باقی رہی۔ سوچتا رہا کہ اگر اس سارے معاملے میں جو جھوٹ، بہتان طرازی اور کردارکشی کے دائرے میں آتا ہے، حقائق و واقعات سے باخبر رہنے اور ان کی اصلیت جاننے کے باوجود اگر میں خاموشی اختیار کرلوں تو ایک لکھنے والے کی حیثیت سے پھر میرے قلم اور میرے ضمیر کی کیا اور کون سی ضرورت باقی رہتی ہے جو وقت پر حق بات کو لکھ نہ سکے اور ایک بے قصور اور واقعی ’’مظلوم‘‘ کے لیے گواہی نہ دے سکے۔ ۔ ۔ اور مظلوم بھی ایسا جس نے کبھی ان بے بنیاد، گھڑے اور پھیلائے ہوئے جھوٹے سچے افسانوں کی وضاحت کی ضرورت ہی نہ سمجھی ہو اور اس کو لوگوں کے ضمیر اور خدا کے حوالے کررکھا ہو۔ اس خیال کے آتے ہی چاروناچار میں مجبور ہوا کہ حقیقتِ حال کھول کر بیان کردوں کہ حق کی گواہی سے بڑھ کر کسی صاحبِ قلم کی کوئی اور ذمہ داری نہیں۔ اور اسی ذمہ داری کے احساس اور شعور نے مجھے ہمت دلائی ہے کہ سچائی سے نہایت صحت کے ساتھ ان واقعات کو بلاکم وکاست بیان کردوں تاکہ وہ سارے قصے کہانیاں جو افسانے، ناول، ڈرامے اور سوانح کا موضوع بنے ہیں، ان کی حقیقت دن کی روشنی میں سامنے آجائے۔ مجھے نہ کسی کی کردارکشی کرنی ہے اور نہ کسی کے شاعرانہ مرتبے یا ذاتی معاملات ہی سے کوئی غرض ہے، اس لیے ان سب سے بچتے ہوئے صرف اتنا ہی لکھوں گا جس کا میں چشم دید گواہ اور عینی شاہد ہوں۔ جن واقعات کا مجھے صرف علم ہے اور جو کچھ اِدھر اُدھر سے اڑتی اڑاتی باتیں میں نے ان شاعرہ صاحبہ کی بابت سنی ہیں اور جن کی میں خود تصدیق نہ کرسکا یا اس کی ضرورت محسوس نہ کی، ان کو ہرگز بیان نہ کروں گا۔
ایسا ہے کہ واقعات اپنی تفصیلات کے ساتھ ذہن میں محفوظ رہتے ہیں۔ جن شاعر صاحب کو اس سارے قصے میں بدنام کیا گیا وہ میرے کالج کے زمانے کے ایسے دوست رہے ہیں کہ جن کے علم کی وجہ سے میں نے ان کا ہمیشہ احترام کیا، آج بھی کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اُن صاحبِ علم لوگوں میں کبھی شامل نہیں رہے جن کا علم ان کے کردار سے یا جن کا کردار ان کے علم سے لگّا نہیں کھاتا۔ وہ بنیادی طور پر اپنی تمام ذہانت، حاضر جوابی، گہرے مطالعے اور واضح شعور کے باوجود ہمیشہ نیک نفس، خوددار، دوست نواز اور اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے والے انسان رہے۔ ایسے لوگ جو اپنے اندر یہ خوبیاں رکھتے ہوں، اصلاً شریف اور بھولے یا معصوم ہوتے ہیں جو دوسروں کی چالاکیوں اور چلتربازیوں سے ناواقف اور اپنی نیک نیتی کے باوصف دوسروں کو بھی نیک نیت اور اپنا خیرخواہ ہی سمجھتے ہیں۔ یہ تو بعد میں پتا چلتا ہے اور وقت ثابت کرتا ہے کہ جنہیں وہ اچھا اور اپنا بہی خواہ، خیال کرتے تھے وہ ویسے نہیں۔ تو اس سارے معاملے میں بھی یہی کچھ ہوا۔ جس سرکاری ادارے میں وہ ملازمت کرتے تھے، وہیں یہ خاتونِ مذکور بھی ملازمہ تھیں۔ دونوں میں مراسم اسی ملازمت کے حوالے سے قائم ہوئے اور پھر یہ معاملہ شادی پر منتج ہوا۔ شادی کے بعد ان شاعر صاحب نے اپنی دوست نوازی اور اپنی سادہ دلی کی وجہ سے اپنی اہلیہ کو اپنے دوستوں سے بھی ملوا دیا۔ جہاں جاتے، دوستوں کی محفل میں شرکت کرتے، اہلیہ بھی ساتھ ہوتیں۔ کچھ شوہر کی صحبت اور کچھ ادبی محفلوں میں شرکت کی وجہ سے ان خاتون میں بھی ادب کا شوق چرایا اور ایک دن انہوں نے اپنے شوہرِ نامدار کو یہ اطلاع دی کہ خیر سے انہوں نے بھی ایک نظم لکھی ہے۔ شوہر موصوف نے اپنی رفیقۂ حیات میں ادبی جراثیم پائے تو خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ اپنے دوستوں کو بھی اس خوشی میں شریک کیا اور یوں پہلی نظم کے بعد دوسری، اور دوسری کے بعد تیسری۔ ۔ ۔ نظمیں جیسی کیسی بھی تھیں دوستوں میں کچھ پسند اور کچھ ناپسند کی جانے لگیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شہر میں نثری نظم کی تحریک حضرت قمر جمیل کی ادبی قیادت میں دھواں دھار طریقے سے چل رہی تھی اور شہر کے سارے نوجوان شاعر اور شاعرات اس تحریک میں دل و جان سے شامل تھے۔ چنانچہ جب قمر جمیل صاحب اور دیگر شاعر و شاعرات کو خود شاعر صاحب نے اپنی اہلیہ کے شاعرہ بننے کی خوش خبری سنائی تو بات منہ سے نکلی اور کوٹھوں چڑھی کے مصداق شہر کے ادبی حلقے میں پھیلتی چلی گئی۔ شاعرہ صاحبہ نے جب اپنی شاعری کی یہ قدر و منزلت اور پذیرائی دیکھی تو انہوں نے ہاتھ پیر نکالے اور اپنے طور پر اپنے شاعر شوہر کے دوستوں سے مراسم و تعلقات قائم کرنے شروع کردیے۔ ان ہی شاعروں میں ایک شاعر دوست ان کے شوہر کے ایسے تھے جو صرف و محض شاعر تھے اور شاعر و ادیب کے لیے مذہب و اخلاق کی پابندی ضروری نہ سمجھتے تھے، جس کا ثبوت انہوں نے اپنی زندگی میں ایک بار نہیں دو بار دیا۔ مطلب یہ کہ ایک نہیں دو گھر اجاڑے۔ چونکہ وہ میرا موضوع نہیں اور نہ ان کے ذاتی معاملات سے مجھے کچھ لینا دینا ہے، لیکن اتنا لکھ دینا بھی غیر ضروری نہ ہوگا کہ جب ان شاعرہ صاحبہ نے اپنے شوہر کے ان شاعر دوست کو اپنے دام میں کھینچا اور انہیں شیشے میں اتار کر ان سے اپنے قلبی معاملات وغیرہ استوار کیے، اور جب یہ اذیت ناک حقیقت ہمارے محترم دوست کے علم میں آئی تو انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ سے جو خیر سے شاعرہ بھی بن چکی تھیں اور قمر جمیل صاحب جو خود بھی ایک معصوم اور بھولے انسان ہی تھے اور نئے لکھنے والوں کی مبالغہ آمیز تعریف کرکے ان کی حوصلہ افزائی میں خاصی شہرت رکھتے تھے، انہوں نے بھی ان نئی نویلی خاتون شاعرہ کی میرے انٹرویو میں (جو میری کتاب ’’یہ صورت گر‘‘ میں شامل ہے) اتنی بڑھا چڑھا کر تعریف کی کہ میں تو حیران و ششدر رہ گیا۔ چونکہ خاتون شاعرہ کی نثری نظمیں کم سے کم مجھے تو کبھی پسند نہیں آئیں سوائے ایک آدھ نظم کے۔ جو واحد نظم دو ایک مصرعوں کی دل کو لگی وہ یہ تھی:
نابینا کی جھولی میں
دو آنکھیں روشن رہتی ہیں
یہ نظم ان کی ٹوٹی پھوٹی نثری نظموں کی کتاب ’’آنکھیں‘‘ میں شامل ہے۔
یہ کتاب شاعر و افسانہ نگار احمد ہمیش نے شائع کی تھی اور ایک نسخہ مجھے بھی عنایت کیا تھا۔ ایک روز مشفق خواجہ صاحب نے جو بہ منزلہ میرے بزرگ دوست اور کرم فرما کے تھے، مجھے فون کرکے پوچھا کہ کیا سارہ شگفتہ کی کتاب آپ کے پاس ہوگی؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے فرمایا کہ ’’بھئی ہندوستان سے افسانے کے نقاد وارث علوی نے مجھ سے اس کتاب کی فرمائش کی ہے، تو آپ یہ کتاب مجھے دے دیں۔ باوجود تلاش کے یہ کتاب دستیاب نہیں ہے‘‘۔ میں کتاب دینے کے معاملے میں بڑا بخیل واقع ہوا ہوں اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے بہ قول کوئی کتاب مانگ کر لے جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ کلیجہ نوچ کر لے جارہا ہے ۔ لیکن میں نے سارہ شگفتہ کی یہ کتاب بغیر کسی ردوقدح کے اٹھائی اور انہیں پہنچادی۔ وجہ اس کے سوا اور کیا تھی کہ اس کتاب کی کوئی قدر و قیمت میرے دل میں تھی ہی نہیں۔ اس لیے نہیں تھی کہ شاعری میرے نزدیک ایک فن ہے جو صرف زندگی کا تجربہ نہیں، اس فن پر عبورکا تقاضاریاضت و محنت ہے۔ زبان پر گرفت، خود صنف پر عبور اور مطالعے کے بغیر اگر کوئی شاعر یا اچھا شاعر بن سکتا تو لالوکھیت اور لانڈھی کورنگی کے مضافاتی سارے شاعر جو خود کو میر و مرزا غالب سے غزل میں کچھ کم نہیں گردانتے، واقعتاً شاعر ہی ہوتے اور مشاعروں میں پڑھنے کے لیے تقدیم و تاخیر کے مسئلے پر باہم دست و گریباں ہونے کے لیے کمربستہ نہ ہوجاتے۔ جب نثری نظم کی ہوا چلی تو یہ ہوا ایسی سہانی تھی کہ شہر کے ایسے نوجوان بھی جنھوں نے کسی ایک کلاسیکی یا جدید شاعر کو ڈھنگ سے پڑھا تک نہ تھا، خم ٹھونک کر شاعری کے میدان میں اتر آئے۔ نثری نظم چونکہ ویسے بھی وزن، بحر اور عروض کی پابندی سے آزاد ہوتی ہے اس لیے کسی بھی نوآموز کے لیے اس صنف میں چار چھے لائنیں گھسیٹ دینا کون سی بڑی بات ہے، خصوصاً جب قمر جمیل مرحوم جیسا حوصلہ افزائی کرنے اور نثری نظم نگار کو بڑھاوا دینے والا نقاد بھی موجود ہو۔ اب قمر بھائی کا معاملہ کچھ ایسا تھا کہ ان کا ذہن اور ان کی پسند سطح آب کی طرح تھی جس پر لہریں بنتی بگڑتی رہتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے شگفتہ کی نثری نظموں کو بانس پہ چڑھایا، لیکن ایک عرصے بعد جب ان کا دوسرا انٹرویو کرنے گیا تو سارہ شگفتہ مرحومہ کی شاعری یا نثری نظمیں ان کی نظروں میں حقیر ہوچکی تھیں اور اب کے انہوں نے عذرا عباس کی نظم ’’نیند کی مسافتیں‘‘ کے گن گانے شروع کردیے۔ افسوس کہ قضا نے مہلت نہ دی ورنہ مجھے یقین ہے کہ قمر بھائی زندہ ہوتے تو اپنی اس رائے پر بھی نظرثانی کرلیتے اور کوئی تیسرا شاعر ان کی مبالغہ آمیز تعریف کا مستحق ٹھیرتا۔
بات دور نکل گئی، ذکر تھا سارہ شگفتہ کا۔ تو جب ان کے شاعر میاں کو اس حقیقت کا علم ہوا کہ ان کے دوست اور ان کی اہلیہ کے معاملات اب زبان زدِ خاص و عام ہوتے جاتے ہیں تو انہوں نے علیحدگی میں ہی عافیت جانی۔ شاعرہ بیوی کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ یوں یہ علیحدگی عمل میں آئی، اور پھر اگلے مرحلے میں ان خاتون نے اپنے پہلے شوہر کے ان ہی دوست سے بیاہ رچالیا۔ لیکن یہ شادی بھی زیادہ عرصہ نہ چلی اور وہاں سے بھی طلاق نامہ لے کر ادبی محفلوں میں لوٹ آئیں۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، جو کچھ دوسروں پر یا جو کچھ ان خاتون پر بیتی اس کے واقعات خود ان شاعروں اور ادیبوں کی زبانی میں نے سنے جن کے ان خاتون سے ’’مراسم‘‘ رہے۔ لیکن مجھے ان کی تفصیلات بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہاں اتنا دہرا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ادبی دنیا میں اپنا اعتبار اور ساکھ بحال کرنے یا بنانے کے لیے انہوں نے مذکورہ دونوں شاعر شوہروں کی بابت جھوٹی اور بے بنیاد کہانیاں پھیلانی شروع کیں۔ ان کہانیوں میں وہ خود نہایت مظلوم، بے گناہ اور بے قصور تھیں کیونکہ عورت تھیں، اور عورت کے بارے میں یہ اعتبار کرانا بہت آسان ہوتا ہے کہ جو کچھ ہوا اس پر ظلم ہی ہوا، اور مرد اگر مظلوم بھی ہو تو اس کا یقین دلانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے کہ اس پر بھی کوئی عورت ظلم کرسکتی ہے، اور وہ بھی سہہ کر خاموش رہنے اور برداشت کرنے کی تاب و طاقت رکھتا ہے۔
چنانچہ ان خاتون کی پھیلائی ہوئی کہانیوں میں چونکہ مقبول ہونے اور دوسرے لفظوں میں میڈیا اور صحافت و ادب میں ’’فروخت‘‘ ہونے اور درد مندانہ اپیل کے ساتھ لکھے جانے کا خاصا افسانوی مواد تھا، لہٰذا پھر اللہ دے اور بندہ لے ۔ اس پر افسانہ طرازی شروع ہوئی۔ یہ قصہ جب سرحد پار گیا تو پنجابی اور اردو کی شاعرہ اور افسانہ نگار امرتا پریتم نے ایک کتاب ’’ایک تھی سارہ‘‘ لکھ ماری۔ اب غیر مسلموں کا معاملہ آزادیٔ اظہار کا ایسا ہے کہ امرتا صاحبہ نے اپنے شوہر کی زندگی میں ساحر لدھیانوی سے اپنے معاشقے کی داستان ’’رسیدی ٹکٹ‘‘ میں صاف صاف بیان کردی ہے، اس اعتماد کے ساتھ کہ شوہرِ نامدار کے ماتھے پر کوئی شکن نہ آئے گی۔ اور ایسا ہوا بھی۔ چنانچہ ’’رسیدی ٹکٹ‘‘ کے بعد امرتا کی سوانح کی اگلی جلد بھی شائع ہوئی۔ چلیے اتنی رعایت تو پھر بھی امرتا کے قصے میں ہے کہ ان کا عشق ذہنی، ادبی، روحانی جو نام دیں، وہ تھا۔ اس میں لذت و شہوتِ جسمانی کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ شاید اسی لیے شوہر نامدار اُن کے اس پر معترض بھی نہ ہوئے۔ یہاں معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ بہرکیف، امرتا پریتم سے سارہ صاحبہ کے مراسم استوار ہوچکے تھے اور کتاب کے لیے مواد بھی انہوں نے ہی غالباً فراہم کیا۔ ہمارے ہاں ٹی وی ڈرامہ نگار نورالہدیٰ شاہ نے بنا کسی تحقیق، اور حقائق کی کھوج کرید کے اس پر ایک ڈرامہ سیریل لکھ ڈالی۔ ہمارے محترم شاعر دوست کے ایک دوست جو ان دنوں ایک اخبار میں تبصرۂ کتب پر مامور ہیں، وہ کیوں پیچھے رہتے! ایک ناول انہوں نے بھی تصنیف کرڈالا۔ جو لوگ صحافی و ادیب ہوکر بھی زندگی سے کٹے ہوئے اور لاتعلق رہتے ہیں، ان کے پاس ویسے ہی موضوعات کی قلت ہوتی ہے۔ ان کا یہ ناول بھی ادبی حلقوں میں پڑھا تو یقینا گیا لیکن اس کا شمار کسی ڈھنگ کے معیاری ناولوں میں نہ کیا جاسکا۔ وجہ غالباً یہ رہی ہوگی کہ جب حقیقت کو توڑ مروڑ کر، مسخ کرکے افسانہ بنایا جائے، اور پھر افسانے کو مزید افسانہ بنانے کے لیے مرچ مسالہ لگایا جائے تو تاثیر تخلیق میں کہاں سے آئے گی! کیونکہ کسی بھی تخلیق میں تاثیر جہاں سے آتی ہے وہ تو صورتِ معاملہ کی حقیقت سے خوب واقف ہے۔ تو یوں یہ معاملہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاکر، یا یوں کہیے کہ ادب اور میڈیا کی دنیا میں گردوغبار اڑا کر آہستہ آہستہ بیٹھ گیا۔ ہمارے محترم شاعر دوست نے اس حادثے کے بعد ادب، ادبی دنیا اور ادبی دوستوں سے خاصے عرصے کے لیے منہ موڑ لیا، بلکہ شہر چھوڑ کر ہی چلے گئے۔ انہوں نے ان ساری جھوٹی اور بے بنیاد کہانیوں اور افسانوں کو کبھی درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھا۔ انہوں نے اپنے رب سے لو لگائی اور اپنی ذاتی زندگی کو ’’ادبی آلودگی‘‘ سے بچانے کے لیے ادبی حلقوں میں آنا جانا چھوڑ دیا۔ اب وہ شادی بیاہ کے بعد اولادوں کو تعلیم و تربیت دلاکر اپنے پیروں پر کھڑا کرکے ایک آسودہ اور مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ البتہ ان خاتون شاعرہ کا یہ ہوا کہ ملیر ہالٹ کے ریلوے پھاٹک سے گزرتے ہوئے تیز رفتار ٹرین کی زد میں آکر ہلاک ہوئیں۔ ایک بیان یہ بھی ہے کہ بعض ادویات کے استعمال کی وجہ سے انہیں ٹرین کی آمد کا پتا ہی نہ چلا۔
اب یہ پرانا دھرانا قصہ اگر اصل صورتِ معاملہ سے ناواقف لوگ فیس بک پر ڈالتے اور ایسے واقعات سے چسکہ لینے کی جو ہم لوگوں کی عادت ہے، چسکہ اور لطف لیتے ہیں تو اس چسکے سے ضرور لذت کشید کریں، لیکن اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ ایسے واقعات سے کچھ سبق بھی لے لیا کریں۔ بڑی عام سی بات ہے کہ اعتبار نہ ابتدا کا ہے نہ درمیان کا۔ یقین و اعتبار ہمیشہ خاتمے اور انجام کا ہے۔ اگر مذکورہ واقعے اور اس کے انجام سے کوئی سبق سیکھنے پر تیار نہ ہو تو اس کے لیے فقط دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ اب یہ تو سننے والے پر ہے دعا سنے یا نہ سنے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ : قارئین کا صاحب مضمون کی تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے (آغا نیاز مگسی )