اتوار کا دن تھا۔ سارہ اپنی والدہ کے ساتھ پورٹ لوئی کا مرکزی بازار گئی تھی۔ یہ بازار ہر روز کھلا رہتا ہے۔ بازار میں کئی سبزی فروش اور پھل فروش موجود تھے۔ امّی نے ایک کلو ٹماٹر اور تین کلو آلو خریدے۔ اس کے بعدامّی نے گھر کو سجانے کے لئے لال گلاب اور چنبیلی کے تازہ پھول بھی خریدے۔ گھر جاتے ہی امّی گلاب کے پھول کو ایک گلابی گلدان میں رکھے گی۔ وہ گلدان باورچی خانے کی میز پر رکھا جائے گا۔ امّی چنبیلی کے پھول مہمان خانے میں رکھے گی۔
سارہ کی والدہ گھر سے ایک بڑی ٹوکری لائی تھیں۔ آہستہ آہستہ وہ ٹوکری بھر گئی۔ اس میں سے پودینے اور دھنئے کی خوشبو آرہی تھی۔ اس کے علاوہ ماں نے دو کلو گوشت اور ایک کلو تازہ مچھلی اور تین کلو مرغی کی ٹانگیں خریدیں۔ شام کو ماں باربیکیو بنائے گی۔ سارہ کے تمام دوستوں کو آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ سارہ بہت خوش تھی۔ وہ اپنے دوستوں سے ملنے کے لئے اتاولی تھی۔ وہ ایک خوبصورت ڈریس پہنے گی۔ وہ ڈریس پیلے رنگ کا تھا۔ سارہ کی نانی جان نے خاص وہ دڑیس اس کے لئے خریدا تھا۔
پورٹ لوئی کا بازار اتنا بڑا تھا کہ چلتے چلتے سارہ تھک گئی۔ سارہ کو پیاس لگی۔ امّی نے اس کے لئے ٹھنڈے فالودہ کا ایک گلاس خریدا۔ ٹھنڈے فالودہ میں تخم بالنگا تھا اور برف کے دو بڑے ٹکڑے بھی تھے۔ اس کے علاوہ دودھ میں بادام اور جیلی بھی ملائے گئے تھے۔ سارہ نے مزے سے پورا گلاس ختم کیا۔ وہ اپنی امّی کا ہاتھ پکڑتی ہوئی آہستہ آہستہ خاموشی سے چلتی گئی۔ اتنے میں سارہ کو ایک اونچے قد والا آدمی نظر آیا۔ اس آدمی کی آنکھیں لال تھیں۔ اس کا رنگ کالا تھا۔ اس کے کپڑے میلے تھے اور وہ اپنی بڑی آنکھوں سے سارہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ آدمی اچانک بول اٹھا: ’’ اے بدصورت لڑکی میں تم کو کھا جائوںگا۔‘‘
سارہ خوفزدہ ہوئی۔ اس نے اپنی امّی کا ہاتھ اور زور سے پکڑا اور تیزی سے امّی کے ساتھ چلتی گئی۔ اس آدمی نے جو کہا وہ امّی کو سنائی نہیں دیا کیونکہ امّی بینگن خریدنے میں مصروف تھیں۔ اس کے بعد امّی کی خریداری ختم ہوئی تو وہ دونوں پارکنگ میں اپنی گاڑی کی طرف گئیں۔ سارہ بالکل خاموش تھی۔ وہ چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ تب امّی نے غور کیا کہ سارہ کا چہرہ لال ہوگیا۔ ماں نے اپنا ہاتھ سارہ کے گرم گال پر رکھے اور پوچھا:
’’کیا ہوا سارہ؟ تم تھک گئی ہو؟‘‘
سارہ خاموش رہی۔ امّی نے سارہ کی آنکھوں میں دیکھا۔ اس وقت سارہ کی پیاری پیاری گول آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔ امّی فکر مند ہوئیں۔
’’تم کیوں رو رہی ہو سارہ؟ کیا بات ہوگئی؟‘‘
’’ایک آدمی نے مجھے بدصورت کہا۔ اس نے کہا وہ مجھے کھا جائے گا۔‘‘ سارہ اور زوروں سے رونے لگی۔
امّی نے سارہ کو رونے دیا تاکہ اسے راحت ملے۔ پھر سارہ کو گلے لگایا اور اسے پیار کیا۔ جب سارہ خاموش ہوئی تو امّی نے کہا:
’’ایک بات بتائو، صبح جب ابو نے تم سے کہا کہ تم اس ڈریس میں خوبصورت لگ رہی ہو تو کیا تم کو اچھا لگا تھا؟۔‘‘
سارہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا :’’ہاں۔‘‘
’’اب اس آدمی نے کہا کہ تم بدصورت لگ رہی ہو تو تم کو برا لگا؟‘‘
’’ہاں۔ ‘‘ سارہ کی آنکھوں میں پھر سے آنسو نکلنے لگے۔ اس کا معصوم دل بہت تکلیف میں تھا۔
’’میری پیاری سارہ دوسروں کی باتیں دراصل تحفے ہوتے ہیں۔ ایک اچھی بات ایک اچھا تحفہ ہوتا ہے۔ ایک بری بات ایک برا تحٖفہ ہوتا ہے۔ یہ تمہارا فیصلہ ہے کہ تم اس تحفہ کو قبول کرو گی یا پھر اس تحفہ کو رد کر دو گی۔ جب کوئی تم سے ایک اچھی بات کہے جس سے تمہارے دل کو خوشی ملے تم اس بات کو قبول کرلو۔ اگر کوئی آدمی تم کو ایسی بات بتائے جس سے تم کو تکلیف ہو تو اس کا تحفہ قبول مت کرو۔ تمہیں اس تحفہ کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
امّی کی باتوں سے سارہ کا دل ہلکا ہوا اور وہ خوش ہوگئی۔ اسے ابو کی پیاری پیاری باتیں یاد آئیں اور پیاری سارہ مسکرانے لگی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...