مجھے یقین کا تھا کہ سرزمین ہند کو شام بنانے والا دھمکی آمیز بیان جلد آئے گا
مجھے یقین تھا کہ سرزمین ہندوستان کو شام بنانے کی دھمکی والا بیان بھی جلد آے گا …کیوں اے گا ،اس کی بہت سی وجوہات تھیں …آر ایس ایس ممبران ،میڈیا ،بی جے پی ورکر اور مسلمانوں کو نقصان پہچا کر روزگار کمانے والے اور اپنی جیب گرم کرنے والے گاؤ رکشک، شمبھو لال جیسے سرپھروں کے ذریعہ ایسے بیانات بار بار دلاہے گئے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا جینا حرام ہو جائے اور بہت حد تک یہ ہوا بھی –.پاکستان جاؤ ، قبرستان جاؤ جیسے نعرے بھی مسلم مخالفت میں لگاہے گئے . ہندوستان کی تمام ریاستوں کو فتح کرنے کے لئے مرکزی حکومت کی طرف سے سارا زور لگا دیا گیا .ہندی میں ایک محاورہ ہے ..سام دام دنڈ بھید ..یہ محاورہ چانکیہ کے دماغ کی اپج تھی کہ طاقت کے زور پر حکومت کیسے کی جائے -سام یعنی مشورہ دینا اور کسی کام کو کرنے کے لئے کہنا –دام .. یعنی کام کی قیمت لگانا ..اور جب اس پر بھی کام نہ نکلے تو سزا دینا –غور کریں تو ہندوستانی ریاستوں کو فتح کرنے سے لے کر بابری مسجد تک حکومت اور اراکین حکومت اسی سام دام دنڈ بھید کے راستے پر چل رہے ہیں …پہلے آپ سے مشورہ کیا گیا ،کہ تیسرے درجے کے شہری بن جاؤ .. منہ مت کھولو .زبان بندی کے بعد طلاق اور شریعت پر حملہ ہوا .اور اب بابری مسجد کے بہانے ڈند بھید یعنی ملزم کو سزا سنانے کا کام باقی رہ گیا تھا .-اور شری شری روی شنکر کو اس پیغام کے پہچانے کی ذمہ داری سونپی گیی –اب اس بیان کا ایک واضح پہلو تو یہ ہے شری شری روی شنکر سے لے کر سارا ہندوستان یہ جان چکا ہے کہ مسلمانوں کی مخالفت میں آر ایس ایس کیسے کیسے منصوبے بنا رہی ہے .اور یہ بھی کہ آئندہ منصوبوں کے پیش نظر مسلمانوں کو کس حد تک کمزور کیا جا سکتا ہے .لیکن اس طرح کے بیان کو جاری کرتے ہوئے حکومت کے نمائندے یہ بھول جاتے ہیں کہ ہندوستان ، شام نہیں ہے .. ہندوستان میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی پچیس سے تیس کروڑ کے درمیان ہے .خانہ جنگی ہوئی تو نقصان ملک کا ہوگا — شام مشرق وسطیٰ کا ایک بڑا اور تاریخی ملک ہے۔ اس کے مغرب میں لبنان، جنوب مغرب میں فلسطین اور اسرائيل ، جنوب میں اردن، مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی ہے۔ شام دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ موجودہ دور کا شام 1946ء میں فرانس کے قبضے سے آزاد ہوا تھا.اس کی آبادی دو کروڑ تھی .اب یہ آبادی ایک کروڑ اسی لاکھ کے قریب بتایی جا رہی ہے . .2011 میں شامی حکومت کے خلاف شروع ہونے والے پرامن مظاہرے کے بعد حالات پرتشدد ہوگئے -سات برسوں میں عالمی سیاست نے شام کی سر زمین کو بارود کے دھویں اور خون سے آلودہ کر دیا .
یہ وہی روی شنکر ہیں جنہیں سپریم کورٹ پر بھروسہ نہیں .اور یہ مسلم لیڈران سے ملاقات کرنے کے بہانے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہندوستان کو شام نہ بننے دیا جائے …مسلم پرسنل لا بورڈ کے سلمان ندوی نے بھی روی شنکر پر بھروسہ کیا اور مسلمانوں کا بھروسہ کھویا .اب روی شنکر توقیر رضا اور دوسرے لیڈران سے مل کر اپنا منصوبہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں .
یاد کیجئے ، ١٤ مارچ ٢٠١٦ کو جمنا کنارے شری شری روی شنکر،آرٹ آف لیونگ کے بانی نے مرکزی حکومت کی مدد سے تین دنوں کا رنگا رنگ پروگرام کیا تھا جس میں لاکھوں کی بھیڑ امڈ پڑی –پروگرام ختم ہوا تو وہ جگہ کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی تھی .کیی ٹی وی چینلز نے کوڑے کے ڈھیر کو دکھاتے ہوئے شری شری روی شنکر کے آرٹ وف لیونگ کو مذاق کا نشانہ بنایا .اس پروگرام نے آر ایس ایس کے موقف اور نظریات کی وضاحت کرتے ہوئے صاف کر دیا کہ آئندہ برسوں میں سارا زور مذھب کی سیاست پر رہے گا . ٢٠١٧ میں مندروں کی جگمگاہٹ مودی کے سارے پروگرام پر حاوی رہی .بنارس ،ایودھیا کو چمکا کر مذہب کو چمکانے کی سیاست حاوی رہی . یوگی مودی میں کمپٹیشن شروع ہو گیا کہ مذھبی رنگ میں کس کے چہرے کو عوام کا زیادہ ووٹ ملتا ہے . یوگی اتر پردیش کی ساری ترقی چھوڑ کر مندر مندر گوشہ گوشہ ناپتے رہے .مودی بھی مندروں کے پجاریوں کی تاج پوشی میں لگے رہے .کل ملا کر ملک مندروں کا ،پجاریوں کا ،باباؤں کا ملک بن گیا .اب جہاں مندر ہونگے ، وہاں صرف سنیاسی ہی ہونگے .یوگی ،رام دیو سے شری شری راوی شنکر تک ہر سنیاسی سام دام دنڈ بھید کی راہ پر چلتا ہوا اپنی دکان زیادہ چمکانے کی کوششوں میں مصروف ہے .روی شنکر کو اپنے مقصد میں زیادہ کامیابی ملتی نظر نہیں آیی تو انتہا پسندی کا خوفناک مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے آر ایس ایس کو خوش کرنے کے لئے اشتعال انگیز بیان دے ڈالا ..اور جیسا کہ مجھے یقین ہے ، یہ بیان بھی آر ایس ایس اسپانسرڈ ہے . ہندوستان کے مسلمان سپریم کورٹ پر اب بھی یقین رکھتے ہیں .کیا یہ سمجھا جائے کہ حکومت ،کابینہ ،ممبران اور روی شنکر کو ملک کی سب سے بڑی عدالت پر اب بھی یقین نہیں .؟یہ آر ایس ایس بھی جانتی ہے کہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں نہیں اےیگا .کانگریس بھی بابری مسجد کو لے کر مسلمانوں کو کیی بار فریب دے چکی ہے .
کانگریس کے دور میں جب بابری مسجد کو لے کر فیصلہ آیا تو تین ججوں میں ایک جج مسلمان بھی تھے –سبغت اللہ خاں کی حیثیت دراصل اس پورے معاملہ میں اس معصوم اورسہمے ہوئے مسلمان کی تھی جو تاریخی حقائق کی جگہ حکومت اور ماحول کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور تھا۔ وہ اس خطرے کا تجزیہ نہیں کرسکے جو اس غلط فیصلے کے بعد اس ملک کے مسلمانوں کو نفسیاتی سطح پر کمزور کرنے کے لیے کافی تھا۔ بلکہ یہ بھی کہنا چاہئے کہ وہ اس فیصلے سے قبل کی تاریخ پر بھی غور نہ کرسکے جس نے آزادی کے بعد سے ہی اس ملک میں مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ فیصلہ آنے سے قبل ہی آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا جیسی تنظیموں نے کہنا شروع کردیا تھاکہ اگر فیصلہ ان کے حق میں نہیں آتا ہے تو وہ اسے قبول نہیں کریں گے۔ اور اس کے بعد اگر پورے ملک میں گجرات جیسا ماحول پیدا ہوتا ہے تو یہ ان کی ذمہ داری نہیں ہوگی۔ تو کیا مرکزی اور ریاستی حکومت آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا جیسی تنظیموں سے خوفزدہ تھی؟ فیصلہ سے تین دن قبل تک حکومت اور میڈیا دونوں نے یہ ماحول بنانے کی کوشش کی تھی کہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوگا۔ وہ تاریخی فیصلہ جس کے انتظار میں 18 برس لگے تھے۔ اور جس کے لیے عدلیہ نے 8189صفحات کیا صرف اس لیے برباد کیے تھے کہ مسلمانوں کو یہ بتایا جاسکے کہ اس ملک کے کسی بھی فیصلے پر مسلمانوں کا نام نہیں لکھا جاسکتا۔۔۔ ؟ کیا عقیدے اور مذہب کو بنیاد بنا کر جمہوریت کا مذاق نہیں اڑایاگیا۔۔۔ ؟ اوراس مذاق میں عدلیہ کے تین ستونوں میں سے ایک ستون کے طورپر اقلیت کی آواز بھی جان بوجھ کر شامل کی گئی کہ مستقبل کے مورخ یہ بتا سکیں کہ انصاف ملنے میں ایک مسلمان کا بھی ہاتھ رہا ہے۔ پانچ سو برس سے جو متازعہ زمین بابری مسجد کی شکل میں تھی، کورٹ نے اس کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔ یہ بھی نہیں کہ جو مورتیاں 1949میں وہاں رکھی گئیں، وہ وہاں کیسے آئیں؟
مرکزی حکومت ،عدلیہ ،ریاستی حکومت کسی کو بھی مسلمانوں کے احساس و جذبات سے کویی مطلب نہیں ،اسلئے اب جو فیصلہ ہوگا ،وہ یکطرفہ ہوگا .
کھیل شروع ھوا تو سپریم کورٹ نے ہتھیار ڈال دیا.. کہا کہ آپ آپس میں فیصلہ کر لیجئے …فیصلہ مشکل لگا ، تو اس وقت سینٹر شیعہ وقف بورڈ کے چیر میں وسیم رضوی کی لاٹری نکل پڑی .. اوقاف کی جائداد میں خرد برد کے الزام میں گرفتاری کا وارنٹ جاری ہو چکا تھا .اب بابری مسجد کے جن سے امیدیں قایم تھیں .مودی یوگی آر ایس ایس کو بھی ایک ایسا بیان مسلمانوں کی طرف سے مطلوب تھا جو کورٹ کا راستہ آسان کر سکے .وسیم بنگلور آشرم میں شری روی شنکر سے مل آے .مندر کی حمایت میں ٹھوس بیان جاری ہو گیا .لیکن حکمت جانتی تھی کہ وسیم کے کہنے بھر سے کچھ نہیں ہوگا .وسیم کو آخر حاشیہ پر پھیک دیا گیا کیونکہ ان کی قلعی کھل چکی تھی .اس کے .بعد منظر بدلتا رہا ..نیے نے ڈرامے سامنے آتے رہے ..
ہندوستان ، شام نہیں بن سکتا ،روی شنکر اس ناپاک خیال کو اپنے دل سے نکال باہر کریں .وہ کچھ دیر کے لئے دلی کے سہ روزہ پروگرام کو یاد کر لیں جب پروگرام کے خاتمے کے بعد دلی کا وہ حصّہ کوڑے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا تھا …وہ ہندوتان کی سر زمین کو اسی کوڑے کے ڈھیر میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو انکا منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا ..تیس کروڑ امن پسند مسلمان اور بڑی تعداد میں ہندو بھایی بھی ملک کی سالمیت اور وقار کو محفوظ رکھنے کے لئے اٹھ کھڑے ہونگے ……
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“