(Last Updated On: )
شاعر خوش فکرو خوش گفتار تھے جون ایلیا
ترجمان کوچہ و بازار تھے جون ایلیا
ان کی غزلوں سے عیاں ہے سرد و گرم روزگار
مظہر شیرینی گفتار تھے جون ایلیا
ان کی اپنی شخصیت تھی نازش بر صغیر
اہل دانش کے معین و یار تھے جون ایلیا
روشنی کی اک کرن ہے ان کا معیاری کلام
سربسر اک مطلع انوار تھے جون ایلیا
نام سے ہے ان کے روشن آج امروہہ کانام
داد اور تحسین کے حقدار تھے جون ایلیا
جن کی دنیاٸے ادب میں آج ہر سو دھوم ہے
ایک ایسے زندہ دل فنکار تھے جون ایلیا
آپ بیتی ان کی جگ بیتی کی ہے زندہ مثال
گوہر گنجینہ افکار تھے جون ایلیا
ظاہر و باطن تھا جن کا اہل دل پر آشکار
ایک ایسے صاحب کردار تھے جون ایلیا
ہے مشاہیر ادب میں آج کے ان کا شمار
جس سے برقی سرخی اخبار تھے جون ایلیا
نذر جون ایلیا
جون ایلیا اور احمد علی برقی اعظمی
جون ایلیا
ہجر کی آنکھوں سے آنکھیں تو ملاتے جائیے
ہجر میں کرنا ہے کیا یہ تو بتاتے جائیے
بن کے خوشبو کی اداسی رہیے دل کے باغ میں
دور ہوتے جائیے نزدیک آتے جائیے
جاتے جاتے آپ اتنا کام تو کیجے مرا
یاد کا سارا سر و ساماں جلاتے جائیے
رہ گئی امید تو برباد ہو جاؤں گا میں
جائیے تو پھر مجھے سچ مچ بھلاتے جائیے
زندگی کی انجمن کا بس یہی دستور ہے
بڑھ کے ملیے اور مل کر دور جاتے جائیے
آخرش رشتہ تو ہم میں اک خوشی اک غم کا تھا
مسکراتے جائیے آنسو بہاتے جائیے
وہ گلی ہے اک شرابی چشم کافر کی گلی
اس گلی میں جائیے تو لڑکھڑاتے جائیے
آپ کو جب مجھ سے شکوا ہی نہیں کوئی تو پھر
آگ ہی دل میں لگانی ہے لگاتے جائیے
کوچ ہے خوابوں سے تعبیروں کی سمتوں میں تو پھر
جائیے پر دم بہ دم برباد جاتے جائیے
آپ کا مہمان ہوں میں آپ میرے میزبان
سو مجھے زہر مروت تو پلاتے جائیے
ہے سر شب اور مرے گھر میں نہیں کوئی چراغ
آگ تو اس گھر میں جانانہ لگاتے جائیے
احمد علی برقیؔ اعظمی
جارہے ہیں آپ تو پھر مسکراتے جائیے
’’ یاد کا سارا سروساماں جلاتے جایئے ‘‘
خانۂ دل جس میں مہماں تھے وہ ڈھاتے جائیے
نقش ہیں جو لوحِ دل پر وہ مٹاتے جائیے
خونِ دل جتنا جلانا ہے جلاتے جائیے
جشنِ بربادی محبت کا مناتے جائیے
سُرخرو ہیں آپ تو پھر سر اُٹھاتے جائے
جاتے جاتے مجھ سے پھر نظریں مِلاتے جائیے
کیوں کیا ترکِ تعلق مجھ سے آخر آپ نے
کیا خطا تھی میری یہ مجھ کو بتاتے جائیے
اِک ہنسی پر آپ کی میں مَرمِٹا دیوانہ وار
آپ سے کس نے کہا مجھ کو رُلاتے جائیے
قصرِ دل میں آکے میرے کیوں جلایا تھا اسے
ہے یہ یادوں کا دیا اس کو بجھاتے جائیے
چار دن کی چاندنی ہے یہ جہانِ آب و گِل
جس طرح پہلے ہنساتے تھے ہنساتے جائیے
آپ کا بھی جلد ہی آئے گا یومِ احتساب
ہے جو دوگز کی زباں منھ میں چلاتے جائیے
زندگی کا ماحصل ہوگی مری اس کی مہک
گلشنِ ہستی میں کوئی گُل کِھلاتے جائیے
دوستی کا گھونٹ دیں اپنے ہی ہاتھوں سے گلہ
فرض ہے جو دوستی کا وہ نبھاتے جائیے
آپ کو جون ایلیا کی دے رہا ہوں میں قسم
گا رہےتھے ان کی جو غزلیں وہ گاتے جائیے
کہہ رہا ہے آپ سے جو آج برقی اعظمی
اس کی سنئے اور اپنی بھی سناتے جائیے