ایک دور تھا جب سننے میں آتا کہ فلاں کلاس فیلو کے پاس فحش تاش ہیں۔ یا پھر خبر اُڑتی کہ کوئی نئی کیسیٹ آئی ہے جس میں رام تیری گنگا میلی کے گانے ہیں ٹائٹل پر منداکنی سفید ساڑھی پہن پہن کر آبشار کے قریب نہا رہی ہے، اور اُس کے تمغے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یا خصوصی تلذذ کے ساتھ ذکر ہوتا کہ بے شرم زینت امان نے ستیم شیوم سندرم میں ساری کمر برہنہ دکھائی ہے۔ ایک سنسنی تب بھی آئی جب انیتا ایوب نے انڈیا جا کر برہنہ بدن پر گیلی ساڑھی لپیٹ کر تصویر اتروائی۔ ان دونوں بہنوں انیتا اور امبر ایوب کی وجہ سے پاکستانیوں کی غیر خاک میں ملی۔
اسی طرح پہلے برگر ملتے تھے، پھر انڈے والا برگر عام ہوا، پھر زنگر، پھر زنگر کے علاوہ چیز برگر، وغیرہ وغیرہ۔ اب کوئی فٹے منہ نہیں پوچھتا۔ جیسے کبھی ہونڈا 125 والے کو دیکھ کر گردنیں مُڑا کرتی تھیں، اور اب ہر کتا بلا لیے پھرتا ہے۔
جب تین جی بی کی ہارڈ ڈِسک سے بیس جی بی پر اپ گریڈ کیا تو جیسے دنیا ہی بدل گئی تھی۔ اب ہر فون تقریباً 128 جی بی لیے پھرتا ہے۔ یہی حال انٹرنیٹ کی سپیڈ کا بھی تھا۔ ہم نے کھانوں میں بھی یہ دیکھا ہے۔ بریانی، چاٹ، دہی بھلے، حلیم وغیرہ میں ایٹمی کے الفاظ شامل ہوئے۔ شوارما چونکہ ابھی نیا ہے، اس لیے بڑا، بہت بڑا، واقعی بڑا کے مراحل طے ہو رہے ہیں۔
گزشتہ چند سالوں میں ہم نے ویڈیوز کا ایک تسلسل سے لیک ہونا مشاہدہ کیا ہے۔ ایک دور میں کسی ہالہ فاروقی کی ویڈیو آئی تھی۔ تمغۂ حسن کارکردگی یافتہ مہوش حیات، رابی پیرزادہ، میرا، شیخ رشید، عامر لیاقت وغیرہ کی ویڈیوز حال ہی میں دریافت ہوئی، اور پھر ایک تانتا بندھ گیا۔ اب سنا ہے کہ حنا پرویز بٹ کی آئی ہے اور کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگ رہی (البتہ یہ جب چاہے گی رمضان ٹرانسمشن کر لے گی)۔
ویڈیوز میں بھی اب زنگر، ڈبل زنگر، اور چیز برگر کی منازل طے ہو گئی ہیں۔ اب آگے کیا ہوگا؟ کیونکہ دلچسپی تو کسی کو رہی نہیں۔ انسان کو سیکس یا سیکس کے فیٹش میں جو کچھ انسانی سطح پر پورا کرنے میں مشکل ہوئی، اُسے Hentai کے ذریعے پورا کر چکا ہے۔ تمام سوراخ میں کیمرے بھی ڈالے جا چکے ہیں۔
گزشتہ بیس سال ایک طرف اور پچھلی بیس بلکہ چالیس صدیاں ایک طرف۔ کسی بھی شعبے میں اب آگے پار کرنے کے لائق حد کسی کو دکھائی نہیں دے رہی۔ کرۂ ارض میں کوئی اور قابلِ رہائش سیارہ ہے نہیں، اور کسی اور کہکشاں یا نظام شمسی میں ممکنہ ستارے لاکھوں سال دور ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اب انسانیت undo ہو گی۔ چاہے وہ تصورات کی سطح پر ہو، معاشرتی ڈھانچے کی شکل میں یا پھر تھیوریز کی شکل میں۔ پاکستانیوں کی دانش کے سوا بہت کچھ Undo ہو جائے گا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...