یہ تصویر جون 1970 کی ہے۔
جب "حمود الرحمن کمیشن" بنا کر فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت اور اکہتر کی جنگ میں اس کی ذمہ داریوں کا تعین کیا جانے لگا تو عقدہ کھلا کہ جنرل یحیٰی خان کے علاوہ بھی ایک لیفٹینٹ جنرل تھا جس کی مٹھی میں یحییٰ خان کی جان بند تھی اور وہ اسکی ہدایات پر عمل کرتے تھے۔ یہ لیفٹنٹ جنرل عبدالحمید خان تھے، جو چیف آف آرمی سٹاف تھے مگر حقیقت میں
انہیں ہی ڈی فیکٹو کمانڈر انچیف کہا جاتا تھا کیونکہ یحییٰ خان اپنی عیاشیوں میں مست رہتے ہوئے اہم قومی فیصلوں کی صلاحیت کھوچکے تھے۔
یحییٰ خان نے جب مارشل لا لگایا تو جنرل عبدالحمید خان کو ڈپٹی چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لگا دیا گیا تھا۔ اکہتر کی جنگ کے بعد حمود الرحمن کمیشن کی 1972 میں جو پہلی رپورٹ صدر ذوالفقار علی بھٹو کو فراہم کی گئی اس میں جنرل عبدالحمید خان کا نام بھی شامل تھا کہ جن سے جسٹس حمود الرحمن کمیشن نے سخت ترین انٹرویو کر کے ان کی اکہتر کی جنگ میں حیثیت کو واضح کیا تھا۔
بھٹو کو جنرل عبدالحمید خان کے بارے میں کسی قسم کا مغالطہ نہیں تھا لہذا اکہتر کی جنگ کے بعد جب انہوں نے 20 دسمبر 1971 کو اقتدار سنبھالا تو اسی روز جنرل عبدالحمید خان کو بھی برطرف کر دیا تھا۔ ان پر کڑی تنقیدی بھی کی گئی کہ جنرل یحییٰ خان کو غلط پٹیاں پڑھانے میں جنرل عبدالحمید خان مختار کل تھے اور جنرل یحییٰ خان ان پر انحصار کرتے تھے۔
یہ بات کس قدر افسوس ناک اور Intellectual Dishonesty کے زمرے میں بھی آتی ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو ان حقائق سے آگاہ نہیں کر رہے جس کی بناء پر "مشرقی پاکستان" بنگلہ دیش بنا۔
سقوط ڈھاکہ کی وجوہات معلوم کرنے کیلئے دسمبر 1971 میں حمود الرحمن کمیشن مقرر کیا گیا جس کی رپورٹ 1974 میں اس وقت کے صدر اور چیف ایگزٹیو، چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور دنیا کے پہلے سول مارشل لاءایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کو پیش کی گئی، لیکن اس رپورٹ کو مکمل طورپر آج تک منظر عام پر نہیں آنے دیا گیا۔
سن دوہزار کے آخری مہینوں میں اس خفیہ رپورٹ کے کچھ اقتباسات ہندوستانی اخبار میں شائع ہونے لگے تو مجبوراً سابق صدر مشرف کو اس رپورٹ کے کچھ حصوں کو غیر مخفی کرنا پڑا۔ وفاقی حکومت کی کابینہ ڈویژن کے ایک کمرے میں اسے چند پابندیوں کے تحت عوام دیکھ سکتے تھے۔ اس رپورٹ کے کچھ حصے Books Vanguard نے بھی شائع کئے ہیں۔ حیرانی اور تشویش کی بات یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے فوراً بعد ہمارے سیاسی لیڈروں اور عسکری قوتوں نے ایک دوسرے پر بلند بانگ الزام تراشی کرتے ہوئے قوم کو اس بحث میں الجھائے رکھا کہ ملک توڑنے کا ذمہ دار کون ہے؟
ہمارا میڈیا بھی ان عوامل پر اس طرح بحث کر کے عوام کی رہنمائی نہیں کر رہا جو اس المناک سانحے کا علمی، فکری اور قومی تقاضہ ہے۔
"حمود الرحمن کمیشن" تین ارکان پر مشتمل تھا۔
برّی، بحری اور فضائی افواج کے تین نمائندے بھی کمیشن کی معاونت کیلئے رکھے گئے تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے ہر شہری کا یہ فرض قرار دیا گیا تھا کہ وہ کمیشن کے ساتھ ہر طرح کی معاونت کرے۔ اس کمیشن کی ساری کارروائی بند کمرے میں ہوئی۔
213 گواہوں کے بیانات لینے اور متعدد دستاویزات کا معائنہ کرنے کے بعد کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ
"یہ سنگین شکست بہت سے سیاسی، اخلاقی، نفسیاتی اور عسکری عوامل کے مجموعی اور طویل تسلسل کا نتیجہ ہے!!"
“