یہ 9۔جولائی 1997 کی بات ہے۔یعنی کوئی 22سال ادھر کی۔عمرے سے فارغ ہونے کے بعد کئ جگہوں کی زیارتیں اور سیاحتیں مطلوب تھیں۔ مدینہ سے خیبر جانے کے لئے نکلے تو سقیفہ بنو ساعدہ رکتے ہوئے گئے ۔بیشتر آثار کو بلڈوز کرنے والی سعودی حکومت اس مقام کی خاصی دیکھ بھال کرتی ہے، اور کرنا بھی چاہیے کہ یہاں اسلامی تاریخ کا اہم باب لکھا گیا تھا۔
عہد نبوی میں، بلکہ اس سے پہلے کی معاشرتی اور تہذیبی زندگی میں بھی سقیفہ اس سائبان یا چوپال کو کہتے تھے جو عموما مجلسی اجتماعات کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ ہر سردار قبیلہ کے پاس ایسے چھوٹے بڑے سقیفے ہوتے تھے۔ ایک افتادہ جگہ ۔۔۔۔یا کوئی ذاتی باغ جسے احاطہ بنا کر گھیر لیا گیا ہو ،اور جہاں وقت ضرورت لوگوں کو جمع کیا جا سکتا ہو ۔بنو ساعدہ کا یہ سقیفہ، مدینے کا واحد سقیفہ نہیں تھا، لیکن یہاں ہونے والے ایک تاریخی واقعہ نے اس کو غیر معمولی اہمیت کا حامل بنا دیا۔
سقیفہ بنو ساعدہ(اگر آپ تصویر دیکھیں ) مسجد نبوی سے بہت دور نہیں ہے، یہاں کے داخلی گیٹ سے عقب میں مسجد نبوی کے مینارے نظر آتے ہیں ۔یہ سقیفہ اصل میں احاطے کے اندر ایک گھنا باغ تھا ۔آج بھی یہ ایسا ہی شاندار باغ ہے ۔۔۔جسے احاطے کے اندر لگے ہینڈ پمپ سے سیراب کیا جاتا ہے، ہو سکتا ہے عہد نبوی میں یہاں کوئی کنواں رہا ہو ۔ احاطے کے چاروں طرف لوہے کے جنگلے ہیں۔سقیفے کے بعض درخت اتنے طویل القامت تھے کہ ہمارے اس وقت کاکیمرہ ان درختوں کی طوالت کو سمیٹ نہیں سکا ۔سقیفے سے جو سڑک مسجد نبوی کو جاتی ہے "طریق ابو بکر صدیق " کہلاتی ہے ۔اس وقت اس کے ایک جانب "فندق الشرق "تعمیر ہو رہا تھا، اب تو یہ ایک مصروف ہوٹل ہو گا، فندق الشرق کے برابر ہی مکتبہ ملک عبدالعزیز کی عمارت ہے ۔
جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا مسلمانوں پر گویا پہاڑ ٹوٹ پڑا، ہر شخص دلگرفتہ اور ہر انکھ اشکبار تھی،مسجد نبوی میں سوگواروں کا خاموش ہجوم تھا ۔کہ دو بدری اصحاب عویم بن ساعدہ اورمعن بن عدی نہایت عجلت میں مسجد میں ائے، سیدھے ابو بکر صدیق کے پاس گئے اور انہیں باہر بلایا ۔۔ابوبکر صدیق نے انہیں ٹالنا چاہا، تو انہوں نے سرگوشی کی " فتنے کا دروازہ ۔۔۔اگر آج اسے اللہ تعالی نے آپ کے ہاتھوں بند نہ کیا، تو کبھی بند نہیں ہو گا، سعد بن عبادہ، سقیفہ بنو ساعدہ میں موجود ہیں ۔۔۔لوگ ان کی امارت کی بیعت کے لئے جمع ہو رہے ہیں "
یہ واقعی بڑا مسئلہ تھا، جس میں مسلمان پڑ سکتے تھے ۔۔۔ایک کے بعد ایک پریشانی ۔۔۔۔ابھی تو تدفین کا عمل بھی مکمل نہیں ہوا تھا ۔بہرحال حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر کو لے کر سقیفہ کی طرف چلے، راستے میں ابو عبیدہ بن الجراح ملے، وہ بھی ساتھ ہو لئے ۔جب یہ پانچوں وہاں پہنچے تو ایک ہنگامہ سا بپا تھا، کوئی خطیب انصار کی فضیلت میں تقریر کر کے سعد بن عبادہ کے حق امارت کی راہ ہموار کر رہا تھا ۔
اس کی تقریر ختم ہوئ تو ابو بکر صدیق نے جو تقریر کی، اور اس میں جس حدیث نبوی کا حوالہ دیا : " الائمہ من القریش " اس نے حالات کو قدرے سنبھالا دیا ۔اس وقت ایک تجویز یہ پیش کی گئ کہ ایک امیر قریش سے ہو اور ایک امیر انصار سے۔لیکن یہ امت کو دو لخت کرنے والی بات تھی،پھر انصار میں بھی اوس اور خزرج کے دو طاقتور قبائل تھے، اوس کا امیر خزرج کے لئے اور خزرج کا امیر اوس کے لیے ہرگز قابل قبول نہ ہوتا ۔پھر تو اس تقسیم در تقسیم کو روکنا ممکن ہی نہ رہتا ۔
اسی لمحے حضرت عمر رضی اللہ تعالی نے فیصلہ کن انداز میں ابو بکر صدیق سے کہا: ہاتھ بڑھائیے ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے کیونکہ اپ ہم میں بزرگ ۔۔۔۔ہم میں سب سے بہتر اور رسول اللہ کے سب سے قریبی ساتھی ہیں ۔۔اور رسول اللہ آپ سے راضی تھے" ۔حضرت عمر نے بیعت کی تو سب ایک کے بعد ایک بیعت کے لئے لپکنے لگے ۔
یوں چند گھنٹوں میں ایک طوفان افتراق تھا جسے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی بصیرت نے ربع صدی پرے دھکیل دیا ۔ سب نے بیعت کی، نہ کی تو سعد بن عبادہ نے!
اس دن انہیں بخار تھا، وہ اپنی چادر لپیٹے جہاں بیٹھے تھے وہیں بیٹھے رہے ۔ اور پھر بغیر بیعت کئے اٹھ کر چلے گئے ۔۔وہ اپنے آپ کو امامت کا سب سے زیادہ موزوں اور طاقتور امیدوار سمجھتے تھے۔ اور کچھ ایسا غلط بھی نہیں سمجھتے تھے ۔وہ مدینے کی مضبوط ترین مقامی شخصیت تھے ۔رئیس المنافقین، عبداللہ بن ابئ کے مرنے کے بعد بنو خزرج کے سردار تھے ۔۔۔۔ان کی ایک پکار پر ہزاروں تلواریں تڑپ کر میان سے باہر آ سکتی تھیں ۔۔۔ان کا عالیشان مکان بلکہ محل محتاجوں، مسکینوں،بھوکوں اور مسافروں کے لئے بہت بڑی پناہ گاہ تھی ۔ان کے مکان کی منڈیر سے ہر شام ایک پکارنے والا پکارتا تھا: "اگر کوئی مسافر ہے جس کے پاس رات گزارنے کا ٹھکانہ نہ ہو تو یہاں چلا آئے ۔۔۔۔اگر کوئی بھوکا ہے تو یہاں چلا آئے "
سعد بڑے متمول تھے۔۔۔۔ان کی سرداروں والی دریا دلی غیر معمولی تھی ۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھوکے صحابہ خصوصا اصحاب صفہ کو اپنے ساتھ لے جاتے، بعض اوقات ایک ایک وقت میں وہ اسی اسی(80) اصحاب کو کھانا کھلانے اپنے گھر لے جاتے ۔رسول اللہ کے لئے روزانہ کوئی نہ کوئی سالن ان کے گھر پہنچاتے(اسی لیے رسول اللہ کےگھر کئ کئ دن چولہا جلانے کی ضرورت نہ پڑتی )۔
سعد بن عبادہ مدینے کے ان چند افراد میں تھے جنہیں "الکامل " کہا جاتا تھا ۔اور کامل وہ ہوتا تھا جس میں بیک وقت تین خوبیاں ہوں ۔یعنی اسے تیر اندازی ۔۔۔۔تیراکی اور لکھنا پڑھنا آتا ہو ۔
سعد مدینے کے سابقون الاولون میں سے تھے ۔
یہ وہ تھے جنہوں نے دو قبلوں کی طرف منھ کر کے نماز پڑھی ۔
یہ بیت عقبہ میں شریک تھے ۔
جب رسول اللہ غزوہ ابواء کے لئے گئے تو سعد مدینے میں رسول اللہ کے نائب تھے ۔
غزوہ بدر میں کل ستر اونٹ تھے،ان میں سے بیس سعد بن عبادہ نے دیئے تھے ۔
فتح مکہ کے موقع پر انصار کے علمبردار یہی سعد تھے(یہ دوسری بات ہے کہ بعد میں ان سے علم لے کر ان کے بیٹے کو دے دیا گیا تھا )
لہذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ اہل مدینہ نے انہیں رسول اللہ کی جانشینی کے لئے چننا چاہا تھا ۔لیکن جب تمام حاضرین نے ابو بکر صدیق کی بیعت کر لی تو سعد بن عبادہ خاموش ہو گئے ۔نہ انہوں نے ابو بکر صدیق کی بیعت کی ۔۔۔۔نہ ابو بکر صدیق نے اس پر اصرار کیا ۔
یوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ اصحاب نے امت کو تقسیم ہونے سے بچا لیا ۔
اور جس جگہ یہ تاریخی فیصلہ ہوا وہ یہی سقیفہ بنو ساعدہ تھا ۔۔۔ہمیشہ کی طرح سر سبز و شاداب ۔۔۔
“