مملکت خدادادِ پاکستان میں اُس دن بھی کابینہ کی میٹنگ منعقد ہوئی تھی۔ یہاں لوڈشیڈنگ تھی نہ دھوپ، کمرا اتنا ٹھنڈا تھا کہ کوٹوں اور واسکٹوں میں سب نے اپنے آپ کو فِٹ محسوس کیا تھا۔ وزیراعظم نے مِنرل واٹر کی بوتل کھولی تھی۔ اس لمحے کو ٹیلی ویژن کیمروں نے محفوظ کر لیا تھا۔ اگر اُس کے گھر میں ٹیلی ویژن ہوتا تو وہ بھی یہ منظر دیکھتا۔
مملکت خداداد میں اُس دن بھی لاکھوں ٹن شربت، کولڈ ڈرنک، پھلوں کے رس، بوتلوں اور ڈبوں کی صورت میں تیار ہوئے تھے۔ دساور سے بھی پہنچے تھے۔ فائیو سٹار ہوٹلوں سے لے کر محلات تک، عام ریستوران سے لے کر کوٹھیوں تک، کھوکھوں اور ریڑھیوں سے لے کر گلیوں محلوں تک کروڑوں خوش قسمتوں نے یہ مشروبات پیے تھے اور اپنی پیاس بُجھائی تھی۔ تباہ حال معیشت کے باوجود اُس دن بھی لاکھوں تقاریب شادیوں کی برپا ہوئی تھیں۔ خوبصورت خیمے نصب کیے گئے تھے جن میں پنکھے چل رہے تھے۔ عالی شان ہوٹلوں، وسیع و عریض شادی ہالوں، سول گیسٹ ہائوسوں اور فوجی میسوں میں منعقد کی گئی ان شادیوں کی تقاریب میں درجنوں کورس کے کھانے پیش کیے گئے تھے۔ مشروبات کی ریل پیل تھی۔ زرق برق پوشاکوں میں ملبوس خوبصورت گول مٹول بچوں نے بوتلوں پر بوتلیں لنڈھائی تھیں۔
اُس دن بھی جہازی سائز کی گاڑیوں میں سوار خوش بخت بچوں نے لبرٹی، ڈیفنس مارکیٹ، جناح سپر اور کلفٹن میں فیشن ایبل دکانوں، سپر سٹوروں اور مغربی طرز کے Out Letsپر آکر آئس کریم کھائی تھی۔ قسم قسم کی آئس کریمیں، عجیب عجیب ناموں والی۔ انہوں نے کاروں، لینڈ کروزروں، پجاروں میں بیٹھے بیٹھے ہی آرڈر دیے تھے۔ اُس وقت ان کی گاڑیوں کے ائیر کنڈیشنر چل رہے تھے۔
اسلام کے اِس اکلوتے قلعے میں اُس دن بھی فلسطین‘ عراق اور چیچینا کے بچوں کی فکر میں غلطاں رہنمائوں نے تقریریں کی تھیں۔ مسلح محافظوں کے سائے میں کھڑے ہو کر انہوں نے اُس دن بھی عہد کیا تھا کہ وہ مغرب کو ناکوں چنے چبوا دیں گے۔ کروڑ پتی سابق جرنیلو ں نے اُس دن بھی افغانستان اور امریکہ کے بارے میں فلسفیانہ مضامین لکھے تھے اور نہ سمجھ میں آنے والی موشگافیاں کی تھیں۔ اُس دن بھی گِری ہوئی دیوار برلن کے محفوظ شدہ ٹکڑوں سے شیش محل نما ڈرائنگ روموں میں گرد صاف کی گئی تھی۔
اُس دن بھی بلاول زرداری بھٹو، حمزہ شہباز، مریم نواز، مونس الٰہی اور فضہ گیلانی نے اپنی اپنی جائیدادوں، جاگیروں، صنعتوں، کارخانوں، فیکٹریوں اور فارموں کا جائزہ لیا ہو گا اور اُس عرصے کو ماپا ہو گا جو اُن کے اور تخت کے درمیان وقتی طور پر حائل ہے۔
ستائیسویں رمضان کو معرضِ وجود میں آنے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان سے باہر بھی اُس دن عالمِ اسلام کے اطراف و اکناف میں مسلمان اپنی اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہے تھے۔ مشرقِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے شہزادے نے ڈزنی لینڈ پیرس میں اپنے گریجوایٹ ہونے کی تقریب منعقد کرتے ہوئے پندرہ ملین یعنی ڈیڑھ کروڑ یورو خرچ کیے تھے۔ ڈلروں میں یہ رقم ایک کروڑ پچانوے لاکھ بنتی ہے۔
اس دن بھی رباط ، سکندریہ، قاہرہ، جدہ، دبئی، انقرہ، کراچی، جکارتہ اور دارالسلام میں محلات کی تعمیر جاری رہی تھی۔ بڑے بڑے محلات، ساحلوں پر، پہاڑوں کے دامن میں، جزیروں کے درمیان، یورپ اور امریکہ کے خوبصورت قصبوں میں، بحر روم کے کناروں پر۔ اس دن بھی عرب شہزادوں اور بادشاہوں نے ان ہوائی جہازوں کی تعمیر کے آرڈر دیے تھے جن میں کثیر المنزلہ خواب گاہیں، ڈرائنگ روم اور بارمہیا کیے جاتے ہیں ۔ جن کا ایک واش روم کروڑوں ڈالروں میں تیار ہوتا ہے، جن میں ملازمین کی افواج ظفر موج فضائوں میں مالکان کے ایک ایک اشارۂ ابرو کی تعمیل جان ودل سے کرتی ہیں اور جن کی تنخواہیں کوہ تخیل سے بھی بلند تر ہیں۔
اس دن بھی ہمارے آسودہ حال ٹی وی اینکر، لاکھوں روپوں کے سوٹوں میں ملبوس اپنے اپنے محلات سے عالی شان سواریوں میں بیٹھ کر ٹی وی سٹوڈیوز میں پہنچے تھے۔ ان کی ٹیمیں اس دن بھی وزیروں اور گورنروں کی سرگرمیوں کو کورکرنے ہرجگہ گئی تھیں۔ یہ محض اتفاق تھا کہ مرتے ہوئے ثاقب کو دیکھنے یادکھانے کوئی ٹیلی ویژن ٹیم نہ پہنچ سکی تھی۔ اس کی خون آلود گردن اور کٹے ہوئے پیٹ کی تصویر پرنٹ میڈیا میں بھی نہ چھپ سکی تھی۔ بس اندر کے کسی صفحے پر ایک کالمی خبر چھپی تھی جو چار پانچ سطروں سے زیادہ نہ تھی۔ صدر، وزیراعظم گورنروں وزیروں مشیروں اور پوری دنیا پراسلام کا جھنڈلہرانے کا عزم رکھنے والے مجاہدین اسلام کے پاس دم توڑتے ثاقب کے لیے وقت نہیں تھا۔
اس دن چک 53گ ب میں دس سالہ ثاقب برف فروش کے پاس آیا تھا۔ پیاس سے اس کے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ زبان خشک تالو سے لگ کر باہر آرہی تھی۔ اس نے برف فروش سے برف مانگی۔ برف فروش نے کہا پیسے لائو۔ اسلام کے اس قلعے میں رہنے والے ثاقب کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ برف کا ایک انچ لمبا ، ایک انچ چوڑا اور آدھا انچ موٹا ٹکڑا خرید سکتا۔ برف بیچنے والے نے انکار کردیا ۔ ثاقب کا پیاس سے براحال تھا۔ فرشتے العطش العطش پکاررہے تھے۔ ثاقب نے غیراختیاری طورپر برف کا چھوٹا سا مکعب نما ٹکڑا ، کنارے سے اٹھا کر منہ میں ڈالا اور اسے چوسنے لگا۔ برف فروش کے ہاتھ میں سوا تھا جس سے وہ برف کی چٹانیں کاٹتا اور چیرتا تھا۔ اس نے نوک والی طرف سے سوا ثاقب کے جسم میں گاڑ دیا۔ کچھ کہتے ہیں سوا گردن میںپیوست ہوا، کچھ بتاتے ہیں پیٹ میں گیا، ہوسکتا ہے ۔ نرم دل برف فروش نے پہلے پیٹ میں سوا گاڑا ہو اور پھر دوسراوار گردن پر کیا ہو، بہرحال سوا پیٹ میں گڑا یا گردن میں، ثاقب گرپڑا، اسے جڑانوالہ تحصیل ہسپتال لے جایا گیا۔ تحصیل
ہسپتال کی حالت ویسی ہی تھی جیسی اس مملکت خداداد میں سرکاری ہسپتالوں کی عموماً اور تحصیل ہسپتالوں کی خصوصاً ہوتی ہے۔ موت کے ننھے دس سالہ مسافر کو وہاں سے فیصل آباد ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں پیر کی صبح اس نے بیس بیس حج اور پچاس پچاس عمرے کرنے والے نیکوکاروں کی اس پاک سرزمین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔
آدھی دنیاپرحکمرانی کرنے والے کھدر پوش،بوریا نشین فاروق اعظمؓ نے کہا تھا کہ اگرفرات کے کنارے کتا بھی مرگیا تو عمرؓ سے جواب طلبی ہوگی! لیکن ثاقب کی کٹی ہوئی گردن اور انتڑیاں نکالتے پیٹ کے بارے میں حکمرانوں سے کوئی پوچھ گچھ نہیںہوگی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول پاکستان عمرفاروق اعظمؓ کی سلطنت کے ایک صوبے سے بھی چھوٹا ہے۔ دوم، ماچس کی ڈبیا کے سائز کے اس ملک میں رسل ورسائل اور مواصلات اکیسویں صدی کی ہیں۔ سوم عمرؓ غریب شخص تھے۔ ہمارے حکمران کھرب پتی ہیں۔
ثاقب کا خون کس کی گردن پر ہے ؟ برف فروش کی گردن پر یا ان کی گردن پر جوثاقب کی ضروریات کے ذمہ دارتھے اور جن سے کل ضرور پوچھا جائے گا اس لیے کہ ثاقب فرات کے کنارے مرتا ہوا کتا نہ تھا ، انسان تھا !
دنیا کے پچاس پچپن مسلمان ملکوں میںپاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کا قلعہ ہونے کا دعویدار ہے۔ اسلام کے اس قلعے میں رہنے والے پندرہ امیرترین شخص اگر اپنی اپنی دولت کا نصف حصہ ۔نہیں۔ نصف چھوڑیے، ایک تہائی بھی بروئے کار لائیں تو اس ملک میں چوبیس گھنٹے بجلی مہیا ہوسکتی ہے اور ہرثاقب کے گھر میں ریفریجریٹر ہوسکتا ہے !