آریا پہلے پہل برصغیر میں وارد ہوئے تو ان کا اولین وطن پنجاب کا خطہ بنا تھا۔ اِسی علاقہ میں ان کے اولین شہر اور بستیاں آباد ہوئیں اور ان کی سب سے پہلی مقدس کتاب بھی یہیں لکھی گئی۔ آریا شروع شروع میں صرف دریائے سندھ اور پنجاب کے علاقہ تک محدود تھے۔ چنانچہ ان کے پرانے نوشتوں میں دریائے سندھ کا ذکر بار بار ملتا ہے اور دریائے گنگا کا ذکر نہیں ملتا۔ اس طرح اس حقیقت میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا کہ یہ گندم گوں نسل جب کوہ قراقرم کی بلندیوں سے اتر کر اس علاقہ میں داخل ہوئی تو اس نے سب سے پہلے دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر قبضہ کیا تھا۔ بلکہ ایک نئی تحقیق کے مطابق اب تو یہ ثابت ہو رہا ہے کہ اس تہذیب کا مرکز ہریانہ کا علاقہ تھا۔
بھارت کی کوروکھشیتر یونیورسٹی کے ماہرین نے وادی سندھ کی تہذیب کے بارے میں ایک نیا نظریہ پیش کیا ہے۔ جس کے مطابق موہن جوڈارو اور ہڑپہ کی تہذیب کا دریائے سندھ یا وادیٔ سندھ سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ اس تہذیب نے صوبہ ہریانہ کے ضلع حصار میں دریائے سرسوتی کے کنارے جنم لیا۔ اور راجستھان اور گجرات کے علاقہ میں نشوونما پائی۔ اس طرح “ سندھو دیش“ موجودہ صوبہ سندھ کے کسی حصہ کو نہیں بلکہ بھارت کے ضلع حصار کو کہا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹی کے ایک ماہر ڈاکٹر وشنو شرمی دھر کے مطابق ضلع حصار میں بیس سال قبل کھدائی شروع کی گئی تھی جس کے نتیجہ میں دریائے سرسوتی کے کنارے قدیم سندھی تہذیب کے نو سو آثار دریافت ہوئے ہیں اور مزید آثار ملنے کی توقع ہے۔ جب کہ صوبہ سندھ میں سندھی تہذیب کے صرف تیس آثار موجود ہیں۔ ڈاکٹر شرمی دھر کا کہنا ہے کہ قدیم زمانہ میں دریائے سرسوتی پانی پت کے قریب سے گزرتا تھا۔ اور مہا بھارت کی جنگ اس دریا کے کنارے لڑی گئی۔ جنگ کے بعد دریا خشک ہو گیا اور اس جنگ کے آثار رفتہ رفتہ معدوم ہوتے گئے۔
رِگ وید (لغوی معنی سرچشمہ علم یا سر چشمہ بصیرت) جسے ہندو سب سے بلند مرتبہ ، سب سے زیادہ مقدس اور سب سے زیادہ قدیم شاستر تسلیم کرتے ہیں، اور جسے وہ الہامی کتاب مانتے ہیں اور جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ خدائی کلام ہے ، اس لئے مکمل ہے ، غلطیوں سے مبرا ہے اور تمام سچائیوں کا جامع ہے۔ یہ کتاب مقدس دعاؤں کا مجموعہ ہے جو بھجنوں کی شکل میں ہیں اور جن کی تعداد 1017 ہے۔ رِگ وید کے بھجن پنجاب اور دریائے سندھ کے کنارے پر آباد بستیوں میں لکھے گئے تھے۔ یہاں (پنجاب) میں ہی یہ بھجن گائے جاتے تھے۔
دریائے سندھ کو آریا دولت کی بخشیش کرنے والا دیوتا خیال کرتے تھے اور یہ دریا خصوصی تعریف اور احترام کا حقدار سمجھا جاتا تھا۔ “سپتا سندھوا“ یعنی سات دریاؤں کا ذکر بھی رِگ وید میں آریاؤں کے وطن کے سلسلہ میں کیا گیا ہے۔ ان سات دریاؤں میں سے ساتواں دریا سَر سَوتِی ہے جسے سَرسُوتی بھی کہا جاتا ہے۔ ان دریاؤں کو وید میں سات بہنوں کا نام دیا گیا ہے۔ ان ہی دریاؤں کے باعث یہ علاقہ خوب سیراب تھا اور سر سبز چراگاہوں سے پُر تھا۔
اس سلسلہ میں پروفیسر محمد صدیق چیمہ نے لکھا ہے۔ “دراوڑی اقوام پر آریاؤں کا غلبہ 2000 قبل میسح تک مکمل ہو چکا تھا۔ آریاؤں نے سب سے پہلے خطۂ پنجاب کو ہی رنگین کیا تھا۔ اور یہیں اپنی منتشر قوتوں کو متجمع کر کے آگے بڑھے تھے۔ قدیم ویدوں میں اس خطہ کو “سپت سندھوں“ کہہ کر پکارا گیا ہے۔ ویدوں کی رزمیہ نظموں میں ان سات دریاؤں کا ذکر ہے۔1۔ سندھو(سندھ) 2۔ ودشتا (جہلم) 3۔ چندر بھاگا (چناب) 4۔ ایراوتی (راوی) 5۔ وپاس (بیاس) 6۔ شوتدری (ستلج) 7۔ سرستی (سرسوتی)۔ گویا سندھ سے لے کر سرسوتی تک کا علاقہ آریوں کے زیر نگین تھا۔ اور یہی علاقہ پنجاب کہلاتا ہے۔ رگِ وید میں بالخصوص دوسرے منڈل سے لے کر دسویں منڈل تک اس علاقہ کی معاشرتی زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جس سرزمین میں آریا لوگ اپنے دیوتاؤں کی آمد و رفت کا عقیدہ رکھتے تھے۔ یا یہ مانتے تھے کہ اس کو انہوں نے پیدا کیا ہے۔ اس کا نام منو نے “برھما ورت“ لکھا ہے۔ غالباً اس نام سے پنجاب کا وہ کل حصہ مراد ہے۔ جہاں آریا ہندوستان میں آگے بڑھنے سے پہلے آباد تھے۔
سات دریاؤں کی سرزمین کے بارے میں ایک اور مؤرخ لکھتے وقت سرسوتی کی جگہ گھگھر کا نام لکھتے ہیں۔ “پنجاب کے ساتوں دریا یعنی سندھ ، جہلم ، چناب، راوی، بیاس، ستلج اور گھگھر ہمالیہ سے نکلتے ہیں اور برف پوش پہاڑوں کے درمیان طویل راستہ طے کر کے ، جو بعض اوقات کئی سو میل پر مشتمل ہے، میدانی علاقہ میں داخل ہوتے ہیں۔ میدانی علاقہ کا ڈھلان جنوب اور جنوب مغرب کی جانب ہے۔ اور بہت آہستہ ہے جو ایک میل میں دو فٹ سے زیادیہ نہیں ہوتا۔ یہی بات ان دریاؤں کے راستہ کو متعین کرتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر دریا نے اپنے لیے ایک وادی پیدا کر لی ہے۔
اس طرح اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ سرسوتی اور گھگھر ایک ہی دریا کے دو نام ہیں۔ آریاؤں کی اولین رہائش گاہ بننے والی سرزمین میں بہنے والے دریاؤں کی تعداد تو سات ہی ہے۔ اس تعداد کا تعین ہندوؤں کی مقدس کتاب میں کر دیا گیا ہے۔ اس لیے یہی بات قرین قیاس نظر آتی ہے کہ یہ دونوں نام ایک ہی دریا کے ہیں۔ اگر انہیں الگ الگ دریاؤں کے نام تسلیم کیا جائے تو اس علاقہ کے دریاؤں کی تعداد آٹھ ہو جاتی ہے۔ جو کہ درست نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی سید محمد لطیف کی بات بھی بہت وزن رکھتی ہے کہ آریاؤں کی ابتدائی آبادیوں میں سے ایک مشہور آبادی سرسوتی اور دریشدوتی (گھگھر) کے درمیان واقع تھی۔ اس طرح یہ دونوں نام الگ الگ دریاؤں کے نظر آتے ہیں۔ اس مسئلہ کو واضح طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان دونوں ناموں سے موسوم دریا یا دریاؤں کے بارے میں مؤرخین نے جو کچھ لکھا ہے اس کا ایک سرسری جائزہ لے لیا جائے۔ اور اس کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کی جائے۔
یہ جائزہ بہت ضروری ہے اولاً اس لیے کہ مذکورہ سات دریاؤں میں سے صرف دو دریا ایسے ہیں جنہیں آریا مقدس مانتے ہیں۔ پہلا دریا سندھ ہے جسے وہ دولت کی بخشیش کرنے والا دیوتا سمجھتے تھے اور دوسرا دریا سرسوتی ہے۔ جسے وہ نہ صرف مقدس اور متبرک سمجھتے تھے بلکہ اسے ایک دیوی کا روپ دیتے تھے اور اس کی پرستش کرتے تھے۔ بلکہ آج تک بھی اسی نام کی ایک دیوی ہندو علم اصنام میں موجود ہے۔ ثانیاً اس لیے کہ یہی وہ دریا ہے جسے پنجاب کا “نظر نہ آنے والا دریا“ (Unseen River) یا “سندھ کا گمشدہ دریا " (Lost river of Sindh) کہا جاتا ہے اور جس کے بارے میں بحث و مباحثہ اور قیاس ارائیاں طویل عرصہ سے جاری ہیں۔