1965 سے 17 ستمبر 2005 تک انڈیا کی قید میں رہنے والے بے زبان جنگی سپاہی مقبول حسین ملٹری اسپتال اٹک میں انتقال کرگئے۔
جنگ اخبار میں علی معین نوازش کے ایک کالم میں انکے متعلق تفصیل کچھ یوں درج ہے۔ 17 ستمبر 2005 کو واہگہ بارڈر کے راستے انڈین حکام نے قیدیوں کا ایک گروپ پاکستانی حکام کے حوالے کیا۔ اس گروپ میں مختلف نوعیت کے قیدی تھے۔ ان کے ہاتھوں میں گٹھڑیوں کی شکل میں کچھ سامان تھا جو شاید ان کے کپڑے وغیرہ تھے۔ لیکن اس گروپ میں ساٹھ پینسٹھ سالہ ایک ایسا پاکستانی بھی شامل تھا۔ جس کے ہاتھوں میں کوئی گٹھڑی نہ تھی۔ جسم پر ہڈیوں اور ان ہڈیوں کے ساتھ چمٹی ہوئی اس کی کھال کے علاوہ گوشت کا کوئی نام نہیں تھا۔ اور جسم اس طرح مڑا ہوا تھا جیسے پتنگ کی اوپر والی کان مڑی ہوتی ہے۔ خودرو جھاڑیوں کی طرح سرکے بے ترتیب بال جنہیں دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ طویل عرصے تک ان بالوں نے تیل یا کنگھی کی شکل تک نہیں دیکھی ہو گی۔ اور دکھ کی بات کہ پاکستان داخل ہونے والے اس قیدی کی زبان بھی کٹی ہوئی تھی لیکن ان سارے مصائب کے باوجود اس قیدی میں ایک چیز بڑی مختلف تھی اور وہ تھیں اس کی آنکھیں جن میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ پاکستانی حکام کی طرف سے ابتدائی کارروائی کے بعد ان سارے قیدیوں کو فارغ کردیا گیا۔ سارے قیدی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ لیکن یہ بوڑھا قیدی اپنے گھر جانے کی بجائے ایک عجیب منزل کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ کانپتے اور ناتواں ہاتھوں سے وہ ٹوٹے ہوئے الفاظ لکھ لکھ کر اپنی منزل کا پتہ پوچھتا رہا اور ہر کوئی اسے ایک غریب سائل سمجھ کر اس کی رہنمائی کرتا رہا۔ اور یوں 2005 میں یہ بوڑھا شخص پاکستان آرمی کی آزاد کشمیر رجمنٹ تک پہنچ گیا وہاں پہنچ کر اس نے ایک عجیب دعوی کردیا۔ اس دعوے کے پیش نظر اس شخص کو رجمنٹ کمانڈر کے سامنے پیش کردیا۔ کمانڈر کے سامنے پیش ہوتے ہی نہ جانے اس بوڑھے ناتواں شخص میں کہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ اس نے ایک نوجوان فوجی کی طرح کمانڈر کو سلیوٹ کیا اور ایک کاغذ پر ٹوٹے ہوئے الفاظ میں لکھا ”سپاہی مقبول حسین نمبر 335139 ڈیوٹی پر آگیا ہے اور اپنے کمانڈر کے حکم کا منتظر ہے“
کمانڈر کو کٹی ہوئی زبان کے اس لاغر، ناتواں اور بدحواس شخص کے اس دعوے نے چکرا کے رکھ دیا۔ کمانڈر کبھی اس تحریر کو دیکھتا اور کبھی اس بوڑھے شخص کو جس نے ابھی کچھ دیر پہلے ایک نوجوان فوجی کی طرح بھرپور سلیوٹ کیا تھا۔ کمانڈر کے حکم پر قیدی کے لکھے ہوئے نام اور نمبر کی مدد سے جب فوجی ریکارڈ کی پرانی فائلوں کی گرد جھاڑی گئی اور اس شخص کے رشتہ داروں کو ڈھونڈ کے لایا گیا تو ایک دل ہلا دینے والی داستان سامنے آئی۔ اور یہ داستان جاننے کے بعد اب پھولوں، فیتوں اور سٹارز والے اس لاغر شخص کو سلیوٹ مار رہے تھے۔ اس شخص کا نام سپاہی مقبول حسین تھا جو 65 کی جنگ میں سپاہی مقبول حسین کیپٹن شیر کی قیادت میں انڈیا کے علاقے میں انکے اسلحہ کے ایک ڈپو کو تباہ کرکے واپس آرہا تھا کہ کہ اس دوران انڈین فوج سے انکی جھڑپ ہو گئی۔ سپاہی مقبول حسین جو اپنی پشت پر وائرلیس سیٹ اٹھائے اپنے افسران کے لئے پیغام رسانی کے فرائض کے ساتھ ہاتھ میں اٹھائی گن سے انڈین فوج کا مقابلہ بھی کر رہا تھا اور اس مقابلے میں زخمی بھی ہو گیا۔ باقی سپاہی اسے اٹھا کر واپس لانے لگے تو سپاہی مقبول حسین نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بجائے میں زخمی حالت میں آپ کا بوجھ بنوں، میں انڈین فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ کیلئے محفوظ راستہ مہیا کرتا ہوں۔ ساتھیوں کا اصرار دیکھ کر مقبول حسین نے ایک چال چلی اور خود کو چھوٹی کھائی میں گرا کر اپنے ساتھیوں کی نظروں سے اوجھل کرلیا۔ دوست تلاش کے بعد واپس لوٹ گئے تو اس نے ایک مرتبہ پھر انڈین فوج کے فوجیوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اسی دوران انڈین فوج کیطرف سے فائر کیے گئے ایک گولے نے سپاہی مقبول حسین کو شدید زخمی کردیا۔ وہ بے ہوش ہو کر گرپڑا اور انڈین فوج نے اکر اسے گرفتار کرلیا۔ جنگ کے بادل چھٹے تو دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا تو انڈیا نے کہیں بھی سپاہی مقبول حسین کا ذکر نہ کیا۔ اس لئے ہماری فوج نے بھی سپاہی مقبول حسین کو شہید تصور کرلیا۔ بہادر شہیدوں کی بنائی گئی ایک یادگار پر اس کا نام بھی کندہ کردیا گیا۔ ادھر انڈین فوج خوبصورت اور کڑیل جسم کے مالک سپاہی مقبول حسین کی زبان کھلوانے کیلئے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑنے لگی۔ اسے 4X4 فٹ کے ایک پنجرا نما کوٹھڑی میں قید کردیا گیا۔ جہاں وہ نہ بیٹھ سکتا تھا نہ لیٹ سکتا تھا۔ انڈین فوج نے انسان سوز مظالم کے باوجود اس سے کچھ اگلوا نہ سکی۔ سپاہی مقبول حسین کی بہادری اور ثابت قدمی نے انڈیا کے تفتیشی فوجی افسران کو پاگل کردیا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ مقبول حسین کوئی راز نہیں بتاتا تو وہ اپنی تسکین کیلئے مقبول حسین کو تشدد کا نشانہ بنا کر کہتے ”کہو پاکستان مردہ باد“ اور سپاہی مقبول حسین اپنی ساری توانائی اکٹھی کرکے نعرہ مارتا پاکستان زندہ باد، جو انڈین فوجیوں کو جھلا کے رکھ دیتا۔ وہ چلانے لگتے اور سپاہی مقبول کو پاگل پاگل کہنا شروع کردیتے اور کہتے کہ یہ پاکستانی فوجی پاگل اپنی جان کا دشمن ہے اور سپاہی مقبول حسین کہتا ہاں میں پاگل ہوں۔ ہاں میں پاگل ہوں۔ اپنے ملک کے ایک ایک ایک ذرّے کے لئے۔۔ ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کے کونے کونے کے دفاع کیلئے۔۔ ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کی عزت و وقار کے لئے۔۔ سپاہی مقبول حسین کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ انڈین تفتیشی فوجی افسران کے ذہنوں پر ہتھوڑوں کی طرح لگتے۔ آخر انہوں نے اس کے زبان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا انہوں نے سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی اور اسے پھر 4x4 کی اندھیری کوٹھڑی میں ڈال کر مقفل کردیا۔ سپاہی مقبول حسین نے 1965ء سے لیکر 2005ء تک اپنی زندگی کے بہترین چالیس سال اس کوٹھڑی میں گزار دیئے اب وہ کٹی زبان سے پاکستان زندہ آباد کا نعرہ تو نہیں لگا سکتا تھا لیکن اپنے جسم پر لباس کے نام پر پہنے چیتھڑوں کی مدد سے 4x4 فٹ کوٹھڑی کی دیوار کے ایک حصے کو صاف کرتا اور اپنے جسم سے رستے ہوئے خون کی مدد سے وہاں پاکستان زندہ باد لکھ دیتا تھا۔ یوں سپاہی مقبول حسین اپنی زندگی کے بہترین دن اپنے وطن کی محبت کے پاگل پن میں گزارتا رہا۔
آئیں ہم مل کر آج دنیا میں موجود ایسے سارے پاگلوں کو سلیوٹ کرتے ہیں جو اپنے وطن کی خاطر اتنی سختیاں جھیل لیتے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔