جب کبھی بارشوں کا موسم ہوتا تو میرے سرکاری کمرے کی کھڑکیوں کے ٹوٹے ہوئے شیشوں سے ہوا کے ساتھ بارش کے قطرے پھوہار کی شکل چھن چھن کر میرے کمرے میں یوں داخل ہوجاتے جیسے طلوع صبح کے وقت پہاڑوں کی اوٹ سے سرنکالتے صبح کے سورج کی منہ زور پاکیزہ کرنیں کھڑکیوں اور روشن دانوں سے کمروں میں داخل ہوجایا کرتی ہیں ۔
میرے کمرے میں پڑی ہر چیز میں نمی آجایا کرتی ۔ مجھے ایسا لگتا میری تنہائی کے درد کو کمرے میں موجود تمھاری دی ہوئی نشانیاں بھی محسوس کرنے لگتیں ۔ ان بارشوں کے دلفریب موسموں سے ہٹ کر بھی اکثر میں نے اپنی سرکاری قمیض کے ٹوٹے ہوئے بٹن ٹھیک کرتے ہوئے تمھاری یادوں میں گم ہوکر سوئی سے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو زخمی کیا ۔ بہرحال ایسے موسموں میں ، ایسے موسموں میں تو بٹوئے میں لگی تمھاری تصویر بھی اداس اور اشکوں میں ڈوبی ہوئی لگتی اور شائد یہی وجہ تھی کہ اس طرح کی موہنی صورتحال میں بارشوں کے قطروں کی نمی جو ہوا کے ساتھ میرے کمرے میں آجایا کرتی تھی مجھے میری پلکوں پہ رقصاں لگتی اداسی کا ایک سمندر میرے کمرے میں امنڈ آتا اور بشمول میرے ، میرے کمرے میں پڑی ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ۔پھر مجھے یوں لگتا جیسے تم بادلوں کے ساتھ ہجرت کرکے بارش کے قطروں میں پنہاں میرے کمرے میں آگئی ہو اور میں کسی معصوم سے بچے کی طرح ہچکیاں بھرتے ہوئے تمھاری طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے کھڑا ہوں ۔ میری اس کیفیت کو دیکھ کر تم ہلکا سا مسکرا کے کہتی ہو صاب جی پریشان کیوں ہو دیکھو میں تو ہر وقت تمھارے ساتھ ہوں تمھاری باتوں میں تمھاری آنکھوں میں تمھاری تحریروں میں تمھارے تخیلات میں تمھارے تصورات میں ہر جگہ میں ہی تو ہوں ۔۔۔۔۔پاگل ۔۔۔۔۔اور ہم دونوں گلوگیر ہوجاتے ہیں ۔
نوار کی بنی سرکاری چارپائی پہ سر جھکائے بیٹھا دونوں ہاتھوں کے سہارے اپنا چہرہ تھامے ان خیالوں میں گم تھا کہ چھت پہ ٹہلتی چھپکلی ٹک سے میرے اوپر گری اور میں تربک گیا ۔
“