سویڈن میں رہتے ہوئے مجھے بہت سی عظیم ہستیوں
کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا جن میں میر غوث بخش
بزنجو ، قراہ لعین حیدر ۔ اُستاد سلامت علی خاں ، ڈاکڑ
محمد علی صدیقی ۔ احمد فراز ،مسیزفراز اقبال،
اداکارہ فردوس ، اور دوسری بہت سی عظیم ہستیاں
تھیں ، میرے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہے ، سوچھا اُن دنوں
کو یاد کیا جائے تو لیجیے اس سلسلے کی پہلی یاد
اُستاد سلامت علی کی یاد ،،،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانول موڑ مہار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ غالب اقبال جی کا فون آیا ، غالب اقبال مسیز سرفراز اقبال کے بیٹے ہیں ، جو پاکستان میں ادبی حلقوں کی ایک جانی پیچانی شضصیت ہیں، وہ ایک خوبصورت کردار اور اور خوبصوت شکل و صورت کی مالک تھیں۔ خاص طور پہ فیص احمد فیص کے ساتھ اپنی دوستی کو جو اُنھوں نے قلم بند کیا ہے وہ ایک یادگار ادبی پارہ ہے ۔ غالب اقبال اُن دنوں سویڈن میں پاکستان ایمبیسی میں کام کر رہے تھے ، غالب اقبال جی نے جب فون پہ بتایا کہ اُستاد سلامت علی خان صاحب لندن میں ہیں اور وہ سویڈن آنا چاہ رہے ہیں، ایک لمحہ کے لیے میں سکتہ میں چلا گیا ۔ مجھ سے بات نہیں ہو رہی تھی ، میں نے غالب اقبال جی کو کہا ،، غالب جی میں آپکو تھوڑی دیر بعد فوں کرتا ہوں، ایک عجیب کفیت تاری ہوگئی ایسا لگا جیسے دفتر میں کسی نے سُر منڈل کے تار چھیڑ دیے ہوں۔ ایک لے ہے جو چاروں اور دفتر میں رقص کر رہی ہے ۔آنکھیں خود بخود بند ہوگئیں جن میں اُستاد سلامت علی خاں صاحب لائیل پور میں اُستاد فتح علی مبارک کی برسی میں سندھی میں سانول کو بلا رہے ہیں۔ کافی کی گائیکی ٹھمری کی گائیکی ہے ، صرف زبان کا فرق ہے یہ ملتانی زبان کی ہے ، وہ پوربی زبان کی ہے،،، دھرپد کی گائیکی دیو مالائی کی گائیکی ہے اور یہ خاں صاحب کے گھرانے کی گائیکی ہے خاں صاحب نے خیال کو ملا کر دھرپد کو کمال کی گائیکی بنا دیا ہے ، پاکستان آنے کے بعد دیر تک ملتان میں خاں صاحب دھرپد ہی گاتے رہے مگر اب راجوں مہاراجوں کا دور ختم ہو گیا تھا اور پاپی پیٹ ساتھ لگا تھا جس کی وجہ سے خاں صاحب نے کافی گانا شروع کر دی ،عجب سماں تھا ، خاں صاحب اُستاد شوکت علی طبلہ نواز اور اپنے بیٹے شرافت علی جو تان پورہ سے ساتھ دے رہے تھے گا رہے تھے ،مُلک کے بڑے بڑے نامور گائیک ، موسیقی کو سمجھنے اور کن رسیے بیٹھے تھے ، سب کے کان ایک ایک ماترے پہ لگے تھے اور سم کو پکڑتے ،، واہ واہ ،سبحان اللہ کہتے ہاتھوں کو گھٹنوں پہ مار رہے تھے ، عجب اتفاق ہے آس پاس درختوں پہ بیٹھی چڑیاں اور دوسرے پرندے بھی دم سادھے بیٹھے رہتے مگر جیسے ہی خان صاحب سم پہ آتے پرندے بھی چہحچانے لگتے ، موسیقی ، انسانوں، پرندوں ، درختوں اور ہواؤں پہ کیا اثر کرتی ہے یہ مجھے اُس دن احساس ہوا ،خاں صاحب گا رہے تھے کہ موزن نے اذان دی تو دل سے بے ساختہ نکلا ،،ہائےظالم کو کس وقت خُدا یاد آیا ،، اس برسی پہ خاں صاحب اور اُن کا بیٹا شرافت علی حاں ریز ہوٹل میں ٹھہرے تھے اُن کی دیکھ بھال ، اُن کو پوٹل سے لانا اور واپس پوٹل پہنچانے کی ذمہ داری اُستاد نصرت فتح علی حاں صاحب نے میرے ذمہ لگائی تھی ، مین اُن کے ساتھ دو دن رہا ، اُس رات میں اُن کو رات دس گیارہ کے قریب لے کر آیا ۔ باہر محفل لگی تھی اور پم مہدی حسن، غلام علی ۔ ماسڑ منظور ( ہارمونیم والے ) ولائیت علی حاں ۔ ناظم علی سارنگی نواز اندر ایک کمرے میں بیٹھے تھے ، ماتروں ، راگوں اور بندشوں پہ گفتگو ہو رہی تھی ، میں نے محسوس کیا ، مہدی حسن کچھ گُھٹن محسوس کر رہے ہیں ، مہدی حسن صاحب غزل کی گائیکی کے بادشاہ ہیں آج تک نہ کسی نے ایسی غزل گائی ہے اور نہ شاید آئیندہ کوئی گا سکے ، مگر دھرپد گانے والے بہت عرصہ تک مہدی حسن کی گائیکی کو کلاہ کی گائیکی سے کم سمجھتے تھے اُس محفل میں بھی کچھ اسی قسم کی بات چل نکلی تھی ، اُستاد ناظم علی نےمحفل کا رنگ دیکتھے بات کسی اور طرف موڑ دی، احمد فرازصاحب کی مشہور غزل ،، شعلہ سا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو،، پہلی دفعہ اسی محفل میں گائی گئی تھی جس کو ریڈیو پاکستان لاہور اسٹیشین نے اُستاد تصدق علی خاں کی پروڈیکشن میں یہیں ریکارڈ کیا تھا اور آج تک اُسی محفل کی ریکارڈ کی یہ غزل نشر کی جاتی ہے ، رات کوئی دو بجے کے قریب اختر سدیدی نے خاں صاحب سے مودبانہ انداز میں تشریف لانے کو کہا ، خاں صاحب نے خواجہ غلام فرید سائیں کی کافی ، سانول موڑ مہار ،، سے گائیکی کا آغاز کیا ، خاں صاحب گاتے جاتے اور لوگوں کی آنکھوں سے دریا بہتے جاتے ، نصرالدین شاہ نے جس طرح فلم ،، غالب ،، میں کام کیا ایسا لگتا ہے جیسے غالب خود آگیا ہو اسی طرح اُس رات لگا جیسے سائیں خواجہ غلام فرید خود سانول بن کر آگئے ہوں۔
غالب اقبال جی کو میں نے فون کر کے اُن سے خاں صاحب کا لندن کا فون نمبر لیا اور گھر آکر رات کو اُن کو فون کیا تو کسی اور نے اُٹھایا ، میں نے کہا ،، جی میں سویڈن سے بات کر رہا ہوں اور مجھے خاں سلامت علی خاں صاحب سے بات کرنی ہے ،، تھوڑی دیر بعد آواز آئی ،، سلام و علیکم میں سلامت علی بول رہا ہوں ،، میں نے کہا ،، خاں صاحب مین سویڈن سے مسعود قمر عرض کر رہا ہوں ،، ایک آدھ منٹ خاموشی رہی ،، ٹھہرو تم وہی مسعود قمر ہو جس سے فیصل آباد میں نصرت فتح علی صاحب کے گھر ملاقات ہوئی تھی ، ،، میں نے کہا ،، جی جی میں وہی مسعود قمر ہوں ،، بس پھر کیا تھا اُن دو دنوں کی بہت سے باتئیں ہم ایک دوسرے کو سُناتے اور سُنتے رہے ، اور پھر خاں صاحب کا سویڈن آنے کاسارا پروگرام ترتیب دیا گیا۔
میں رسیور رکھ کے سوچھتا رہا کہ اتنے سال گُزرنے کے بعد بھی خاں صاحب کو نہ صرف میرا نام یاد تھا ، اُنھے اُن دنوں کی ایک ایک بات یاد تھی ، مگر یہ بات میری سمجھ میں آگئی کہ یہ لوگ اگر صدیوں سے سینہ بسینہ آنے والے کلاسیک راگ ، راگنیاں اُس کی بندشیں اور اُس کی لے کاریاں ، یاد رکھ سکتے ہیں تو یہ پانچ دس سال کے قصے ان کے آگئے کیا معنی رکھتے ہیں ، پہلے وقتوں ان راگوں کو کاغذوں پہ نہیں اُتارا جاتا تھا ، ہر گھرانے کے اپنے اپنے راگ ہوتے تھے ، جن کو وہ دوسروں سے چُپھا کے رکھتے تھے حاتکہ اپنی
آل اولاد میں سے بھی ہر ایک کو نہیں بتاتے تھے ، اولاد میں سے جن میں گُن دیکھتے اُسے ہی بتاتے تھے ، اور اُس سے بھی وعدہ لیتے یہ کسی دوسرے گھرانے کو نہیں بتانا ،اسی طرح کسی دوسرے گھرانے سےکچھ پوچھنا یا سیکھنا بھی اپنے گھرانے کی عزت کو دھبہ لگنے کے برابر سمجھتے تھے ،مجھے یاد ہے ایک دفعہ سلامت علی خاں صاحب کے بیٹے شفقت علی خان جو آج کے نوجوان بڑے گائیک ہیں لاہور ریڈیو سٹیشن پہ چھوٹے غلام علی خاں صاحب کے ساتھ بیٹھے تھے ،اور چھوٹے غلام علی خاں صاحب سے کسی راگ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ، بعد میں جب شفقت کے چحچا ، تصدق علی خان ، اختر علی خاں اور نزاکت علی صاحبان کو پتہ چلا تو وہ دونوں شفقت پہ بہت ناراض ہوئے ۔ کہ ،،ہمارے خاندان سے ہوتے ہوئے تم دوسروں سے اصلاح لے رہے ہو ،، اور اس کا شکائیت شفقت کے والد سلامت علی خاں صاحب سے کی ۔
سٹاک ہولم کے TÄNSTA (تھینستا) کے سکول کے حال میں ایک بہت بڑی محفل کا ایتمام کیا گیا ، سٹاک ہولم میں برصغیر کی کلاسئیک موسیقی کی یہ ایک بہت بڑی محفل تھی جس میں بزرگوں سے لے کر نوجوان نسل تک بیٹھی تھی ، اس محفل کے بعد ساٹک ہولم میں نصرت فتح علی خاں کی اتنی بڑی محفل ہوئی تھی ، نصرت فتح علی خان اور سلامت علی خان اور پاکستان کے دوسرے گلوکار جو ہورپ میں آتے ہیں ان میں ایک بہت بڑا فرق ہے ، دوسرے گلو کار جب آتے ہیں تو اُن کو سُننے کے لیے لاکھوں کا اجتماح ہوتا ہے حال بھرے ہوتے ہیں مگر وہ سب کے سب پاکستانی ۔ انڈین یا بنگلہ دیشی ہوتے ہیں مگر جب روی شنکر ، نصرت فتح علی ، سلامت علی یا اس گائیکی کے دو چار اور گائیک یورپ آتے ہیں تو ان کو سُننے والوں میں زیادہ تعداد یورپین کی ہوتی ہے ۔ خاں صاحب میرے گھر میں دس دن رہے ، مگر اتنا بڑا فنکار اور اتنا سادہ،،،،،، شاید بڑا فنکار ہی سادہ ہوتا ہے ، خاں صاحب ساری رات جاگتے ، صبح تین چار بجے جا کر سوتے اور پھر اگلی سہہ پہر ایک دو بجے اُٹھتے ۔ لوگ اُن سے ملاقات کے لیے گیارہ بارہ بجے ہی آنا شروع ہوجاتے بس پھر رات بھر محفل لگی ریتی ۔ ، خاں صاحب اپنی زندگی کے واقعات سُناتے سُناتے اچانک سُر منڈل اُٹھاتے اور تان لگانی شروع کر دیتے ، گاتے گاتے بالوں کو انگلیوں سے بالوں کو سنوارنا خاں صاحب کا ایک خاص انداز تھا ، کبھی کبھی بیٹھے لوگوں سے پندرہ بیس مینٹ کی معذرت کرتے اور مجھے لے کر گھر کے قریب بہنے والے دریا کے کنارے چہل قدمی کے لیے چل پڑتے ۔ ایک دن ایسے ہی چہل قدمی کرتے کرتے کہنے لگے ،، مسعود میری وجہ سے تمھے اور گھر والوں کو بہت پریشانی ہو رہی ہے،، میں نے فوری خاں صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے کہا ، خاں صاحب مجھے کیوں شرمندہ کر رہے ہیں میں تو شرمسار ہوں کہ آپ کے شیان ِ شان میزبانی نہیں کر پا رہا ، گھر آئے تو ایک سویڈش کا فون آیا اور اُس نے کہا وہ خاں صاحب سے ملنا چاہتا ہے میں نے حاں صاحب سے اجازت لے کر اُس کو ٓآنے کی دعوت دے دی ۔ جب وہ آیا تو میں نے پہچانا کہ اس کو میں نے محفل میں بھی دیکھا تھا ، اس کا نام لارش بیون بیری تھا اور یہ سٹاک ہولم یونیورسٹی میں ہندی پڑھتا تھا ، جب وہ خان صاحب سے بات کر رہا تھا تو میں حیران تھا کہ اس شخص کو انڈین کلاسئیک موسیقی پہ کتنا عبور ہے ، اُا نے خاں صاضب کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور کہا وہاں کوئی دس پندرہ اور سویڈش ہوں گئے ، خاں صاحب نے فوری حامی بھر لئی ، جب وہ چلا گیا تو خاں صاحب نے کہا ،، مسعود تم حیران ہو گئے کہ میں نے فوری حامی بھر لئی کوئی معاوضہ بھی طے نہیں کیا ،، ابھی میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اُنھوں نے کہا ، جس طرح جسم کے لیے خوراک ضروری ہے اسی طرح ایک کلاہ کار کے لیے ایک صیح کن رسیا بھی ضروری ہے ، بہر حال ، میں ، محترمہ اشرف مسعود، خان صاحب ، شرافت اور افغانی طبلہ نوار اُس سویڈش کے ہاں چلے گئے ، یورپین اور ایشین سُننے والوں اور سُن کر داد دینے میں بھی فرق ہے ۔ بر صغیر کے لوگ ایک ایک ماترے ایک ایک سم پہ ، واہ واہ سبحان اللہ کہتے اور گھٹنوں پہ ہاتھ مارتے ٓآسمان سر پہ اُٹھا لیتے ہیں اسی طرح مشاعروں میں ایک ایک مصرعے پہ گلے پھاڑ لیتے ہیں ، اگر اس طرح داد نہ دی جائے تو گانے والا اور شعر سُنانے والا سمجھتا ہے لوگوں کو اُسکی گائیکی یا غزل پسند نہیں آئی اس طرح گانے والے یا گانے والی پہ ویلیں فنکار کے سر پہ کھڑے ہو کر نوٹ بارش کے طرح فنکار کے سر پہ برساتے ہیں مگر یورپیں سارا گانا یا ساری نظم سُن کر تالیاں بجا کر داد دیتے ہیں ان تالیوں کے بجنے کا وقت اُن کی پسند پہ ہے اگر اُن کو گانا یا نظم زیادہ پسند آئی ہے تو وہ کھڑے ہو کر دیر تک تالیاں مارتے رہتے ہیں اسی طرح وہ ہر سم پہ نوٹوں کی بارش نہیں کرتے سب پیسے ایک جگہ پہ اکٹھے کر کے فنکار کی خدمت میں آخر پہ پیش کر دیتے ہیں، اس محفل میں بھی یہی ہوا گھر میں داخل ہوتے ہی ایک چھوٹی سی خوبصورت ٹوکری رکھی تھی جس میں ہر آنے والا سویڈش کراؤن ( سویڈش سکہ ) ڈالتا جاتا جو آخر پہ خان صاحب کو پیش کر دیے گئے ، یہ محفل بھی ایک لا جواب محفل تھی باہر بوندہ باندی ہو رہی تھی اور اندر خاں صاحب ،، میاں کی مہار ،، گا رہے تھے ( اُس دن میں نے خاں صاحب سے ،، میاں کی ملہار سُن کر ہی اپنے ایک پوتے کا نام ملہار مسعود رکھا ہے ) ایسا لگ رہا تھا خان صاحب کے ساتھ افغانی طبلے والا تھاپ نہیں دے رہا ، کھڑکی پہ پڑنے والی بوندیں تھاپ دے رہی ہیں ۔ گھر آئے تو ابھی بھی کچھ لوگ بیٹھے تھے پھر محفل شروع ہوگئی ، خاں صاحب ساری ساری رات بیٹھے اور گا سکتے ہیں اگر اُن کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد چائے ملتی رہے ،، میں بھی اُن کے ساتھ ،،، صرف اور صرف چائے ،، کے ساتھ شب داری کرتا رہتا ، وہ بات کرتے کرتے یا گاتے گاتے اچانک کہتے ،، مریم بیٹی مجھے پتہ ہے میں تم کو پریشان کر رہا ہوں مگر بیٹی جی اس وقت چائے کی طلب ہو رہی ہے ، ، میں کہتا خاں صاحب مریم آپکی بیٹی آپ حکم کیا کریں ،، خاں صاحب کہتے ،، جس طرح گانے کا ایک سلیقہ ہے اسی طرح بیٹیوں سے بات کرنے کا بھی ایک سلیقہ ہے ،( ایک سوال برسوں سے میرے ذہن میں ہے کہ پاکستاں کے تمام بڑے بڑے کلاسئیک گائیک اپنے میل بچوں کو تو ہر حال میں ان کو کلاسئیک گائیکی کی تعلیم دیتے ہیں چایے بچہ نہ بھی چاہتا ہو اُس کو مار پیٹ کر بھی کلاسئیک گائیک کی تعلیم دیں گئے گرمی ہو یا سردی ، اُسے صبح اُٹھ کر ریاض کرنا ہی ہے مگر اپنی بچیوں کو یہ گانا نہیں سکھاتے ، بہت کم مثالیں ملیں گئیں کہ کسی بڑے گائیک کی بیٹی بھی گا رہی ہے ،) ایک دن اپنا بکس کھولتے ایک کُرتہ نکالا اور کہا،، مسعود یہ کُرتہ پہن کر میں نے ایک بہت بڑی محفل میں گایا تھا ، میں یہ کُرتہ تم کو دینا چایتا ہوں ، میں نے بسم اللہ کہہ کر وہ کُرتہ لی لیا جو آج تک میرے پاس ہے ، خاں صاحب دس دن گُزار کر چلے گئے مگر کہاں گئے اگر گئے ہوتے تو اج میں یہ تحریر کبھی نہ لکھ پاتا
نوٹ ، یہ مضمون بہت لمبا ہو گیا تھا مگر فیس بک لمبے مضموں کا متحمل نہیں ہے اس لیے بہت کانٹ چھانٹ کر کے اتنا کچھ لکھ سکا ہوں زندگی رہی تو ان واقعات سے کبھی کبھی کچھ نہ کچھ سُناتا رہوں گا
https://www.facebook.com/masood.qamar/posts/10154697360488390
“