یہ کہانی اس وقت کی ہے جب کہ دادی سندھ کی تہذیب کی دریافت نہیں ہوئی تھی اور انگریز برصغیر آئے تو انہوں نے سیاسی بنیاد پر یہاں کے علمی کتب اور آثار قدیمہ کی کھوج شروع کی تو ان کے سامنے جو تحریریں اور شواہد آئے تو اس سے ان کا گمان ہوا کہ برصغیر میں تہذیب و تمدن کی بنیاد آریوں نے رکھی تھی۔ مثلاً ویسٹ اسمتھ کا خیال تھا برصغیر میں تانبے اور کانسہ کا دور کبھی نہیں آیا۔ اس وقت برصغیر میں ہندوؤں میں پڑھنے لکھنے کا اس قدر رواج نہیں تھا اور جو لوگ علمی شغل میں حصہ لیتے تھے وہ سرکاری ملازمت کرنا چاہتے تھے اس لیے فارسی زبان پر دسترس حاصل کرتے تھے۔ کیوں کہ اس وقت ہندوستان کی تمام دیسی مسلم اور غیر مسلم ریاستوں میں سرکاری امور فارسی میں انجام دیئے جاتے تھے۔ جس کی بڑی مثالیں سکھوں کی لاہور کی ریاست، مرہٹوں کی ریاستیں، راجپوتانہ میں راجپوتانہ کی ریاستوں، کشمیر اور حیدرآباد اور مسلم ریاستوں میں سرکاری امور فارسی میں انجام دیئے جاتے تھے۔ جب کہ عوام اور خواص مقامی زبانوں کے علاوہ اردو جسے ہندوستانی کہا جاتا تھا تھی۔ اگرچہ اس پر مقامی اثرات تھے مگر زیادہ تر وہ اپنی تحریریں عربی رسم الخط میں لکھتے تھے۔ جب کہ دیوناگری، ڈاوری اور شاردا وغیرہ رسم الخظ صرف مذہبی اور تجارتی حلقے استعمال کرتے تھے۔
کئی ممتاز اہل علم انگریز جو اپنے پیشروروں کے برعکس انہوں نے مقامی زبانوں اور علم و فنون سے واقف ہونا ضروری خیال کیا۔ خود کمپنی نے سیاسی اغراض سے ان کی حوصلہ افزائی ہے اور اس کے علاوہ کمپنی کے بوڈ آف ڈائرکٹرز نے بھی اس کی سفارش کی۔ لہذا چالیس ڈلکنس نے مہابھارت کے کچھ حصوں کا ترجمہ انگریزی میں کیا اور سنسکرت کی پہلی گرامر انگریزی میں لکھی۔ سر ولیم جونز نے منو دھرم شاستر کا ترجمہ اور کولبروک نے ہندوؤں کے قوانین، فلسفہ، ادبیات اور ریاضیات پر مستند کتابیں لکھیں۔ ان محققوں کی کوشش سے یورپ اور برصغیر کی زبانوں کا مطالعہ کیا اور یہ ثابت کیا کہ ان زبانوں کا ماخذ مشترکہ ہے۔
اس لیے ابتدا میں ان میں یہ غلط خیال رائج ہوگیا کہ سنسکرت ام الاسنہ ہے اور تمام آریائی زبانیں اسی سے نکلیں ہیں۔ حالانکہ پہلے عیسائیوں کا خیال تھا ام الاسنہ عبرانی ہے اور دنیا کی زبانیں اسی سے نکلی ہیں۔ مگر بعد کی تحقیقات سے معلوم ہوا ایک زبان سنسکرت سے بھی اس سے قدیم تر تھی اور اس کا سنسکرت سے وہی تعلق ہے جو لاطینی سے فرانسیسی، اطالوی کو قدیم جرمن سے کو انگریزی سے۔ اس کے بعد جیک گرم نے وہ کلیہ دریافت کیا جو اس کے نام سے گرم کا قانون مشہور ہوا اور اس سے کی مدد سے آریائی زبانوں کا متحدہ ہونا ثابت ہوگیا۔
لہذا ان کا خیال تھا کہ یہ مشترک زبان یا دیگر الفاظوں میں آریائی زبانوں کی مورث سنسکرت ہے۔ لہذا ان کی خواہش تھی کہ اس کا احیاء عمل میں لائیں اور اس مردہ زبان کو زندہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ چونکہ قدیم زبانوں میں سب سے قدیم سنسکرت ہے اور اس میں مشابہ الفاظ آریائی زبانوں میں موجود ہیں اور اس زبان سے ملتے جلتے بہت سے الفاظ دوسری آیائی زبانوں میں ملتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے یہ گمان کہ اس زبان میں قدیم خیالات، معلومات اور جذبات محفوظ ہیں اور اس میں نہ صرف جاری تاریخیں، فلسفے اور نظم بھی شامل ہیں اور اس کے قدیم افسانوں سے قدیم زمانے کی مختلف فنون اور عجیب و غریب اشیاء کے بارے میں معلومات حاصل ہوسکتی ہیں۔ اس کے بشتر الفاظ تمدنی اور خانہ داری زندگی کے ضروری اور امور یعنی معمولی کام، خاندانی تعلقات اور ضروریات زندگی کے متعلق ہیں۔ جن میں خاندانی تعلقات یا چیزوں کے نام یا افعال سے جو ان قدیم زمانے میں موجود تھے اور ہزاروں سال قبل ہمارے مورثوں میں بھی موجود تھے اور اس سے آریاؤں کے قدیم حالات، طرز زندگی، خیالات اور مشاغل کو بہتر سمجھا جاسکتا ہے ۔
کیوں کہ اس خیال کی بنیاد ان مشترک الفاظ پر تھی جو قدیم ترین زبان سے جملہ آریائی زبانوں یعنی سنسکرت اور ہندوستان کی مختلف زبانیں، قدیم اوستا اور موجودہ فارسی، یونانی، لاطینی، ٹیوٹن، سلاوی اور کیلٹی خاندان کی زبانیں میں ملتے ہیں۔
مگر یہاں ان محقیقن کے سامنے یہ سوال پیدا ہوا کہ ایک ہندوؤں کا علمی خزانہ کیسے حاصل کیا جائے۔ جس سے انگریز ناواقف تھے اور جن کی تاریخ، مذہب، عقائد، خیالات اور طرز زندگی وغیرہ کو وہ نہیں جانتے تھے۔ جن کے رسم و رواج عادت و اطور اجنبی ہونے کی وجہ سے انگریزوں کو لغو اور مضحکہ خیز معلوم ہوتے تھے۔ ان کے قوانین، ادبیات اور ادبی زبان کا بھی انگریزوں کو علم نہ تھا۔ تاہم مختلف انگریزوں نے مختلف لوگوں کی مدد سے سنسکرت سیکھنا شروع کیا۔
سرولیم جونس صدر عدالت بنگال نے پانچ سال کے قلیل عرصے دوران ملازمت میں عربی و فارسی کے جید عالم ہوگئے اور انہوں نے سنسکرت جیسی دشوار اور پیجیدہ زبان پر قدرت حاصل کرلی۔ انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے ان زبانوں میں کمال حاصل کیا۔ ایک روز جب جب ولیم جونس اپنے برہمن استاد سے سنسکرت پڑھ رہے تھے۔ انہیں کتھولک مشنریوں کے خطوط کے مجموعہ کا خیال آیا۔ جس میں لکھا تھا سنسکرت میں ناٹک کی کتابیں بھی ہیں۔ اس لیے ولیم جونز نے اپنے برہمن استاد سے پوچھا کہ سنسکرت کے ناٹکوں میں مقبول ترین کون سا ناٹک ہے؟ اس برہمن استاد نے جواب دیا شکنتلا۔ ولیم جونز نے اس کا ایک نسخہ منگوایا اور استاد کی مدد سے اس کا لاطینی میں لفظی ترجمہ شروع کیا۔ کیوں کہ لاطینی سنسکرت سے بہت مشابہ ہے۔ بعد میں اس کا ترجمہ انگریزی میں بھی کیا گیا۔ اس کا اثر مغربی علماء اور ادبا پر گہرا اثر ہوا اور شکنتلا کا ترجمہ ہر یورپی زبان میں ہوا۔ ورنہ اہل یورپ کا خیال تھا کہ ہندوستان کی زبانیں بھدی اور بھونڈی ہیں۔ مگر شکنتلا سے واقف ہونے کے بعد اس اہل ہند کی وقعت و عظمت ان کے دلوں میں بیٹھ گئی اور انہیں معلوم ہوا کہ ہندی ادبیات بھی قدر قیمت میں مغرب سے کم نہیں ہے۔
سنسکرت کی علمی قدر و قیمت اور قدامت ان ناٹکوں کی وجہ سے کچھ زیاد ہی اہل یورپ کے ذہنوں میں بیٹھ گئی تھی۔ کیوں کہ ان کے سامنے ہندوستانی ادبیات میں سب سے پہلے ان ناٹکوں کا مطالعہ کیا۔ جس میں چند مقامات کے علاوہ ہر شخص سنسکرت بولتا ہوا نظر آتا تھا اور عورتوں خصوصاً اعلیٰ طبقات کی عورتوں کی نسبت یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ وہ سنسکرت کو جانتی ہیں اور کبھی وہ سنسکرت کے اشعار پڑھتی ہیں۔ لیکن ان ناٹکوں میں دیگر لوگ علمی پراکتوں میں گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔ اس لیے یہ یقین کرلیا گیا کہ سنسکرت ایک نہایت ترقی یافتہ زبان تھی اور اسی زبان میں وید لکھی گئیں جو سب سے قدیم تذکرہ ہے۔ اس لیے ہر سنسکرت کے ملنے والے قلمی نسخہ جو کہ تاڑ کے پتوں پر تھے انہیں حاصل کرنے کی کوشش کی گئیں۔ سنسکرت جو ویدی سے نکلی تھی اسے ابتدا سے ہی ترقی یافتہ زبان جانا۔ اس کے تسلسل اور اس کی قدامت پر ایمان لے آئے۔ باجود اس کے بہت سے محققین نے اس کی توجہ دلائی کہ ویدی زبان الگ تھی اور سنسکرت اگرچہ ویدی زبان سے نکلی ہے اور اس نے اپنے الفاظ کا خزانہ پراتوں سے لیا ہے اور ابتدائی سنسکرت غیر ترقی یافتہ زبان تھی۔ مگر یہاں مسلہ یہ تھا کہ اس حقیقت کو تسلیم کیا جاتا تو بہت سے لوگوں کے خیالات و تحقیقات دھرم سے زمین بوس ہوجاتیں جو کہ سنسکرت کی قدامت کے قائل تھے اور اس پر کتب لکھ چکے تھے۔ اس خیال کو برصغیر کے ہندوؤں اور خاص کر برہمنوں نے آگے بڑھایا اور اس سلسلے میں بے شمار جعلی کتب لکھیں گئیں اور سنسکرت کی قدامت کے بارے میں دعوے کیے گئے۔ جب کہ حقیقت کے برعکس ہے۔
آریاؤں کی آمد کے بعد صدیوں تک یہاں موجود لٹریچر صدیوں تک ایک عجیب بے بسی کے عالم میں رہا ہے۔ وہ اشیاء جو لکھنے یا پڑھنے کے کام آتی ہیں ان کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ہندوستان کے باشندے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے تھے۔ وہ صدیوں سے اس کے بغیر کام چلا رہے تھے۔ تحریر کا جو سب سے قدیم حوالہ ملتا ہے وہ ایک رسالہ ’سیلس’ہے۔ جو تیرہ مکالمات ستنتون یا مکالمات بدھ کا پہلا باب یا حصہ۔ یہ رسالہ غالباً بدھ کی موت کے بعد سو سال کے اندر یا اس سے کچھ پہلے کتاب کی شکل میں موجود ہوگا۔ اس رسالے میں بدھ کے ابتدائی چیلوں نے اس کے مکالمات کو جمع کیا تھا اور سیلس کی تدوین کی تاریخ ۰۵۴ ق م خیال کی جاتی ہے۔ اس رسالہ میں ان چیزوں کا ذکر ہے جن کی بدھ کیش کے اراکین کو اجازت نہیں تھی۔ ان ممنوع چیزوں میں کھیلوں کی ایک فہرست شامل ہے۔ ان میں ایک کھیل کو ’اک کھریکا’(حروف بنانے) کا نام دیا گیا ہے اور اس کی تشریح یوں کی گئی ہے ان حروف کا قیاس کرنا جن کی شکل ہوا میں یا کسی ہمجولی کی کمر پر بنائی جاتی تھی۔ چونکہ یہ اک کھریکا بچوں کی کھیلوں کی فہرست میں شامل ہے اس لیے اک کھریکا کو بھی تقریباً بچوں کا کھیل تصور کیا گیا ہے۔ بچوں کے لیے ایسا کھیل ایجاد کرنا اور حروف بنانے سے موسوم کرنا دلیل ہے کہ اس زمانہ میں لوگ حروف تہجی کے بارے میں جانتے تھے اور اراکین کیش کے لیے انہیں ایک کتاب میں جمع کرنا اور اس کا نام وینائے (تربیت) رکھنا تحریر (لیکھا) کو دینائے میں ایک ممتاز نوع کا فن قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کو بھی اس فن کو سیکھنے کی اجازت تھی۔ مجرموں کو کیش داخل کرنے کی ممانعت تھی۔ لڑکے کے پیشہ کے انتخاب میں والدین کا کہنا تھا کاتب کا پیشہ اختیار کرنے سے زندگی عیش و آرام سے گزرتی ہے۔ لیکن اس میں انگلیاں درد کرتی ہیں اور ایک اور جگہ آیا ہے کہ بدھ کیش کا کوئی رکن کسی کو خودکشی کے فوائد لکھ کر بھیجے گا تو اس کے ہر حروف سے ایک خطا سرز ہوتی ہے۔
ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کتابت کا فن رواج پاچکا تھا۔ جس میں سرکاری اعلانات اور خط و کتابت کا کام لیا جاتا تھا اور یہ ایک معزز پیشہ یا ذریعہ معاش تھا اور اس کی تحصیل میں مرد و عورتیں سب حصہ لیتے تھے۔ لیکن اسے اس منزل تک پہنچنے میں کئی صدیاں لگی ہوں گیں۔
لیکن اعلانات کی تحریروں اور اس کا استعمال کتابوں کی تدوین میں فرق ہے۔ فن تحریر کی ایجاد کے باوجود اسے کتابیں لکھنے کے لیے استعمال نہیں ہوا تھا۔ اس رسالے میں بھی بدھ کیش کے لیے احکامات و ہدایات ہیں کہ انہیں کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا ہے۔ مگر کتابوں کی کوئی شہادت اس میں نہیں ملتی ہے۔ عجیب بات ہے اہل ہند لکھنے پڑھنے کے فن سے آشنا ہونے کے باوجود انہوں نے کتابیں لکھنے سے احتراز کیا۔ حالانکہ وہ صدیوں پہلے لکھنا اور پڑھنا سیکھ چکے تھے۔ اس کی دو وجوہ ہوسکتی ہیں۔
اول ان لوگوں نے فن تحریر سے آشنائی سے صدیوں بہت پہلے لوگ حافظہ کی مدد سے اپنے علمی و ادبی خیالات کو محفوظ رکھنے میں کمال حاصل کرلیا تھا اور وہ اسے آسانی سے خیرباد نہیں کہہ سکتے تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے ان سے دوسرے بھی آگاہ ہوں اور وہ شاید کتابوں لکھنے کے سامان سے نا آشنا ہوں۔
اس رسالے کے علاوہ تین اور شہادتیں ملیں ہیں۔ ہوفراتھ کی تحقیق کے مطابق ان میں نہایت قدیم حروف کی ایک خاص تعداد ان حروف سے مشابہ ہیں جو آشور کے اوزان کے ساتویں اور نویں صدی قبل عیسوی کے کتبہ میسہ پر درج ہیں۔ اس زمانے کے ۲۲ سامی حروف کی ایک تہائی شکل ہندوستان کے نہایت قدیم زمانے کے ہم آواز حروف کی شکل سے مشابہ ہیں۔ دوسرا تہائی حصہ کچھ کچھ ملتا ہے اور باتی تیسرا حصہ مشکل سے ملایا جاسکتا ہے۔ اس کی ڈاکٹر بوہیرنے بھی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندی حروف تہجی شمالی سامی حروف تہجی سے ماخوذ ہیں۔ جب کہ ڈاکٹر دیک اسزاک ٹیلر کا کہنا ہے کہ یہ جنوبی سامیوں سے جو عرب کے جنوب آباد تھے لیے گئے ہیں۔ جب کہ ٹی ڈبلیو ریس ڈیویدس نے اس کی توجیہ یہ پیش کی ہے کہ ہندی حروف نہ شمالی نہ جنوبی سامی حروف تہجی سے اخذ کئے گئے ہیں۔ بلکہ یہ ان سے پہلے کے سامی رسم الخط سے جو وادی فرات ساتویں صدی قبل مسیح میں مروج تھا لیے گئے ہیں۔ دونوں جگہوں کے حروف تہجی کی شکل و صورت میں مشابہت بہت زیادہ تھی۔ بعد کی بابلی یا سامی شکلوں سے ان کی مشابہت اتنی زیادہ نہیں تھی۔
دونوں حروف تہجی (ہندی اور وادی فرات کا رسم الخط) کے درمیان مشابہت بہت ذیادہ تھی۔ لہذا یہ ساتویں صدی قبل مسیح یا اس سے بھی کچھ پہلے حاصل کیے گئے ہیں۔ لہذا بعد کے بابلی یا شامی شکلوں سے ان کی زیادہ مشابہت نہیں ہے۔ اس لیے یہ فرض کرلینا چاہیے کہ ہندی حروف تہجی کی اصل اس وقت سے بہت پہلے کی ہے جب کہ ان کا مورث خط داہنی سے بائیں لکھا جاتا تھا۔ ہندی رسم الخط خود یورپ کے خط کی طرح دائیں سے بائیں لکھا جاتا ہے۔ صرف ایک سکہ کی عبارت اور لنکا کے چند کتبات سیدھی سے الٹی طرف لکھے ملے ہیں۔ تیسری صدی قبل مسیح کے کتبات میں حروف کے بعض مجموعے اسی طرح لکھے گئے ہیں۔ گویا انہیں الٹا پڑھنا چاہیے۔
تیسری شہادت جو کنیڈی نے پیش کیے ان کے مطابق ساتویں صدی قبل مسیح بابل اور ہندوستان کے درمیان تجارت ہوتی تھی۔ ان سوداگروں میں اکثر ڈاروی تھے۔ وہاں یہ سوداگروں نے اس رسم الخط کو دیکھا اور اس رسم الخط کو ہندوستان کی علمی اور زبانوں کی ضرورتوں کے مطابق اختیار کرلیا۔ تقریباً ایک ہزار سال بعد یہ حروف تہجی براہمی لیپی اختیار کر گیا۔ یہ نہیں معلوم ہے کہ درمیان میں مثلاً اشوک کے عہد میں اس کا کیا نام تھا۔ تمام حروف تہجی جو ہندوستان سیام، برما، سیام اور لنکا میں مستعمل ہے وہ سب رفتہ رفتہ اسی سے پیدا ہوئے ہیں۔
جب ساتویں یا آٹھویں صدی قبل عیسوی میں یہ خط ہندوستان لایا گیا تو اس وقت ہندوستانیوں کے پاس ایک نہایت وسیع لٹریچر موجود تھا۔ جو مذہبی حلقوں میں حافظ کی مدد سے محفوظ رکھا ہوا تھا۔ ان پروہتوں کو جلد ہی حروف تہجی کا علم ہوگیا تھا۔ لیکن وہ بدستور اپنے حافظہ کی مدد سے قدیم طریقہ سے تعلیم دیتے رہے۔
بابل میں تحریریں گیلی مٹی کی تختیوں پر لکھی جاتی تھیں اور لکھ کر انہیں خشک کرلیا جاتا تھا۔ جب کہ ہندوستان میں ایک نوکیلے قلم کی مدد سے پتوں یا چھال کے ٹکروں پر خاص کر صنوبر یا بید کی چھال پر بغیر سیاہی کے گھسیٹ کر لکھا جاتا تھا۔ مگر یہ صاف نظر نہ آنے کی وجہ سے اسے پڑھنا ایک مشکل کام تھا اور پتے اور چھال آسانی سے ٹوٹ بھوٹ جاتے تھے یا جلد تباہ ہوجاتے تھے۔ بہت بعد میں جاکر چھال کے بڑے بڑے ٹکرے اور تاڑ کے پتے سے ایسا طریقہ ایجاد کیا گیا جو مڑ کر جلد خراب نہیں ہوسکیں اور بعد میں ایک سیاہی بھی بنالی گئی تھی جسے لکھنے کے بعد پھیر دی جاتی تھی۔ اس طرح سیاہی لکھے ہوئے الفاظوں میں بیٹھ جاتی تھی اور تحریر سمجھ میں آجاتی تھی۔ چھال یا تاڑ کے پتوں پر جو قدیم ترین قلمی نسخے اب تک دریافت ہوئے ہیں وہ بدھوی زمانے کے ہیں۔ پتھر اور دھاتوں پر کندہ جو ابتدائی تحریریں ملی ہیں وہ بھی بدھوں کے دور کی ہیں۔ بدھوں نے سب پہلے اپنے مذہب کے ضخیم لٹریچر کو تحریر کے ذریعے محفوظ کیا تھا۔ اس سے پہلے پرہتوں اور پجاریوں نے اپنے لٹریچر کو تحریر کے ذریعے محفوظ نہیں کیا تھا۔ تحریر کا سب سے پہلے ذکر ایک کتاب ’واشٹھ دھرم سوتر’ملتا ہے۔ جو کہ متاخر عہد کی قانونی کتابوں میں سے ایک ہے اور بدھی کتب کی تصنیف کے بہت بعد میں لکھی گئی تھی۔ اس میں شک نہیں ہے پروہتوں یا مذہبی متقدیوں نے دنیا کی دوسری جگہوں کی جگہ برصغیر میں بھی علم کی اشاعت و ترویح میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پجاری اور پروہت جن کے روزگار کا دارو مدار قربانی کی رسوم پر تھا اور ان کی تفصیلات کو یہ پجاری اور پروہت زبانی یاد رکھتے تھے۔ تاکہ یہ دوسروں کی دسترس سے دور رہیں۔ بعد میں جب ان کے متعلق قانونی کتب لکھی گئیں جس میں اس کے قواعد و ضوابط کو تحریری شکل میں لایا گیا۔ ان کتب میں تعلیم کا مورثی حق صرف برہمنوں کو عطا کیا گیا تھا اور ان کے تقدس کو بڑھا کر انہیں دیوتا بنا دیا گیا۔ تعلیم عام ہونے سے برہمنوں کو خطرہ تھا کہ کتابیں عام لوگوں کے ہاتھ میں چلی جائیں گیں اور وہ وافر آمدنی سے ہاتھ دھولیں گے اور ان کے تقدس کو مجروع ہونے کا زبردست خطرہ تھا۔
اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کے برہمنوں نے تصویری خطوط کسی قسم کی ابجد بنالی ہو اور اسی ابجد میں وہ حروف پیوند کردیئے جو باہر سے یہاں لائے گئے تھے۔ جنرل کننگھم کا خیال ہے کہ ہندوی ابجد نے بالکل علحیدہ اور خاص طور پر ہندوستان کے ماحول میں نمو پائی ہے۔ لیکن اس کے خلاف بہت سا مواد ملتا ہے اور جو شہادتیں ملتی ہیں ان کے مطابق ہندوستانی ابجد سامی ابجد سے نکلی ہے اور اس کو دراوڑی سوداگروں نے ہندوستان میں روشناس کرایا ہے۔
برصغیر میں ابتدائی زمانے میں بابل کی کی طرح مٹی کی تختیوں کو لکھنے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ اگرچہ اینٹیں اور تختیاں اور مہریں برصغیر کے دور دراز علاقوں میں ملی ہیں اور ان پر حروف نہیں بلکہ جملے کندہ ہیں اور یہ معماروں نے لکھے ہیں۔ یہ چھوٹے اور معمولی فقرے ہیں۔ عام لوگ بھی مٹی کی تختیوں کو مختصر عبارتیں لکھنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس کے علاوہ تانبے اور سونے کی تختیوں کو بھی لکھنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ مگر یہ تختیاں اکثر و بیشتر عطیات دیئے جانے کے بارے میں ہیں۔ جو راجاؤں نے برہمنوں اور دوسرے لوگوں کو دیئے تھے اور عطیات کی یہ تختیاں مختلف نمونوں کی ہیں اور مختلف جگہوں سے ملی ہیں۔
برصغیر میں کتابیں لکھنے کے لیے صنوبر کی چھال یا تاڑ کے پتے استعمال کیے جاتے تھے۔ اس قسم کی تحریر کا سب سے قدیم قلمی نسخہ ختن سے تیرہ میل کے فاصلہ پر گوسنگ دھار کے کھنڈروں سے ملا تھا۔ یہ نسخہ صنوبر کی چھال پر خروستی ابجد میں سیاہی سے لکھا گیا تھا۔ یہ ابجد برصغیر کے شمال مغربی علاقوں میں افغانستان کے راستے ۰۰۵ ق م میں آئی تھی۔ یہ نسخہ سن عیسوی سے کچھ پہلے یا بعد میں گندھارا میں لکھا گیا تھا۔ اس میں بدھ مذہب کے اصولوں کو نظم کی صورت پالی میں لکھا گیا تھا۔
دوسرا قلمی نسخہ قدامت میں بہت بعد کا ہے۔ اسے کیپٹن باور نے گوچار کے قریب سے دریافت کیا تھا۔ یہ نسخہ چوتھی یا پانچویں صدی عیسوی میں بید کی چھال پر سیاہی سے لکھا گیا تھا۔ اس میں سانپ کو مسحور کرنے کے منتر اور طبی نسخے درج ہیں اور یہ نسخہ پانچ چھوٹے چھوٹے مختلف رسالوں پر مشتمل ہے اور اس کی زبان قدیم سنسکرت ہے اور اس نسخہ کی سنسکرت بھی اچھی نہیں ہے اور اس میں روز مرہ کے بہت سے فقرے درج ہیں۔
گوسنگ کے نسخہ کی زبان پالی ہے اور باور کے نسخے کی زبان سنسکرت ہے۔ عام طور پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ سنسکرت پالی سے قدیم ہے۔ اس لیے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا تھا ہے کہ باور کے نسخہ کی عبارت زیادہ قدیم ہوگی ہے۔ لیکن تحقیقات سے پتہ چلا کہ گوسنگ کا نسخہ اور اس کی نظمیں بھی باور کے نسخہ سے بھی زیادہ قدیم ہیں۔ حالانکہ سنسکرت ہمارے علم کے مطابق پالی سے قدیم زبان ہے۔ حالانکہ اصولاً پالی میں سنسکرت کی آمزش ہونی چاہیے۔ لیکن اس کے برعکس قدیم سنسکرت کے سب سے قدیم کتبات اور نسخوں کی زبان ناقص اور غلطیوں سے بھری ہوئی ہے اور اس میں پالی کے محاوروں اور نحوی ترکیبوں کی آمزش ہوتی تھی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس وقت تک سنسکرت اس قابل نہیں ہوئی تھی کہ وہ پالی سے مدد لیے بغیر اظہار کا ذریعہ بن سکے۔ اگرچہ پالی اپنے ابتدائی دور میں بھی اغلاط سے پر تھی۔ مثلاً ساکیہ کے استوپ سے ایک ظروف کتبے کی زبان کو دیکھیں تو اس سے یہ نکات اخذ کرسکتے ہیں۔ اس کی مدد سے ہم ابتدائی پالی کے بارے میں جان سکتے ہیں کہ اس کی خصوصیات اور صرف و نحو کی کس قسم ہے۔
(۱) یہ کتبہ ایک زندہ زبان کا لگتا ہے۔
(۲) اس میں حروف صحیح بھدے اور بھونڈے لکھے گئے ہیں۔
(۳) حروف علت میں حرف ’ے’اور ’و’اور ایک مشتبہ موقع پر ’ی’یا ’وُ’ہے اور وہ بھی اعراب یا ماتروں کو حروف صحیح پر لگا کر ظاہر کیے گئے ہیں۔
(۴) کوئی بھی حروف صحیح ایک جگہ دو بار نہیں لکھا گیا ہے۔ لیکن حقیقت میں دوہرے یا مشد حروف صحیح جن کی آواز بھی دوہری ہے وہ برصغیر کی نمایاں خصوصیت ہے مگر انہیں دوہرہ نہیں لکھا گیا ہے۔
(۵) حروف صحیح کا کوئی جوڑ یا مجموعہ اکھٹا نہیں لکھا گیا ہے کہ جیسا کہ Hundredمیں ndr یا پلاسٹک میں pl,st اکھٹے لکھے جاتے ہیں۔ مثلاًً ’ساکیوں ’کے لیے جو حروف لکھا گیا ہے وہ بجائے ’س’کے ی ن م ہے اور مقامی زندہ بولی کے اصل لفظ کے قریب ہجے تھے یا یہ لفظ یا توسا کے نم ہوگا یا سکے یانم جس کا تلفظ سکے ننگ ہے۔
ایک بات ظاہر ہے کہ اس کتبے کے ہجے نہایت ناقص ہیں اور صحیح معنوں میں یہ ہجے ابجد کو اس قدر ظاہر نہیں کرتے ہیں جتنا کہ ارکان لفظی کو۔ حروف علت میں یہ گمان کیا جاتا ہے جس میں کوئی حرکت یا ماتر نہ ہو تو اس میں ہلکی زبر کی آواز نکلتی ہے۔ اس کتبے میں اعراب و حرف علت کے لیے کوئی فرق یا امیتاز نہیں کیا گیا ہے۔ دو حروف علت بھی ملا کر نہیں لکھے گئے ہیں۔ آج بھی کوئی ایسی صورت قائم نہیں کی گئی ہے کہ حروف صحیح بغیر زبر کے تنہا بولا جاتا ہے اور کئی حروف صحیح مل کر لکھے نہیں جاتے تھے۔ اس طرح مشدد حروف جو کہ کثرت سے استعمال کیے جاتے ہیں انہیں ظاہر نہیں کیا ہے۔
اس کے بعد فن تحریر کی دوسری منزل آتی ہے۔ ایم سینارٹ نے اپنی کتاب ’پیاداسی کے کتبات’Incriptins De Piadosi میں نہایت گہری تنقیدی نگاہ ڈالی ہے اور نہایت مفصل تجزیہ کیا ہے۔ ان میں بھرہت اسٹوپ کے کتبات جو تعداد میں ان سے کہیں زیادہ ہیں مقابلہ و موازنہ کیا ہے۔ جن میں بعض زیادہ قدیم ہیں، بعض ذرا بعد کے ہیں اور صرف ایک یا دو اشوک کے کتبات سے بعد کے ہیں۔
تیسری صدی قبل مسیح کے ان کتبات میں دو خصوصیات بہت نمایاں ہیں۔ پہلی یہ کہ ہجے کے قاعدوں میں بہت کچھ اصلاح کردی گئی اور تمام حروف علت کو الگ اور مخصوص کردیا گیا ہے۔ حروف صحیح کے بے شمار مجموعوں کو درست طریقہ سے لکھا گیا اور حروفوں کو مجموعی طور پر زیادہ صفائی اور باقیدیگی سے کندہ کیا گیا۔ ان اصلاحات کی وجہ سے حروف صحیح آواز سے زیادہ مطابقت، زیادہ کامل اور پرکشش ہونے کی طرف مائل تھے۔
مگر لکھنے یا پڑھنے والوں نے دونوں زبان کی حقیقی صورتوں کو چھوڑ کر ہجوں اور صرف و نحوی کی گردانوں سے کام لینے لگے۔ جسے وہ زیادہ بہتر اور زیادہ عالمانہ طرز نگارش تصور کرتے تھے۔ اس لیے ابجد بہت زیادہ غلط ہوگئی اور مروجہ بولی میں سے بہت کچھ غیر مشابہ ہوگئی ہے۔ جس طرح انگلش میں would اور Could ہے۔ جس میں L نہیں بولا جاتا ہے اور اردو میں بالکل لکھا اور بلکل بولا جاتا ہے۔ یعنی ان کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ آوازوں کے بجائے قدیم ہجوں کو مد نظر رکھا جائے۔ کتبات کی زبان اور اس کے ہجوں کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جانے لگا وہ دن بدن مصنوعی ہوتا گیا۔ یہ دو عملی صدیوں تک جاری رہی اور آخر میں ابجد ترقی کرکے اس درجہ پر پہنچ گئی کہ وہ اظہار کا مکمل آلہ بن گئی۔ مگر مروجہ زبان (پالی) تمام یادگاروں سے نیست و نابود ہوگئی۔ پھر تمام کتبات اس مردہ زبان میں لکھے جانے لگے جسے بعد میں سنسکرت کا نام دیا۔ خالص سنسکرت (ویدک) کا سب قدیم کتبہ رور دامن کا کندہ کرایا ہوا اور کاٹھیاواڑ کے علاقے میں دریافت ہوا ہے۔ جس پر (بلاشک و شبہ سمت ساکا) کا ۶۷ء پڑا ہوا ہے۔ لہذا یہ سن عیسوی کی دوسری صدی کے وسط سے تعلق رکھتا ہے۔ جب کہ اشوک کو گزرے ہوئے چار صدیاں گزر چکی تھیں اور دیسی زبان کا استعمال اگرچہ ہنوز جاری تھا۔ لیکن ویدی زبان کو اظہار علمیت کے لیے موڑ توڑ کر کتبوں میں استعمال کیا جانے لگا۔ پانچویں صدی عیسوی کے بعد مردہ ویدی زبان نے جب دوسری زبانوں کے الفاظ کے خزانے کی بدولت وسیع و فصیح ہوئی تو سنسکرت کہلائی اور اس کی حکومت کا ڈنکا بلا شرکت غیر سے بجنے لگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم ویدی زبان علمی کاموں میں استعمال کی جاتی تھی۔
کتبات میں ویدی زبان کے استعمال سے پتہ چلتا ہے کہ یہ علمی کاموں میں استعمال کی جانے لگی تھی۔ بدھوں کے دور میں برہمنی مذہب برابر موجود رہا۔ لیکن اس کی کوئی اہمیت نہیں رہی تھی اور نہ ہی ابتدائی کتبات میں برہمنوں کا ذکر احترام و تقدس کے ساتھ ملتا ہے۔ بقول پروفیسر ہاپکنس کے برہمنی مذہب سمندر کے بیچ میں ایک جزیرے کی طرح رہا مگر یہ ایک چھوٹے سے گروہ کا مذہب تھا۔ برہمنوں کی آبادیاں اگرچہ جگہ جگہ پھیلی ہوئی تھیں۔ مگر برہمنی مذہب کو دوبارہ عروج حاصل کرنے میں بہت عرصہ لگا۔
سنسکرت میں لکھا گیا سب سے پہلا سکہ مغربی کشترب خاندان کا جس کی تاریخ لگ بھگ ۰۰۲ء ہے۔ اس سکے سے پہلے کے سکوں کی عبارت یا تو پالی میں ہوتی تھی یا کسی اور دیسی زبان میں۔ کہیں کہیں کسی سکے پر ایک آدھ حروف ویدی زبان کا نظر آتا تھا۔ یہ حروف دارالضرب کے افسروں یا عمال کی خواہش کا اظہار ہوتا تھا۔ لیکن عام لوگ سکوں پر سنسکرت کی عبارتوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اس لیے وہ ویدی سنسکرت زبان میں سکوں کی عبارت لکھنے سے پرہیز کرتے تھے۔
پانچویں صدی عیسوی تک ویدی سنسکرت ایک مردہ زبان کی حثیت رکھتی تھی۔ اس کے باوجود اسے درس و تدیس کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ تاہم یہ کہنا کہ ویدک درس تدریس کی واحد زبان تھی درست نہیں ہے۔ کیوں کہ مختلف کتابیں پالی زبان میں لکھی جارہی تھیں اور برصغیر میں ویدک مردہ زبان تھی جو بھینٹ چڑھانے یا قربانی میں مستعمل ہوتی تھی۔ اسے جو کچھ امتیاز و تقدس حاصل تھا وہ زیادہ تر مذہبی نوعیت کا تھا اور مذہبی طبقہ ہی اس کا محافظ تھا۔ اس لیے کسی خاص دیسی بھاکا کے مقابلے میں تعلیم یافتہ طبقے سے اس زبان میں زیادہ وسیع دائرے سے خطاب کیا جاسکتا تھا اور اپنا اثر ان پر ڈالا جاسکتا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے مذہبی زبان کے بجائے پہلے پہل دیسی یا ملکی زبان سے کام لیا وہ عام لوگوں کو مخاطب اور انہیں اپنے خیالات سے متاثر کرنا چاہتے تھے۔ یہ اپنی دانست میں ایسے خیالات کی اشاعت کرنا چاہتے تھے جسے وہ اصلاحات سے تعبیر کرتے تھے۔
اس وقت ایک قسم کی زبان عام لوگوں میں بھی رائج تھی۔ مگر اس مردہ ویدک زبان اور اور دیسی زبانوں کے درمیان ایک عجیب بولی پیدا ہوگئی۔ جسے موجودہ سنسکرت کہہ سکتے ہیں اور اس میں دیسی زبان کا عنصر غالب ہوا تو مخلوط دیسی زبان کہہ سکتے ہیں۔ دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ دیسی بھاکا کی معتدد صورتیں اختیار کرنے سے اس میں گرامر (قواعد) کی آخری علامتیں یا لاحقے ایک ایسی صورت میں باقی رہ گئے تھے جو کم و بیش مردہ ویدک زبان کے لاحقوں کی طرح تھے۔ ہندوستانی مصنفین نے سنسکرت (ویدک) کے صرفی و نحوی صورتوں میں اختیار کرنا شروع کیا تو اس کا نتیجہ میں اس زبان میں دوغلہ پن ہو گیا۔ جب انہوں نے دیسی بھاکا کے لفظوں اور ترکیبوں کو مخلوط کرکے استعمال کیا اور بعض الفاظوں میں تھوڑا سا رد بدل کر کے عالمانہ بحثیں اور بعض ترکیبوں سے جو بالکل مصنوعی تھیں اور زندہ زبان میں متروک تھیں گھڑ کر داخل کردیا تو اس کی پہلی صورت کو عامیانہ اور گنوار کہا گیا اور دوسری کو غلط اور صرف تیسری صورت کو صحیح تسلیم کیا گیا۔ دوغلی زبان جسے لوگ اس طرح استعمال کرنے لگے تھے کہ دن بدن ویدک زبان سے ملنے لگی۔ جس میں اب اپنی وجود کو قائم رکھنے کی طاقت نہ رہی اور اس کے بعد چوتھی صدی کے اختتام سے صرف سنسکرت کا استعمال ہونے لگا اور دیسی زبان گویا بالکل فنا ہوگئی۔ گویا جو زبان زندہ تھی اب وہ خود ساختہ زبان میں فنا ہوگئی اور سنسکرت ویدک زبان کی حقیقی وارث بن گئی۔ گویا یہ طفیلی پودا (سنسکرت) اتنا بڑھ گیا کہ اس نے اس حقیقی پیڑ (ویدک) جس سے اس نے جنم لیا تھا اس کو اپنے اندر جذب کرکے اسے بے جان کردیا۔
قدیم سنسکرت دیسی بھاکا (جو سنسکرت سے پہلے ہی نشو و نما پا کر شستہ و برجستہ ہوچکی تھی) کے محاورے اور استعاروں کے بیش بہا ترکے سے مالا مال ہوگئی۔ لیکن طویل و طول مرکبات اور ترکیب و نحو میں افلاس کی وجہ سے وہ ازمنہ وسطیٰ کی لاطینی سے بھی زیادہ ثقیل اور گراں ہے۔ اگر کسی مروجہ زبان سے اس کا موازنہ کیا جائے تو یہ ناقابل برداشت ہوجاتی ہے۔ کسی ایسی زبان میں لکھنا جس میں بولنے اور خیال کرنا بھی مسلہ ہوتا ہے اور مسائل اور بھی بڑھ جاتے ہیں جب اس زبان کی تصانیف مذہب و فلسفہ اور زندگی کے شوشل خیالات میں جمود طاری ہو۔
بظاہر پالی اور دوسری مخلوط بولیاں جن کی تمام ترکیبیں خاص سنسکرت سے اخذ کی گئی ہیں۔ کیوں یہ کہا جاتا ہے کہ قدیم سنسکرت (ویدک) ان زبانوں سے قدیم تر ہے۔ لیکن ایک سکہ یا ایک کتاب یا ایک کتبہ ایسا نہیں ملتا ہے۔ جس کی زبان سنسکرت سے ملتی جلتی ہو وہ پالی سے بعد کا ہوتا ہے۔ کیوں کہ پہلے دیسی بھاکائیں عام استعمال میں ہوتی تھیں۔ پھر بتدریح دیسی بولیوں کے الفاظ اور ترکیبیں جنہیں عالمانہ سمجھا جاتا تھا اس مردہ ویدک زبان میں جو صرف مذہبی طبقوں مستعمل تھی روز بروز زیادہ استعمال کی جانے لگیں۔ یہاں تک کہ آخر کار باقاعدہ سنسکرت ہی تن تنہا استعمال ہونے لگی۔
بدھ سے پہلے کے دور میں مختلف فلسفی اپنے نقطہ ہائے نظر کو جس زبان میں فلسفہ اور مذہب کے مناظرہ اور بحث کر رہے تھے یہ وہ زبان تھی جو ہر جگہ سمجھی جاتی تھی اور جسے کوروں کی مغربی سرزمین سے لے کر مشرق مگدھ تک، شمالاً ساوتھی اور نیپال کے پہاڑوں میں کوہ ہمالیہ اور جنوباً اجین تک بولی جاتی تھی وہ سنسکرت ہرگز نہیں ہوسکتی ہے۔ سنسکرت اس وقت تک پیدا ہی نہیں ہوئی تھی اور اسے برہمنوں کے مخصوص طبقات کے علاوہ کوئی سمجھتا نہیں تھا۔ نہ اس میں اتنی صلاحیت تھی کہ اس قسم کے مباحثوں میں اظہار کی متحمل ہوسکے۔ اس کی نسبت زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک بولی تھی اور کچھ لوگ یا مذہبی طبقہ اسے جانتا تھا۔ اس میں ہر شخص بات نہیں کرسکتا ہے اور ہر قسم کے مسائل پر بحث کرنا صریحاً ناممکن تھا۔ دشت نورد معلم ایسی زبان میں گفتگو کرتے تھے جو مہذب اور تعلیم یافتہ دنیاداروں میں (جن میں عہدہ دار، امرا، سوداگر اور دوسرے عام لوگ شامل رکھتے تھے) عام طور پر رائج تھی۔ یہ زبان مقامی بولی سے وہی تعلق رکھتی تھی جو اس قسم کی زبان کی ترقی اور اس کا نمو صرف اسی زمانے میں ممکن تھا اور یہ زبان اگر کوسلوں کی سلطنت کی ترقی سے نہ بھی پیدا ہوئی ہو تو بھی اس کی نمو میں اس سلطنت کا فروغ بے حد کار آمد ثابت ہوا۔ بدھ مذہب کے نشر و اشاعت سے پہلے اس سلطنت میں وسط ہند کا کل بلکہ اس سے بھی زیادہ کا حصہ شامل تھا۔ اس وسیع مملکت کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک تجارتی اور سرکاری تعلقات انجام پاتے تھے۔ یہی سیاسی وجوہ تھیں جنہوں نے دشت نورد معلموں کے دستور یا ان کے وجود کو سرعت کے ساتھ ترقی بخشی۔ ورنہ ان کے متعلق کوسلوں کی طاقت کے قیام سے پہلے کی کوئی شہادت نہیں ملتی ہے۔ انہوں نے بلاشک و شبہ اس عام زبان کی علمی حثیت کو جس کا نمو کوسلی امن پر انحصار رکھتا تھا فروغ و ترقی دینے میں بے حد مدد کی۔
ویدک زمان جس کا تسلسل سنسکرت ہے اور وہ اس قابل کبھی نہ رہی کہ وہ عام فہم ہو اور لوگوں کو ضرورتیں پورا کرسکے۔ کیوں کہ الفاظ اور ترکیں ضرورت کے تحت وجود میں آتی ہیں اور اس الفاظوں کا خزانہ اس وقت بڑھتا ہے جب یہ عام استعمال ہونے والے الفاظ اور ترکیبیں اس میں مروج ہوجائیں۔ مگر ویدک زبان کبھی بھی عام لوگوں کی زبان نہیں رہی اور ہم پہلے یہ بتا چکے ہیں اس میں کس طرح عام بولیوں خاص کر پالی کی مدد سے اپنے الفاظ کے خزانہ اور ترکیبوں سے اپنی کمی کو پورا کیا تو سنسکرت وجود میں آئی۔ ہم دیکھتے ہیں بدھ جاتکاؤں میں منو، پنی اور چانکیہ وغیرہ کا ذکر نہیں ملتا ہے اور نہ ہی رام، کرشن اور دوسری عظیم انشان سلطنتوں کا ذکر ہے۔ جس کے بارے میں سنسکرت یا برہمی لٹریچر بھرا ہوا ہے۔ البتہ رامائن اور مہابھارت میں بدھوں کے ایسے حوالے ملتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لٹریچر جس کی بنیاد پر برہمنی مذہب کی بنیاد رکھی گئی ہے بدھی دور کے بعد لکھا گیا ہے اور اس کا مقصد ایک طرف تو سنسکرت کی قدامت کو ثابت کرنا اور دوم ہندو مذہب کی تشکیل نو کی جائے۔
سنسکرت کا سحر اصل میں ناٹکوں کے اثر سے بہت کچھ پیچیدہ اور مبہم ہوگیا ہے۔ کیوں کہ اہل یورپ جب ہندوستانی ادبیات سے واقف ہوئے تو انہیں ابتدا میں سنسکرت اور ادبیات میں ناٹکوں سے سابقہ پڑا۔ جس میں چند مقامات کے علاوہ ہر شخص سنسکرت بولتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان میں جہاں عورتوں خصوصاً اعلیٰ طبقات کی عورتوں کی نسبت یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اکثر سنسکرت میں اشعار کہتی اور بات کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس میں اہل یورپ کی غلطی نہیں ہے۔ کیوں کہ انہیں پہلے جو چیز نظر آتی ہے اسی کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
حقیقت میں جس زمانے میں یہ ناٹک لکھے گئے تھے اس زمانے میں ہر شخص نہ تو سنسکرت بولتا تھا اور نہ پراکرت بلکہ محض اپنی مقامی بولی میں بات چیت کرتا تھا۔ گو اس وقت علمی سرگرمیاں سنسکرت میں شروع کردیں گئیں تھی۔ تاہم اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ گپتا خاندان نے سنسکرت کی سرپرستی کی تھی۔ ان کی سرپرستی میں چوتھی صدی عیسوی میں سنسکرت میں علمی سرگرمیوں کا رواج شروع ہوا اور سنسکرت کے کتبات پہلے پہل اسی دور میں لکھے گئے اور ناٹکوں کو سنسکرت میں لکھنے کا رواج ہوا۔ لیکن سنسکرت درباری اور علمی زبان بن جانے کے بعد بھی یہ عام لوگوں کی زبان نہیں تھی۔
ایک اور پہلو یہ ہے کہ اگرچہ برہمن بھی ان دنوں میں مذہبی اور فلسفیانہ مباحثوں میں شریک ہوا کرتے تھے اور ان کا ذکر بھی ادب و احترام سے کیا گیا ہے۔ تاہم انہیں کوئی فوقیت نہ تھی۔ دشت نورد معلموں کی بڑی تعداد اور ان کے نہایت بااثر افراد برہمن نہ تھے اور کتابوں کے دیکھنے سے عام خیال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دشت نورد اور دوسرے غیر مذہبی معلمین کو بھی تمام لوگ بادشاہ، امیر، عہدہ دار، سوداگر، کاری گر اور کسان بھی برہمن کو اپنے برابر اور اپنے سے زیادہ معزز نہیں سمجھے جاتے تھے۔
لیکن یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ یہ کتب بظاہر سخت مخالفین کی تصانیف نہیں ہے۔ یہ راجپوتوں کے زیر اثر لکھی گئیں ہیں اور ان میں برہمنوں کے خلاف تعصب کا اظہار کیا گیا ہے۔ کتب قانون اور داستانہائے رزم میں برہمنوں کو ایسے مرکز سے تعبیر کیا گیا ہے جس کہ گرد ہندوستان میں ہر چیز چکر کھاتی تھی اور اس کی وجہ صرف یہی نہیں کہ ان کا وجود متبرک سمجھا جاتا تھا بلکہ انہیں تمام مخلوق سے نمایاں دماغی تفوق بھی حاصل ہے۔ اس کے سوا ہندوستانی ادبیات اور مذہب کے متعلق اہل مغرب کی کتابیں ان مضامین سے تقریباً بالکل اس طرح بحث کرتے ہیں جس طرح کہ انہیں برہمنوں کی کتابوں میں پیش کیا گیا ہے۔ لہذا ظاہر ہے کہ اس دور کی علمی و دماغی زندگی میں جو ہمارے زیر نظر ہے برہمن ادبی حثیت سے سب پر ضرور فوقیت رکھتا ہوگا۔
لیکن یہ دونوں شہادتیں ایک دوسرے سے بے تعلق نہیں ہیں بلکہ دوسری پہلی سے ماخوذ ہے۔ مغربی مصنفین کو دوسری کتابیں نہیں ملیں۔ اگر مل جاتیں تو وہ خوشی سے اس کی چھان بین کرتے۔ انہوں نے قدرتی طور پر صرف ان کتابوں سے کام لیا جو ان کے سامنے تھیں اور ان کا ایسا کرنا درست فعل تھا۔ قدیم متنوں کے ایڈٹ اور ترتیب کرنے میں انہوں نے قدرتاً سب سے پہلے ان متنوں پر ہاتھ ڈالا جو انہیں سب سے پہلے دستیاب ہوئے۔ لیکن اس بارے میں محض برہمنوں کی تحریروں پر انحصار کرنے اور مغربی ارباب قلم متنوں کے اس بیان پر کہ قدیم ایام میں برہمنوں سے بڑھ کر کوئی نہ تھا کلی طور پر تسلیم نہیں کرتے ہیں اور خود ان میں بھی اختلاف رہا ہے۔
پروفیسر بھنڈارکر جو خود برہمن تھے اور اپنے ایک مضمون میں کتبوں کی شہادتوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ دوسری صدی عیسوی میں ان کتبات میں برہمنوں کے عطیات اراضی کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ تیسری صدی عیسوی میں چند ہی ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ مگر چوتھی صدی عیسوی میں بے شمار کتبات ملتے ہیں۔ جس پتہ چلتا ہے کہ برہمنی اثر میں نمایاں ترقی ہوئی ہے۔ اس کے بعد کے کتبوں میں بیان کیا جاتا ہے کہ خاندان گپت کے راجاؤں نے نہایت پیچیدہ اور قیمتی مثلاً گھوڑوں کی قربانیاں کرائیں۔ ہر دو کتبوں میں سے ایک میں قربانی کے ستون کی تعمیر کے متعلق عطیات اور ایک کتبہ میں سورج کے مندر میں روشنی کرنے کے لیے وقف کا ذکر ہے۔ قربانی کی رسوم کے لیے گاؤں کے عطیات، برہمنوں اور ان کی زیر نگرانی مندروں کے لیے جو اوقات مقرر ہوئے ان کا بھی ذکر ملتا ہے۔ لیکن اس سے قبل چار صدیوں میں (300 ق م سے 100ء) تک کسی برہمن کے مندر، برہمن کے کسی دیوتا، کسی قربانی یا رسم کا حوالہ نہیں ملتا ہے۔ اگرچہ بہت سے عطیات کا ذکر ملتا ہے جو مہاراجاؤں، والیان ریاست، سوداگروں، سناروں، صناعوں اور معمولی لوگوں کی طرف سے دیئے گئے ہیں۔ لیکن ان میں کسی دیوتا یا رسم کے لیے اعانت یا عطیہ نہیں دیا گیا جس سے برہمنوں کو کسی قسم سے تعلق ہو۔ اگرچہ زمانہ مابعد کے کتبات جن میں برہمنوں اور ان کی خاص بھینٹوں کی تائید کی گئی ہے وہ سنسکرت میں ہیں۔ لیکن ابتدائی زمانے میں ملنے والے کتبات جن میں برہمن یا ان کے عطیات کے بارے میں درج ہیں وہ کتبات پالی میں ہیں یا اس مقام کی مقامی بولی میں۔ جو اس بولی سے مشابہ ہیں جو عام کاروبار اور معاملات میں کام آتی تھی۔ جو اسی دیسی بھاکا پر مشتمل ہے جسے دشت نورد معلم بودھ مذہب کے ظہور کے وقت اپنے مباحثوں اور مناظروں میں استعمال کرتے تھے۔
ٍ یعنی دوسری صدی قبل مسیح کے آغاز سے چوتھی صدی بعد مسیح کے اختتام تک کسی عمارت یا کندہ شے کا جو برہمنوں کے مذہب سے مخصوص ہو نام و نشان نہیں ملتا ہے۔ بے شک برہمنی مذہب کی اس عہد میں نشو و نما ہوتی رہی جو اس نے بعد کے میں صورت اختیار کرلی۔ لیکن اس مذہب کو کوئی ممتاز حثیت حاصل نہیں تھی اور لوگوں کی کثیر تعداد جس میں شہزادے سے لے کر ادنیٰ کاریگر شامل تھے بدھ مت کے پیرو تھے اور بقول پروفیسر بھنڈارکر کے کہ ابتدائی کتبات میں برہمنوں کے علم و فضل کا اتنا احترام نہیں کرتی جتنا کہ ان لوگوں کو جو اسے استعمال کرتے تھے۔
پرفیسر ہاپکنس کا کہنا ہے کہ برہمنی مذہب ہمشہ سمندر کے بیچ میں ایک جزیرے کی طرح موجود رہا ہے۔ برہمنی شہادتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کا بالکل جدا گانہ مذہب تھا اور یہ مذہب تمام آریائی آبادی کو بھی اپنے قابو میں لا نہ سکا۔
سینارٹ نے کتبوں پر تحقیق کے بعد یہ ثابت کیا کہ کسی زمانے میں بھی ہجوں یا الفاظ کسی دیسی بھاکا کی درست تصویر پیش نہیں کرتے ہیں کہ وہ درجہ سنسکرت سے بہت ملحق ہوتے جارہے ہیں۔ ایک عجیب و غریب اور دلچسپ تجزیہ حالات کا ہے جس سے ہم سیاسیات، مذہب اور ادب میں آنے والے انقلاب کی آمد کا اندازہ کرلیتے ہیں اور ان کتبوں کی زبان کا تدریحی تغیر (اگر یہ زبان بدلتے بدلتے اصل بھاکا کی صورت اختیار کرتی) ہندوستان کی لسانی تاریخ کرنے میں بے حد معاون ہے۔ ان کو مختصر ان نکات میں پیش کرسکتے ہیں۔
(1) وہ بولیاں جو ہندوستان کے آریا حملہ آور بولتے تھے اور وہ بولیاں جو انہوں نے یہاں کولاری اور دراوڑی باشندوں کو بولتے ہوئے پایا۔
(2) ویدک زبان جس میں وید لکھی گئی ہیں۔
(3) آریاؤں کی وہ بولیاں جنہیں یہ لوگ اپنی نوآبادیوں میں بولتے تھے۔ جو کوہ ہمالیہ کی شاخوں میں کشمیر سے لے کر نیپال تک یا دریائے سندھ کی وادی کے تمام زیریں حصے میں اور وہاں سے اونتی کے پار یا گنگا جمنا کی وادیوں کے کنارے قائم تھیں اور یہ وہ زمانہ ہے جب کہ ان کے اکثر افراد سیاسی تعلقات اور ازواج کے باعث آریاؤں سے مل جل گئے تھے۔
(4) برہمنوں کی زبان جو برہمنوں اور اپنشدوں کی علمی زبان ہے۔
(5) وہ دیسی بھاکائیں جو ظہور بدھ کے وقت گندھار سے مگدہ تک بولی جاتی تھیں۔ غالباً یہ اتنی مختلف نہ تھیں کہ کم و بیش آپس میں سمجھی نہ سکیں۔
(6) روزمرہ کی زبان جو غالباً کوسلوں کے پائے تخت ساوٹھی کی مقامی بولی پر مبنی اور کوسلہ کے عہدہ داروں، سوداگروں، مہذب اور تعلیم یافتہ جماعتوں کے درمیان اور صرف کوسلہ کے علاقے کے طول و بلد میں بلکہ مشرقاً اور مغرباً دلی سے پٹنہ تک اور شمالاً جنوباً ساوٹھی سے اونتی تک مستمل اور مروج تھی۔
(7) متوسط اعلیٰ ہندوستانی یعنی علمی زبان پالی جو (6) پر مبنی تھی اور غالباً اس شکل میں جو اونتی میں مروج تھی بولی جاتی تھی۔
(8) اسوکی بولی جس کی بنیاد (6) پر رکھی گئی تھی اور جو خصوصیت کے ساتھ پٹنہ میں بولی جاتی تھی۔ لیکن (7) اور (11) سے مماثلث پیدا کرنے کے لیے اس میں کچھ تبدیلیاں کردی گئی۔
(9) آردھ مگدھی جو جین انگوں کی بولی تھی۔
(10) لینا بولی جو دوسری صدی مسیح سے قبل غاروں کے کتبوں کی زبان تھی اور (8) پر مبنی. تھی لیکن (11) سے مماثل ہوتے ہوتے اسی میں غائب ہوگئی۔
(11) مستند اعلیٰ ہندوستانی یعنی سنسکرت جو پیرایہ اور الفاظ کے اعتبار سے (4) سے بڑی محنت سے نکالی گئی لیکن (5) اور (7) کے الفاظوں سے مالال کیا گیا پھر ترکیب اور پیرائیے سے اس کو پلٹا کر نمبر (4) کے موافق بنا دیا گیا۔ عرصہ دراز تک یہ صرف مذہبہ مقتدیاں کے مدارس کی علمی زبان رہی اور دوسری صدی عیسوی کے بعد سے آئندہ صدیوں میں اسے پہلے پہل کتبات اور سکوں میں استعمال کیا گیا اور چوتھی ہانچویں صدی کے بعد ہندوستان میں علم و ادب کی زبان بن گئی۔
(12) پانچویں صدی کے بعد کی دیسی بھاکائیں یا زبانیں۔
(13) ان بھاکاؤں نے بلخصوص مہارشٹری کی علمی صورت یعنی پراکرت یہ نمبر (11) سنسکرت سے نہیں بلکہ نمبر (12) سے مشتق ہیں اور نمبر (12) کی بولیاں اپنی بہنوں یعنی نمبر (6) تک تک کی بولیوں کی متاخر صورتیں تھیں۔
عورت کا سلیقہ
میری سَس کہا کرتی تھی ۔ "عورت کا سلیقہ اس کے کچن میں پڑی چُھری کی دھار بتادیتی ہے ،خالی...