(Last Updated On: )
مردم خیز دھرتی خان پور کی 120سالہ علمی و ادبی تاریخ پر مشتمل کتاب ’’ خان پور کا اَدب ‘‘ پر تبصرہ
شاعر اور ادیب اپنے معاشرے کے عکاس ہوتے ہیں یعنی وہ اپنے علاقے کے رہن سہن ، رسم ورواج اور تہذیب و تمدن سے دُنیا کو آگاہ کرتے ہیں یا یوں کہیے کہ وہ اپنے علاقے کی تاریخ صفحہ ٔ قرطاس پہ بکھیرتے ہیں ۔ اس لحاظ سے شعرا ء و اُدبا کو تاریخ دان بھی کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ باقی سب کا اندازِ تحریر مختلف ہوتا ہے ۔ کوئی محبت کے قِصّے لکھ کر انسانی جذبات کی تاریخ مرتب کرتا ہے تو کوئی معاشرتی ناہمواریوں کو قلم بند کرتا ہے ۔ کوئی انسانی روّیوں کی عکاسی کرتا ہے تو کوئی جغرافیائی حدود کا تعین کرکے مختلف جہتوں سے دُنیا کو متاثر کرتا ہے ۔علمی و ادبی حلقوں میںسنجیدہ اورقابل لوگ اپنی صلاحیت اور استطاعت کے مطابق اَدبی رنگ ڈھنگ میں تاریخ مرتب کر رہے ہیں ۔ یہ سب کچھ لکھنے اور ترغیب دینے کے بعد دنیا تک پہنچانے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے ۔ کچھ صاحبِ حیثیت شعرا ء و اُدبا اپنی کتابیں چھپوا کر اپنا لِکھا محفوظ کرلیتے ہیں اور عوام النّاس تک بھی پہنچا دیتے ہیں ۔ شعرا ء و اُدبا کی اکثریت اپنی مالی حیثیت کمزور ہونے کے باعث اپنا لکھا خواہش کے باوجود اپنے مخصوص علاقے سے باہر نہیں پہنچا پاتے اوریوں وہ اپنے سُنہری خواب آنکھوں میں سجائے گم نام ہی اِس دُنیا سے چلے جاتے ہیں ۔اور پھر اَدیبوں کا ایک طبقہ جِسے محقق کہاجاتا ہے وہ میدانِ عمل میں آتے اور اِن گم نام ہیروز کو اُن کی نگارشات کے ساتھ یعنی گودڑی سے لعل نکال کر دُنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ یہ الگ پہچان کے حامل ہوتے ہیں ، اِنہی محققین کی بدولت ہم ماضی کے گم نام اَدبی دنیااور مختلف علمی وا دبی لوگوں سے روشناس ہوپاتے ہیں۔ انہی جوہر شناس شخصیا ت میں ایک نام تحصیل خان پور سے تعلق رکھنے والے محترم محمد یوسف وحید کا ہے ۔ محمد یوسف وحید خان پور سے بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول سہ ماہی رسالہ ’’ بچے من کے سچے ‘‘ گزشتہ 14سالوں سے شائع کر رہے ہیں ۔ حال ہی میں اُردو ، پنجابی اور سرائیکی زبان و اَدب کا ترجمان کتابی سلسلہ سہ ماہی ’’ شعوروادراک‘‘ کا اِجراء بھی اس دھرتی کے لیے خوش آئند عمل ہے ۔ محمد یوسف وحید بطور مضمون نگار ، محقق اور اَدیب منفرد شناخت اور پہچان رکھتے ہیں ۔
محمد یوسف وحید کی حال ہی میں شائع ہونے والی دو کتابیں (۱) گلدستہ ٔ ادب اور (۲) قائد ؒ نے فرمایا ‘ خوب داد و تحسین حاصل کر رہی ہیں ۔ زیرِ نظر کتاب خان پور کی120سالہ مختصر علمی ، ادبی ، صحافتی اور ثقافتی تاریخ پر مشتمل ’’ خان پور کا اَدب ‘‘ جس میں خواجہ غلام فرید ؒ سے لے کر 2020ء تک اُردو ، پنجابی ، سرائیکی ، سندھی ، فارسی ،عربی او دیگر زبانوں میں نثری اور شعری میدان میں کارہائے نمایاں سر انجام دینے والے تمام مرد و خواتین ، شاعروں ، ادیبوں ، صحافیوں اور دیگر اہم شخصیات کا مختصر تعارف و اَحوال اور کلام شامل ہیں ۔
اس کتاب سے دو سال قبل ایم فل اُردو کا مقالہ بعنوان ’’خان پور میں اُردو غزل ‘‘ نذیر احمد بزمی بھی کتاب شکل میں شائع ہوچکا ہے اور اب محمد یوسف وحید نے اِس تسلسل کو بڑی خوب صورتی اور منفرد انداز سے آگے بڑھایا ہے ۔ محمد یوسف وحید نے کتاب ’’ خان پور کا اَدب ‘‘ میں 1900ء سے 2020ء تک اُردو ، پنجابی اور سرائیکی و دیگر زبانوں میں اُدبا ء و شعرا کا تذکرہ و تعارف پیش کرکے اپنے خطے کی بھر پور نمائندگی کی ہے ۔ خصوصاً نثر نگاروں کا بھر پور تعارف پیش کیا گیا ہے ۔
کتاب میں شامل معلومات اس سے قبل 85صفحات پر مشتمل مضمون کی صورت میں بعنوان ’’ شہرِ سخن ۔۔۔خان پور کی ادبی تاریخ ‘‘ سہ ماہی مجلہ ’’ شعوروادراک‘‘ خان پور کے شمارہ نمبر 1میں شائع ہوچکی ہیں ۔ جس کا مطالعہ کرنے سے جہاں خان پور کے اَدبی ہیروز سے آشنائی حاصل ہوتی ہے ، وہیں محترم محمد یوسف وحید کی تحقیق اور محنتِ شاقہ کا بھی معترف ہونا پڑتا ہے ۔
حالیہ تحقیقی کاوش ’’ خان پور کا اَدب‘‘ جہاں خان پور کی اَدبی تاریخ کا مستند اور معتبر درجہ رکھتی ہے ‘ وہیں آنے والے وقت میں یقینا تحقیقی مقالہ جات لکھنے والوں کے لیے معاون و مددگار بھی ثابت ہوگی ۔ اس کارنامے کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہاں کی اَدبی تاریخ کے ایک اَٹوٹ انگ کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا رہے گا ۔ محمد یوسف وحیدکی یہ کاوش قابلِ تحسین او ر صد لائقِ ستائش ہے ۔
٭٭٭