سوچکر زرا دیکھو
جنکو قتل کر ڈالا
جنکو مارڈالا ہے
وہ سبھی تو بچے تھے
پھول تھے گلستاں کے
نجم تھے شبستاں کے
ان پھول جیسے بچوں کو
مامتا کے پالوں کو
گھر کے نو نہالوں کو
ملک کے چراغوں کو
کل کے پاسداروں کو
تم نے مارڈالا ہے
کیا قصورتھا انکا
اپنے دل سے پوچھا ہے؟
کیسے پوچھ سکتے ہو
ذہن و دل جو مردہ ہیں
محسو سات مردہ ہیں
اور ضمیر بھی مردہ
سوچکر ذرا دیکھو
پھر ہو کیسے زندہ تم
جا نتے کہاں ہو تم
چلتے پھرتے جسموں میں
آتی جاتی سا نسوں کو
زندگی نہیں کہتے
تم کو ہے کہاں معلوم
بہترین جذبوں سے
انس اور محبت سے
نرم ونازک رشتوں سے
زندگی مزین ہے
اور پیار سے وفاؤں سے
جذبئہ محبت سے
نرم و نازک رشتوں سے
جو زندگی تمہاری ہے
وہ تو بالکل عاری ہے
سوچکر زرا دیکھو
پھر ہو کیسے زندہ تم
ہاں مگر ہیں وہ زندہ
مامتا کے دامن میں
گھر کے سو نے آنگن میں
ہر بشر کی آنکھوں میں
ہر شجر کی شاخوں میں
دوست میں سہیلی میں
ان بجھی پہیلی میں
بے شمار خوابوں میں
انگنت سوالوں میں
دیدیوں کے آنچل میں
چشمِ تر کے بادل میں
درد کے فسانوں میں
غم کی داستانوں میں
بھیڑ میں اکیلے میں
زندگی کے میلے میں
تتلیوں میں پھولوں میں
ساونوں کے جھولوں میں
ہاں رہینگے وہ زندہ
سوچکر زرا دیکھو
قتل کرکے بچّوں کو
کیا بچے ہو ز ندہ تم؟؟
بلکہ سچ کہوں تو میں
ظلم و جبر و نفرت سے
اور دہشت و خوں سے
لکھی ہوئ عبارت کا
عنوان بن گئے ہو تم
شیطانیت کی زندہ سی
پہچان بن گئے ہو تم
سوچکر زرا دیکھو
سوچکر زرا دیکھو