سانحہ تربت اورانسانی اسمگلنگ ۔۔۔حقیقت پسندانہ تجزیہ
پچھلے ہفتے بلوچستان کے علاقے تربت سے 15 لاشیں برآمد ہوئی ،ان تمام افراد کو قتل کیا گیا تھا ،دہشت گرد تنظیم بی ایل ایف نے اس قتل و غارت گری کی زمہ داری قبول کی ۔مرنے والے تمام افراد کا تعلق سنٹرل پنجاب سے تھا ۔ہیومن ٹریفکنگ کا ایک روٹ ہے ،اور اس روٹ کے بارے میں ریاست کے تمام ادارے جانتے ہیں ،وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس روٹ میں وہ علاقہ بھی آتا ہے جہاں بی ایل ایف کے دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں ،پھر بھی ہیومن ٹریفکنگ ہورہی ہے ۔تین دن بعد تربت کے اسی علاقے سے جہاں 15 لاشیں ملی تھی ،وہی سے 5 اور لاشیں ملی ۔اس کے بعد سنا ہے آپریشن کیا گیا جس میں بی ایل ایف کے ایک کمانڈر کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا گیا ۔پھر بی ایل یف کے خلاف ایک اور آپریشن کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ایک پاکستانی سیکیورٹی اہلکار شہید ہوا ہے ۔سنٹرل پنجاب ہیومن اسمگلنگ کا گڑھ ہے ،یہی سے غریب لوگوں کو اسمگلرز سہانے خواب دکھلا کر یورپ لے جانے کی کوشش کرتے ہیں ،ایک لڑکا تھا علی حیدر جو ان 15 لڑکوں کے ساتھ تھا جو قتل کئے گئے وہ خوش قسمتی سے بچ گیا اور بھاگ کر پنجاب آگیا ۔علی حیدر کا کہنا ہے کہ ہیومن اسمگلرز نے ان کے والدین سے ایک لاکھ پنتیس ہزار روپیئے لئے تھے اور کہا تھا کہ وہ اس کے بچے کو خیر و عافیت سے یورپ پہنچا دیں گے ۔علی نے ٹی وی انٹرویو کے دوران بتایا کہ کچھ ایسے بھی لڑکے تھے جنہیں کہا گیا تھا کہ وہ انہیں مفت میں یورپ پہنچائیں گے اور بعد میں جب وہ یورپ میں کمانے کے لائق ہوجائیں گے تو ان سے پیسے لئے جائیں گے۔علی نے یہ بھی بتایا کہ انہیں پہاڑوں کے تکلیف دہ راستوں سے گزارا جاتا ،بھوک اور پیاس لگتی تو تشدد کیا جاتا کہ چلتے رہو ،ورنہ مار دیئے جاو گے ۔علی کے مطابق ہیومن ٹریفکرز جن لڑکوں اور نوجوانوں کو لے جاتے ہیں ،وہ شدید تشدد بھی کرتے ہیں ۔کس قدر خوفناک بات ہے کہ ہیومن اسمگلنگ یا ٹریفکنگ کی وجہ سے 20 افراد مارے گئے ،ایک سیاستدان ہیں جن کا نام حاصل بزنجو ہے جو نوازشریف صاحب کے اتحادی بھی ہیں کہتے ہیں کہ 20 تو مارے گئے ہیں ،20 افراد ابھی بھی بی ایل ایف والوں نے پکڑا ہوا ہے یعنی انہیں اغوا کیا ہوا ہے ،بہت بڑا آپریشن نہ کیا گیا تو باقی 20 افراد بھی مارے جائیں گے ۔ایشوز کئی ہیں ،دہشت گردی اور ہیومن ٹریفکنگ اس حوالے سے اہم ترین ایشوز ہیں ۔جب خبر مل گئی تھی کہ تربت سے 15 غیر قانونی تارکین وطن کی لاشیں مل گئی ہیں اور تین دن بعد 5 مزید افراد کی لاشیں ملی ہیں تو ایف آئی ائے کو حرکت میں آجانا چاہیئے تھا ،اس کے بعد سنا ہے ایف آئی ائے حرکت میں آئی اور آٹھ انسانی اسمگلروں کو گرفتار کرلیا گیا ،ان سے جعلی پاسپورٹ ،شناختی کارڈز اور دوسری دستاویزات بھی قبضے میں لی گئی ،بھیا اس دنیا میں منشیات کے کاروبار کے بعد ہیومن اسمگلنگ اور ہیومن ٹریفکنگ سب سے بڑا کاروبار بن چکا ہے ،ایک رپورٹ کے مطابق سالانہ 32ارب ڈالرز کا منافع اس کاروبار سے حاصل ہوتا ہے ،پچیس لاکھ انسان سالانہ انسانی اسمگلنگ کا شکار ہوتے ہیں ،ایسا کیوں ہے کہ لوگ پیسہ دے کر یورپ جانا چاہتے ہیں ،اپنے آپ کو موت کے حوالے بھی کرتے ہیں؟خواب تو ان کے یہ ہوتے ہیں کہ بس ایک مرتبہ یورپ پہنچ جائیں ،پھر وہ ڈالروں سے کھیلیں گے ،جگہ جگہ خوبصورت لڑکیاں ہوں گی ،روزگار ہوگا اور ایک شاندار زندگی ہوگی ،یہی خواب لیکر بیچارے نوجوان جاتے ہیں ۔ساتھ ساتھ یہ جو بچے اسمگلرز کے ہتھے چڑھتے ہیں ،مایوسی کا شکار بھی ہوتے ہیں ،انہیں معلوم ہے یہاں نہ روز گار ہے اور نہ ہی عزت ،اس لئے وہ رستے میں مر گئے تو کوئی بات نہیں ،اس ملک میں رہنے سے تو بہتر ہے ،یہ وہ زہنیت ہے جس کی وجہ سے نوجوان اسمگلروں کے ہتھے چڑھتے ہیں ۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو ہیومن اسمگلنگ کا بھی شکار ہے اور یہاں پر وہ ٹرانزٹ روٹ بھی ہے جہاں سے ہیومن ٹریفکنگ ہورہی ہے ۔ایف آئی ائے کے مطابق اس وقت پاکستان کے 87 لاکھ شہری جائز یا ناجائز طریقہ کار سے دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں ،ایف آئی ائے ہیومن اسمگلرز اور ہیومن ٹریفکرز کو پکڑنے کی زمہ دار ہے ،ان کو دو قوانین کے تحت پکڑا جاتا ہے ،ایک human trafficking ordinance 1979,اور دوسرا immigration ordinance 2002،کوئی ہیومن اسمگلر ان قوانین کے تحت جب پکڑا جاتا ہے تو ایف آئی ائے ان کو کم سے کم سات اور زیادہ سے زیادہ چودہ سال کی سزا دے سکتی ہے ۔اس کے علاوہ خصوصی ٹرائل کورٹ بنانے کا اختیار بھی ایف آئی ائے کو حاصل ہے ،سپیڈی جسٹس کے لئے وہ ایسا کرسکتی ہے۔ایف آئی ائے کی دو ہزار سولہ کی رپورٹ کے مطابق ان کی ریڈ بک میں 92اسمگلرز ہیں ،ان میں سے تمام اسمگلرز اور ہیومن ٹریفکرز کا تعلق سنٹرل پنجاب یعنی لاہور،گجرانوالہ ،گجرات ،،سیالکوت ،منڈی بہا الدین وغیرہ سے ہے ،کے پی کے اور بلوچستان میں سے ایک بھی ہیومن اسمگلرز نہیں ،یعنی جس روٹ سے ہیومن اسمگنگ کی جارہی ہے وہاں پر کوئی انسانی اسمگلر کا وجود نہیں ۔یہ کمال کا انکشاف ہے یعنی سنٹرل پنجاب ہی ہیومن اسمگلنگ کاگڑھ ہے اور ہیومن اسمگلرز اور ٹریفکرز کا تعلق بھی سنٹرل پنجاب سے ہی ہے ۔ایف آئی ائے ،ریاستی ادارے اور ایجنسیاں سب جانتے ہیں کہ ہیومن اسمگلرز کون کونسے راستے اختیار کرتے ہیں ،کیسے سنٹرل پنجاب سے تفتان اور پنگجور ان لڑکوں کو لایا جاتا ہے جو اسمگل ہورہے ہوتے ہیں ،کوئی لاہور سے تفتان جائے تو ڈیڈھ ہزار کلومیٹر کا سفر ہے ،راستے میں رینجرز کی چوکیاں ہیں ،ایجنسیوں کا نیٹ ورک ہے ،بارڈر کوسٹ گارڈز ہیں ،کل بھوشن کو تو پکڑ لیا جاتا ہے ،لیکن ان انسانیا سمگلروں اور ٹریفکرز کو نہیں پکڑا جاسکتا ۔اس کا مطلب ہے کہ اس پورے راستے میں رشوت کا ایک گھناونا کاروبار ہے ،سب ملے ہوئے ہیں ،تیس تیس افراد کا گروہ ٹرکوں میں بیٹھ کر کیسے ایرانی بارڈر تک پہنچ جاتا ہے ،یہ وہ سوال ہے جس پر کاش کوئی سوچے،ہر سال پاکستان مین انسانی اسمگلنگ اور ٹریفکنگ بڑھتی جارہی ہے ،ایران ہر سال ہزاروں پاکستانی نوجوانوں کو انسانی اسمگلروں کے چنگل سے نجات دلاتا ہے اور پاکستان کے ھوالے انسانی اسمگلروں کو بھی کرتا ہے اور جو اس کا شکار ہوتے ہیں ،ان کو بھی پاکستان کے حوالے کرتا ہے۔دو ہزار چودہ میں ایران نے 5218,دو ہزار پندرہ میں 28000,دو ہزار سولہ میں 29000,اور دو ہزار سترہ کے نو مہینوں میں 19000 نوجوان جو اسمگل ہو کر یورپ جارہے تھے پاکستان کے حوالے کئے ،لیکن یہ جو ہزاروں بچے یہاں پاکستان سے گئے کوئی بھی گرفتار نہیں کیا جاسکا ،یہ سب سے بڑا سانحہ ہے۔بھائی ایرانی بارڈر فورسز ان کو پکڑ لیتی ہے ،آپ کیا کررہے ہیں ؟کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی انسانی اسمگلنگ میں مقامی سیاستدان ،کچھ ادارے اور کچھ مزید طاقتور افراد ملوث ہیں ،اسی وجہ سے قانون اندھا ہے ،اور انسانی اسمگلرز اور ٹریفکرز آزاد۔بہت ہی طاقتور ایجنٹ ہیں کہ انہیں ریاست پاکستان بھی ہاتھ نہیں لگا سکتی ؟بھیا یہ ایک سنجیدہ انسانی مسئلہ ہے ،کیا کبھی آپ نے سنا کہ کسی اسمگلر کو 14سال کی سزا ہوئی ہو۔بے روز گاری اور غربت کے خاتمے کی وجہ سے جو نوجوان ان ایجنٹوں کا شکار ہوتے ہیں ،وہ بھی ان کا نام نہیں بتاتے ؟ایف آئی ائے کی ریڈ بک کے مطابق اس وقت 13 اسمگلر مفرور ہیں ،جن کا تعلق سنٹرل پنجاب سے ہے اور یہ تمام کہ تمام متحدہ عرب امارات اور برطانیہ میں روپوش ہیں ۔بھیا کیوں ان کو انٹرپول کے زریعے گرفتار نہیں کیا جاسکتا ؟ان کے نظام کو کیوں انٹرنیٹ کے زریعے مانیٹر نہیں کیا جاتا ؟ان کے خلاف اسٹرنگ آپریشن کیوں نہیں ہوتا ؟ان کے خلاف میڈیا مین شعور اور آگاہی کیوں نہیں پھیلائی جاتی ؟بہت سارے طریقے ہیں جس سے ان انسانی اسمگلروں سے نمٹا جاسکتا ہے ،لیکن سب خاموش ہیں ؟ میڈیا نے خبر چلادی پندرہ افراد کی لاشیں ملی ہیں ،پھر کہا گیا کچھ انسانی اسمگلروں کو گرفتار کیا گیا ،بس معاملہ ٹھپ ،یہ ہے پاکستانی ریاست اور میڈیا کا کام ۔اقوام متحدہ کے ہیومن اسمگلنگ کے بارے میں دوپروٹوکول ہیں ،الحمداللہ پاکستان نے ان دونوں پروٹوکول پر دستخط نہیں کئے ہوئے ،یہ ہے ریاست کی سنجیدگی کا اظہار ۔انسانی اسمگنگ کا پاکستان مین سارا کاروبار سنٹرل پنجاب کے سات سے آٹھ اضلاع میں پھیلا ہوا ہے ،کبھی اس حوالے سے کوئی کام ہوا ؟کسی نے تحقیق کی کہ کیسے یہ کاروبار ہورہا ہے ،بھیا یہ ایشو میڈیا میں رپورٹ تک نہیں ہوتا ،یہ ایجنٹ جو قتل کا کاروبار کررہے ہیں ،ان پر قتل کی فرد جرم لگنی چاہیئے ،یہ انسانی زندگی کے قاتل ہیں ،لیکن کسی کو کیا پرواہ؟بھائی منافع بہت ہے ،طاقتوروں کا پاکستان پر راج ہے ،اس لئے کیوں اس حوالے سے سوچا جائے ،صرف نوازشریف کی نااہلی اور جمہوریت دشمنی ہی اہم ہیں ۔پاکستان میں اس جرم کو جرم ہی نہیں سمجھا جاتا اور یہی سب سے بڑا سانحہ ہے ۔جس روٹ سے انسانی اسمگلنگ اور ٹریفکنگ کا کاروبار ہورہا ہے ،یہ وہی روٹ ہے جو دہشت گردوں کا گڑھ ہیں ،یہ وہ روٹ ہیں جو دہشت گرد بھی استعمال کرتے ہیں ،اس کا مطلب ہے انسانی اسمگلر یہاں سے گزرنے کے لئے دہشت گردوں کو بھی بھتہ دیتے ہوں گے کیا ہماری ایجنسیاں اس پر کام کررہی ہین ،یہ تو قومی سلامتی کا ایشو ہے ؟اس بھتے سے دہشت گرد اسلحہ خریدتے ہوں گے جو پاکستان مین دہشت گردی کے لئے استعمال کیا جاتا ہوگا،کیا کبھی اس پر کسی نے غور کیا ؟ہیومن اسمگلرز اور ٹریفکرز قوم اور وطن کے بھی دشمن ہیں ،انسانوں کی زندگیوں کے بھی دشمن ہیں ،مہربانی کریں اس پر سوچیں ،میڈیا کی بھی زمہ داری ہے کہ وہ اس خوفناک معاملے پر تحقیق کرے۔امید ہے ریاست اور میڈیا ملکر اس ایشو پر کام کریں گے ۔ورنہ اسی طرح لاشیں ملتی رہیں گی اور یہ ملک برباد ہوتا رہے گا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔